کمیونزم 2.0: چین، سرمایہ دارانہ نظام اور نئے سوشلزم کی مقبولیت

بھاری صنعت پر مبنی سوویت طرز کے کمیونزم 1.0 سے چین کے مصنوعی ذہانت کی مدد سے چلنے والے کمیونزم 2.0 کی صورت میں بہت بڑی تبدیلی دنیا کے سات ملکوں میں مختلف سطحوں پر دیکھی جا سکتی ہے۔

ہانگ کانگ میں ایک عورت 24 ستمبر 2019 کو چین کے حق میں نعرے لگا رہی ہے (اے ایف پی)

1989 میں سوویت بلاک میں کمیونزم کے خاتمے کے بعد آج بھی پانچ خود ساختہ کمیونسٹ ریاستیں باقی ہیں: چین، کیوبا، لاؤس، شمالی کوریا اور ویت نام۔

بیلاروس اور وینزویلا کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ کمیونسٹ ریاست کے معیار پر پورے اترتے ہیں حالانکہ سرکاری طور پر وہ اس نظریے کے حامی نہیں۔ تو گویا اس وقت یہ تعداد سات ہے۔

پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب سرمایہ داری چین کی معیشت کا انجن ہے تو آج کمیونزم کا مطلب کیا ہے؟ جیسا کہ کچھ لوگ پیش گوئی کر رہے ہیں اگر کمیونسٹ ریاستوں کی تعداد مستقبل قریب میں بڑھتی ہے تو جمہوریت کے لیے اس پیش رفت کا مطلب کیا ہو گا؟

کمیونزم میں میری دلچسپی ایک مورخ کی حیثیت سے میرے کام سے بڑھ کر ایک ذاتی نوعیت کی ہے۔ میری پیدائش اور پرورش 1970 اور 1980 کی دہائیوں کے دوران کمیونسٹ پولینڈ میں ہوئی۔

یہ ایک بے رنگ ملک تھا جہاں لوگوں کی امیدیں دم توڑ چکی تھیں۔ جوتوں اور کافی سمیت تمام بنیادی ضروریات زندگی راشن کارڈ پر ملتی تھیں۔ لیکن راشن کارڈ کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مل جائے گا جو آپ چاہتے ہیں یا وہ جو ضروری ہے۔

کئی گھنٹوں بلکہ بعض اوقات کئی دنوں تک قطار میں لگ کر کھڑے ہونا پڑتا تھا، تھوڑی دیر پہلے ہی پہنچنے والی کوئی چیز دکان سے خرید لینا باقاعدہ ایک واقعہ ہوا کرتا تھا۔

مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ میری پرورش نے میری زندگی کے خد و خال متعین کیے اور میرے کیریئر کو متاثر کیا۔

میری تحقیق نے جدید وسطی اور مشرقی یورپ کی قوم پرستی اور زبان کی سیاست کے جائزہ کو اپنا موضوع بنایا ہے بالخصوص ان خطوں کی جہاں گذشتہ دو صدیوں کے دوران مطلق العنان اور آمرانہ طرز حکومت رائج رہے ہیں۔

 میری جوانی کے دوران 1980 کی دہائی میں لوگوں کے درمیان اشیا کا تبادلہ (بارٹر سسٹم) بہت عام ہو گیا تھا جبکہ سامان کی بہت معمولی مقدار محض امریکی ڈالر سے خریدی جا سکتی تھی۔

آپ موسم گرما کے کسی ڈھیلے ڈھالے لباس کا تبادلہ ٹی بون سٹیک (Kotlet) یا ایسا ریکارڈ پلیئر جس کی آپ کو ضرورت نہیں رہی اس کا تبادلہ بڑے بے بی فارمولا کین سے کر سکتے تھے۔

غصے سے بھرے اور تقریباً مسکراہٹ سے مستقل محروم لوگوں کی منہ دکھائی کے لیے دکان کے قریب قریب خالی شیلفوں پر محض سرکہ ہی مسلسل دستیاب ہوتا تھا۔

مغربی محققین نے اس طرز زندگی کو بیان کرنے کے لیے ایک نہایت مناسب اصطلاح وضع کی ہے۔ انہوں نے اسے ’قلت کی معیشت‘ (economy of scarcity)، پیداوار اور آبادی پر مرکزی منصوبہ بندی کا اثر قرار دیا۔

یہ قلت محض خوراک تک محدود نہیں تھی۔ آزادی کی بھی قلت تھی۔ تمام سوویت بلاک ممالک کی طرح پولینڈ کو بھی ’دو طرفہ بندش‘ میں رکھا ہوا تھا یعنی یہاں تک کہ دوسرے سوشلسٹ ملک کا سفر کرنا بھی دشوار تھا، چاہے وہ پڑوسی ملک چیکوسلواکیہ یا مشرقی جرمنی ہی کیوں نہ ہو (جو دونوں کمیونسٹ ملک تھے)۔

آپ کو یورپ میں ’عوامی جمہوریتوں‘ یعنی سوویت بلاک ممالک میں جانے کے لیے ایک خصوصی پاسپورٹ کے لیے درخواست دینا پڑتی تھی۔

سفر سے واپس لوٹنے پر آپ کو یہ قیمتی دستاویز مقامی ملیشیا کے ہیڈکوارٹر میں جمع کروانا پڑتی تھی، پولیس تب اس عسکریت پسندانہ نام سے جانی جاتی تھی۔

 اگر آپ مغربی جرمنی جیسے یورپ کے کسی سرمایہ دارانہ ملک کا سفر کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو ایک اور قسم کا پاسپورٹ درکار ہو گا۔ لیکن کسی بھی خاندان کے محض ایک فرد کو اجازت ہو گی کہ وہ ’تباہ حال سرمایہ دار مغربی ملک‘ کا سفر کر سکے، اس وقت ان ممالک کا ذکر ایسے ہی کیا جاتا تھا۔

اس طرح آپ کا باقی خاندان ریاست کے ہاتھوں یرغمال بنا رہے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ آپ اپنے ملک کی عیب جوئی کرنے کی ہمت نہیں کریں گے۔

میں نے کبھی ایسا پاسپورٹ نہیں دیکھا تھا جو دنیا کے تمام ممالک جانے کی اجازت دیتا ہو، جس کے ذریعے چند خوش نصیب امریکہ یا آسڑیلیا جا سکتے ہوں۔

مجھے اور بہت سے دوسرے لوگوں کو اپنا آبائی وطن ایک بڑی جیل کی طرح محسوس ہوتا تھا۔ اشاعتی مواد، فلم اور ٹیلی ویژن پر کڑی سنسر شپ کا مقصد ہمیں یہ باور کروانا تھا کہ پولینڈ اور سوویت بلاک میں زندگی نیویارک یا پیرس کی نسبت بہت بہتر ہے۔

لیکن لوگوں کی بہت مختصر تعداد نے اس پروپیگنڈے پر یقین کیا۔ اگرچہ ریاست نے ریڈیو فری یورپ اور وائس آف امریکہ کی نشریات روکنے کی پوری کوشش کی لیکن لوگ چھپ چھپ کر انہیں سنتے تھے۔

80 کی دہائی میں ممنوعہ قرار دی جانی والی کتابوں کے غیر سنسر شدہ ایڈیشن خفیہ طور پر شائع ہوتے تھے جنہیں خریدنا آسان ہو گیا تھا۔

 نوجوانوں کا خواب تھا کہ وہ اس جیل سے فرار ہو کر کسی نارمل ملک میں معمول کی زندگی بسر کریں، ایسی جگہ جہاں راشن کارڈ کا بکھیڑا نہ ہو اور بڑی بڑی مارکیٹوں میں اشیا کا وافر ذخیرہ ہو، جہاں ایک ہی ملازمت کے ذریعے وہ عمدہ طرز زندگی، ایک رہائشی مکان اور گرمیوں کے دوران جزیرۂ کنیری میں چھٹیاں گزارنے کے قابل ہو سکیں۔

اس ہسپانوی جزیرہ نما کے لیے پولش زبان میں رائج نام ’Kanary‘ روز مرہ بول چال میں ناقابل حصول کا متبادل بن گیا۔

ہمارے والدین نے ہمیں خبردار کرتے تھے کہ یہ محض خیالی پلاؤ ہے۔ ان کی نصیحت تھی کہ خاموش رہو، وہی کرو جو اساتذہ یا نگران بتاتے ہیں اور وہ زبان پر کبھی نہ لاؤ جو سوچتے ہو۔

بہرحال کمیونسٹ پارٹی لائن کی ہاں میں ہاں ملانے سے انکار کرنا یا پولینڈ کے سوشلسٹ نظام کی مخالفت تو درکار محض ستائش نہ کرنا بھی یونیورسٹی میں آپ کو پسندیدہ مقام یا رہائشی مکان سے محرومی بلکہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے تک پہنچا سکتا تھا۔

50 کی دہائی میں سٹالن ازم کے عروج کے دوران لوگوں کو ایسی نظریاتی بداعمالیوں کے عوض موت کی سزا بھی دی جاتی تھی۔

لیکن غیر متوقع طور پر مغربی جمہوریتوں اور کمیونسٹ سوویت بلاک کے درمیان سرد جنگ کا 1989 میں اختتام ہوا جس کے بعد محض دو سال کے اندر ہی سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔

یہ کمیونسٹ سپر پاور کم از کم یورپ کی حد تک سادہ اور پرامن انداز سے ہوا میں تحلیل ہو گئی جس وجہ سے کمیونزم ایک سیاسی اور اقتصادی نظام کے طور پر دنیا کے بیشتر حصوں سے غائب ہو گیا۔

ہم آزاد تھے۔ سوویت یونین کے آخری جنرل سیکریٹری میخائل گورباچوف رحمت کا فرشتہ تھے جنہوں نے ہمارا دلی خواب سچ کر دکھایا۔

سوویت رہنما نے فیصلہ کیا کہ اسلحے کی دوڑ میں مغرب کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے لوگوں کو بھوکا مارنا مستقبل کی سمت درست پیش قدمی نہیں۔

اس کے بعد ڈیڑھ دہائی پر محیط عرصے کے دوران بتدریج نظام میں تبدیلی واقع ہوئی جس نے پولینڈ اور ہنگری سے لے کر رومانیہ اور بلغاریہ تک سابق سوویت بلاک کی ریاستوں کو یورپی یونین اور نیٹو کا حصہ بننے کا موقع فراہم کیا۔

 نئی آزادی ملنے کے ساتھ میں نے جنوبی افریقہ اور جمہوریہ چیک میں اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ میں یونیورسٹی کی ملازمتیں ملنے سے پہلے میں نے اٹلی، امریکہ اور جاپان میں تحقیق کی۔

لیکن مرحوم سوویت یونین سے جنم لینے والے پندرہ ممالک میں سے محض بالٹک جمہوریہ ایسٹونیا، لیٹویا، اور لیتھوینیا حقیقی معنوں میں مغربی اور جمہوری ممالک بنے۔

روس سمیت زیادہ تر آمرانہ حکومتوں  کی آماج گاہ بن گئے، چاہے وہ پارلیمانی انتخابات کا ڈھونگ ہی کیوں نہ رچاتے ہوں۔

جارجیا، مولدووا اور بالخصوص یوکرین یورپی یونین اور نیٹو کا حصہ بننے کا امکان مدنظر رکھتے ہوئے حقیقی جمہوری ممالک بننے کے قریب ہیں۔ اس کے باوجود ترکمانستان تقریباً شمالی کوریا کی طرح ہی جابرانہ ہے جبکہ آذربائجان اور ازبکستان تو جابرانہ اور ظالمانہ آمریتوں کی واضح مثالیں ہیں۔

 لیکن کمیونسٹ یا سوویت یونین کے نظام کے خاتمے کے بعد کوئی ایک بھی ریاست خود کو کمیونسٹ نہیں کہلاتی۔

چین آمریتوں کی قیادت کر رہا ہے

 سوویت طرز کے معاشی اور سیاسی نظام کے خاتمے کے بعد ایتھوپیا، افغانستان اور جنوبی یمن کی طرح دنیا بھر میں سوویت یونین کی حمایت یافتہ زیادہ تر کمیونسٹ حکومتیں بھی ختم ہو کر رہ گئیں۔

کمیونسٹ کیوبا اس رجحان میں واحد استثنا ہے۔ کیریبیئن جزیرہ 1961 سے امریکہ کے لیے ایک مستقل کانٹا چلا آ رہا ہے۔

موجودہ عہد کے کمیونزم کی قیادت دنیا کی دوسری سب سے بڑی معاشی طاقت چین کر رہا ہے۔ چین 1949 سے فاخرانہ انداز سے کمیونسٹ چلا آ رہا ہے اور اس وقت امریکہ کا مقابلہ کر رہا ہے جو لڑکھڑاتے ہوئے ہی سہی بہرحال دنیا بھر کے جمہوری ممالک کے سکڑتے ہوئے کیمپ کی قیادت کر رہا ہے۔ 2010 کے بعد ریاستوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد جمہوریت سے اپنے راستے الگ کر چکی ہے۔

گذشتہ دہائی کے دوران نسل کشی کے بعد روانڈا میں جمہوریت کی بساط تیزی سے لپیٹ دی گئی۔ ایتھوپیا میں تیگرے کی خانہ جنگی کے نتیجے میں (جو 2020 سے اب تک جاری ہے) بھی ہوبہو ایسا ہی ہوا جبکہ پورے مشرق وسطی میں عرب بہار کے جمہوری فوائد خاک میں مل کر رہ گئے۔

پوٹن کے روس کی طرح بلغاریہ (2009)، ہنگری(2010)، سربیا (2014)، ترکی (2015)، پولینڈ (2016) اور سلووینیا (2020) میں انتخابات کے ذریعے شخصی حکومتیں قائم کر لی گئیں۔

 چین کی 1.4 ارب آبادی کا مطلب ہے پوری انسانیت کا پانچواں حصہ اس کی کمیونسٹ حکومت میں رہتا ہے۔ دیگر تین خود ساختہ کمیونسٹ لاؤس، شمالی کوریا اور ویتنام، سبھی چین کی سرحد سے متصل ہیں۔ یہ دراصل ایک نیا کمیونسٹ اور Sinic (چینیوں کی عمل داری میں) بلاک بنتا ہے۔

 تو 1989 میں سوویت بلاک کے خاتمے کے نتیجے میں دو دہائیوں پر محیط زوال کے بعد کیا سرمایہ داری کو اپنانے والا چینی طرز کا کمیونزم 2.0 دنیا کا نظام سنبھالنے والا ہے؟

جمہوریت کا عروج و زوال

جیسا کہ سابق سوویت یونین میں سمجھا جاتا تھا، کمیونزم کی سرد جنگ کے بعد ڈھیلی ڈھالی تعریف سرمایہ دارانہ نظام کا سوشلزم کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ایک ہو جانا تھا۔

سوشلزم کا سب سے بڑا اصول جسے مغرب میں کمیونزم کہا جاتا ہے وہ ہے ’ہر ایک سے اس کی صلاحیت کے مطابق، ہر ایک کو اس کی شراکت کے مطابق۔‘

عملی طور پر سوویت طرز کے سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے اس غیر روایتی امتزاج کا مطلب ہے کسی ایک جماعت اور آج کے زمانے میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے ہر چیز پر مکمل گرفت رکھتے ہوئے ایک آمرانہ یا حتی کہ مطلق العنان طرز حکومت کا نفاذ۔ یہ مکمل گرفت اب سرمایہ دارانہ طرز معیشت پر بھی پوری طرح حاوی نظر آتی ہے۔

اس یک جماعتی نظام کے ذریعے ہمیشہ مرد رہنما اکیلے ہی حکومت کرتے ہیں۔

 بالعموم اس کے گرد شخصیت کا ایک ہالہ قائم ہو جاتا ہے جسے فلاحی ریاست کے نام پر مزید پرکشش بنا دیا جاتا ہے۔ ان ریاستوں کی اکثریت خود کو کمیونسٹ کہلاتی ہے۔

بیلا روس اور وینزویلا جیسے دوسرے ممالک دراصل اسے کمیونزم نہیں کہتے بلکہ شاید اس نظریے کو کوئی دوسرا نام دیا جا سکتا ہے مثال کے طور پر وینزویلا میں ’بولیوارینزم‘(Bolivarianism)، بیلاروس میں قومی اتحاد یا شمالی کوریا میں جوچے (Juche)۔

یک جماعتی سیاسی نظام کمیونسٹ پارٹی کو ریاست اور اس کے رہنما کو عملی طور پر آمر مطلق کا درجہ عطا کر دیتا ہے۔

بےلگام اجتماعیت یا صاحب اقتدار آمر مطلق کی ’ایک قوم‘ یا ’عوام‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے افراد پر اجتماعیت کو ترجیح دینے کی خود غرض اور پاپلولسٹ بیان بازی اس کی حکمرانی اور نظام کو جواز فراہم کرتی ہے۔

اسی چیز کو بنیاد بنا کر چین اور بیلاروس جیسے ممالک میں اختلافی آوازوں کو دبایا جا رہا ہے اور انہیں ’صحت مند معاشرے‘ سے الگ کرنے کے لیے حراستی مراکز قائم کیے جا رہے ہیں۔

1989 کی کمیونسٹ ریاستوں کی طرح ان تمام ممالک کی حکومتیں اپنی سرکاری بیان بازی اور اکثر عملی اقدامات میں بھی مغرب مخالف ہیں۔

یہ مغرب مخالف جارحیت بیسویں صدی کی کمیونسٹ ریاستوں کی ایک اور اہم بنیادی خصوصیت تھی۔

لیکن کیا یہ تعداد اکیسویں صدی میں بڑھے گی یا کم ہو گی؟ یورپ میں کمیونزم کے زوال کے بعد دو دہائیوں کے اندر اندر دنیا بھر میں جمہوریت انسانی و سیاسی حقوق کے نظریے کے طور پر بتدریج پھیل گئی۔

آمروں کو شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا کہ کم از کم ظاہری طور پر اپنے ممالک میں انتخابی جمہوریت کا نظام قائم کریں۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل اور فریڈیم ہاؤس نے کامیابی کے ساتھ مطلق العنان حکمرانوں کو اپنے شرمناک طور طریقوں پر نظر ثانی کرنے اور سیاسی قیدیوں کو آزاد کرنے کے لیے مجبور کیا۔

لیکن 2010 کے بعد یہ رجحان بتدریج الٹتا چلا گیا۔ علامتی طور پر، اس سال چینی مصنف اور جمہوریت کے حامی لیو شیاوبو کو امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ بیجنگ، مغرب کے اس اقدام پر سخت برہم ہوا اور لیو، اس کے خاندان اور دوستوں پر شکنجہ کسنے کے لیے متحرک ہو گیا۔

حکام نے لیو کے کینسر کے علاج سے انکار کر دیا اور وہ سات سال بعد قبل از وقت انتقال کر گئے۔

لیو کی راکھ اس لیے سمندر میں بہا دی گئی تاکہ ایک ایسے شخص کی قبر کا قیام روکا جا سکے جسے بہت سے لوگ جمہوری ہیرو اور شہید کے طور پر دیکھتے تھے۔

یہ چین کے جمہوریت پسندوں کے لیے ایک مرکزی مقام ہوتا جہاں وہ لیو کی جمہوریت اور آزادی سے غیر متزلزل وفاداری کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے۔

پھر 2020 میں وبائی مرض نے بیجنگ کے لیے ہانگ کانگ میں جمہوریت کو ختم کرنے کے لیے سنہرا موقع فراہم کر دیا اور ایک مقام جو کبھی سیاسی اور معاشی آزادیوں کے لیے چراغ راہ تھا وہ خود اندھیروں کی لپیٹ میں آ گیا۔ دنیا بھر کے کے آمروں نے اس بات کو نوٹ کیا۔

 ’دولت مند ہونا بہت شاندار چیز ہے‘

 لیکن کیا سرمایہ داری اور منافع کا پورا نظریہ کمیونزم کے مرکزی اصولوں کے لیے سخت قابل نفرت چیز نہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ دو متضاد چیزیں ہم آہنگ کیسے ہوئیں؟

اس وقت کے چینی رہنما ڈینگ شیاوپنگ کی 1978 کی اصلاحات کے نتیجے میں چین میں عملی سیاست سے متعلق ایک حیران کن چیز دریافت کی گئی کہ آپ جمہوریت کے بغیر سرمایہ دارانہ نظام اپنا سکتے ہیں۔

خیالات کی منڈی میں ایک خلا دیکھتے ہوئے ڈینگ شیاوپنگ نے فرمان جاری کیا کہ ’دولت مند ہونا بہت شاندار چیز ہے،‘ یعنی سرمایہ داری نظریاتی طور پر غیر جانبدار ہے اور کمیونسٹ حکومت کی ضروریات کو پورا کر سکتی ہے۔

 سرمایہ داری اور کمیونزم کا موجودہ بیاہ جمہوریت پسندوں کے لیے ایک سبق ہے کہ وہ اپنی من پسندانہ سوچ پر بھروسہ نہ کریں۔ اس کے بجائے سرمایہ دارانہ نظام کی جمہوریت سازی سے متعلق قیاس آرائیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔

یہ بات واضح ہے کہ سرمایہ داری بیلاروس، چین، لاؤس یا ویت نام کو آمرانہ یا مطلق العنان نہیں بناتی یا کسی کو کم آمرانہ یا جمہوریت پسند یا مغرب نواز نہیں بناتی ہے۔

کیوبا، شمالی کوریا اور وینزویلا نے بالترتیب 1948، 1949 اور 1999 میں کمیونسٹ بننے سے پہلے ایک بار سرمایہ داری کو خیر آباد کہہ دیا تھا اور وہ اسے دوبارہ اپنانے سے گریزاں ہیں۔

لیکن 2004 سے غیر جمہوری سرمایہ داری سے چین کی رغبت جسے مغرب میں بیجنگ کے اتفاق رائے کے نام سے جانا جاتا ہے وہ بہت جلد انہیں اسی ڈگر پر چلنے کے لیے مجبور کر سکتا ہے۔

چین کی معاشی کامیابی اگر کئی نسلوں تک چلتی ہے تو وہ نوزائیدہ کمیونزم 2.0 کی مضبوطی کا باعث بن سکتی ہے جس میں سرمایہ داری اس نظریے کا لازمی حصہ ہو گی۔

کمیونسٹ سرمایہ داری اب کوئی متضاد چیز نہیں رہی اور ایسا ہی رہے گا جب تک حکمران کمیونسٹ پارٹی کاروباریوں کو اپنے نظریے اور حکومت کے تابع رکھے گی۔

تو نئی کمیونسٹ 2.0 ریاست کی امتیازی خصوصیات کیا ہیں؟ شاید خود کو کمیونسٹ ریاست قرار دینا سب سے زیادہ واضح علامت ہے اور چاہے بعض ریاستیں اسے مختلف نام دیں یہ ان کے آئین کا حصہ ہے۔

 ان میں شہری اور انسانی حقوق کا دائرہ انتہائی تنگ ہے اور بالعموم ’مغرب کی چال‘ کے طور پر ان کی مذمت کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر چین میں ووٹ ڈالنے کا کوئی انفرادی حق موجود نہیں جبکہ ریاست شہریوں کی لاشوں کی مالک ہے، وہ ان سے جو چاہے کرے۔

اسی درجے کی پامالی شمالی کوریا اور ویت نام میں بھی جاری ہے۔ اس کے علاوہ بیلاروس اور کیوبا میں بھی بڑھتے ہوئے جبر کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

حال ہی میں مغرب ان خطرات سے چونک اٹھا ہے جو اس کی لبرل اور جمہوری اقدار کو درپیش ہو سکتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام تنہا آزادی اور انسانی حقوق کی ضمانت نہیں دے سکتی۔

اس خوف نے کہ کمیونسٹ چین کے سامراجی غلبے کا دور پہلے ہی شروع ہو چکا ہے آسڑیلیا، برطانیہ اور امریکہ کو متحرک ہونے پر اکسایا ہے جیسا کہ اب وہ ایک عسکری معاہدہ کر چکے ہیں۔

ناقص انداز میں اور شاید بیجنگ کی خوشنودی کے لیے Aukus معاہدے سے یورپی یونین کو باہر رکھا گیا ہے۔ 

ٹیکنالوجیکل مطلق العنانیت 

چین میں مطلق العنانیت کے روایتی ہتھکنڈے نظام کی ٹیکنالوجی اور نگرانی سے بڑھتی ہوئی رغبت کے ساتھ اس طرح یکجا ہو گئے ہیں کہ اب انہیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔

مثال کے طور پر سنکیانگ کے مسلمانوں کا مکمل کنٹرول علاقائی آبادی کے ڈی این اے اور آنکھوں  کی پتلی (آئرس) کے بڑے پیمانے پر اکٹھے کیے گئے ڈیٹا بیس کے ذریعے ممکن ہوا۔

بغیر خون بہائے عوام کو پوری طرح اپنی گرفت میں لینے کے لیے ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کمیونزم 2.0 کے بڑے حربے ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہر فرد پارٹی کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے۔

یہ عملی طریقہ کار پالیسی سازی کے امور میں عسکری نگرانی کے بڑھتے ہوئے رجحان میں بھی کارآمد ثابت ہو گا جو کامیاب کمیونسٹ سرمایہ کاری کا مرکزی پہلو بننے جا رہا ہے۔

 مزید کنٹرول کا مطلب ہے اس شعبے میں مزید ملازمتوں کے مواقع جو براہ راست اقتصادی ترقی میں تبدیل ہو جائیں گے، جو بدلے میں دوبارہ اسی نگرانی کی مالی اعانت کریں گے اور یہ مطلق العنانیت کا بہترین فیڈ بیک لوپ ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔

سو اس طرح جبر معیشت کے انجن کے طور پر جانا جانے لگتا ہے جو اگرچہ سب کے لیے نہیں لیکن ایک بڑی تعداد کے لیے خوشحالی کی ضمانت ہوتا ہے۔

 بھاری صنعت پر مبنی سوویت طرز کے کمیونزم 1.0 سے چین کے مصنوعی ذہانت پر مبنی کمیونزم 2.0 میں بہت بڑی تبدیلی کے اثرات ان سات ریاستوں میں مختلف سطحوں پر دیکھے جا سکتے ہے۔

شمالی کوریا بدستور سب سے مختلف اور پوری طرح ایک کمیونزم 1.0 ریاست کے طور پر موجود ہے۔ آج کے دن تک شمالی کوریا نے کمیونزم 2.0 کے راستے پر چلنے سے انکار کیا ہے حالانکہ اسے خاموشی سے چین کئی بار اس سمت میں آنے کا اشارہ کر چکا ہے، اگرچہ ایسے امکانات موجود ہیں کہ یہ تبدیلی وقوع پذیر ہو جائے۔

 درایں اثناء کیوبا اور وینزویلا بھی کمیونزم 1.0 کے قریب ہیں جو آج بھی آئیڈیل ازم اور آئیڈیالوجی کے پیچھے غیر عملی راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔

سپیکٹرم کے دوسرے سرے پر بیلاروس، لاؤس اور ویتنام ہیں جہاں جب تک حکمران جماعت پیداوار اور منافع کنٹرول کر رہی ہے وہ جو کچھ اقتصادی طور پر کارگر ثابت ہو اسے استعمال کر رہے ہیں۔

وہ چین کے سچے شاگرد ہیں جو کمیونزم 2.0 کو نافذ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

جمہوری متبادل

جب تک دنیا کی جمہوریتیں بے روزگاری، گرتے ہوئے معیار زیست و آمدن اور ناقابل رسائی طبی سہولیات جیسے سماجی و اقتصادی مسائل کے پرکشش اور موثر حل کے ساتھ سامنے نہیں آتے مجھے خدشہ ہے کہ کمیونزم 2.0 کہیں آگے نکل جائے گا۔

اس منظر نامے میں کمیونسٹ ریاستوں کی تعداد بڑھے گی اور انفرادی اور سیاسی آزادیاں کم ہو کر رہ جائیں گی۔

چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ (BRI) بالکل اسی قسم کا پرکشش منصوبہ ہے جس سے دنیا کی موجودہ جمہوریتیں محروم ہیں۔

اس منصوبے کا مقصد پورے افریقہ، ایشیا اور یورپ کے گرد ریلوے، سڑکوں اور سمندری راہداریوں کا مربوط سلسلہ قائم کرنا اور اسے آپس میں اس طرح جوڑنا ہے کہ چین سے مصنوعات کی ہموار برآمدات اور اس کمیونسٹ پاور ہاؤس کو خام مال کی باآسانی درآمد ممکن ہو سکے۔

 بی آر آئی پہلے ہی نہ صرف یوریشیا اور افریقہ کے استحصال میں چین کو سہولت فراہم کر رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر کمیونزم 2.0 کی ترویج کے لیے کنویئر بیلٹ کے طور پر بھی کام کر رہا ہے۔

بڑھتے ہوئے آمرانہ رجحانات کے ساتھ چین کے مخصوص فلاحی ریاست کی پالیسیوں کو اپنانے اور تمام قوتوں پر یک جماعتی نظام لاگو کرنے کی خواہش 2015 سے یورپ میں سر اٹھا رہی ہے چاہے یہ بلغاریہ، ہنگری، پولینڈ یا سائبیریا ہی میں کیوں نہ ہو۔

اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ان ممالک کے آمریت پسندانہ رہنما چین کی معاشی و سیاسی ترقی کے گرویدہ ہیں۔

وہ کمیونسٹ سپر پاور کے ساتھ خصوصی تعلقات اور اشتراک کرنے کے خواہشمند ہیں اور ممکنہ طور پر وہ اس کی زد میں آنے والی آخری ریاستیں نہیں ہوں گی۔

 بیجنگ کی خوشنودی کے لیے یورپ کی پرجوش آمریتیں اپنے ملک میں جمہوریت کی بیخ کنی، سیاسی حقوق اور آزادیوں پر قدغنیں لگانے میں مصروف ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2015 سے پولینڈ یورپی یونین کی قانونی ترجیح کے بنیادی اصولوں کو مسترد کرتے ہوئے ترقیاتی امداد کی مد میں ملنے والے دسیوں ارب یورو مسترد کرنے کا خطرہ مول لے رہا ہے۔

2017 میں بڑھتی ہوئی تنقید کے جواب میں پولینڈ کے وزیر اعظم نے ناقابل یقین انداز میں کہا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ایسی صورت میں چین پولینڈ کو برسلز سے کہیں زیادہ رقم کی پیشکش کرے گا۔

 مجھے خدشہ ہے کہ کمیونسٹ پولینڈ میں اپنے بچپن کے بعد مجھے اپنا بڑھاپا کمیونسٹ 2.0 نظام کے نئے جبر میں گزارنا پڑے گا۔

اس کا چہرہ خوشحالی اور اعلیٰ ٹیکنالوجی سے کتنا ہی سجا ہوا کیوں نہ ہو اس ممکنہ مستقبل میں حکمران جماعت کے نقطہ نظر کا نفاذ سائبر سپیس سے پہلے کے سوویت بلاک کے مقابلے میں تیز تر اور زیادہ مطلق العنان ہو گا۔

شہریوں کے ڈی این اے اور آنکھ کی پتلی کے وسیع ڈیٹا بیس کی موجودگی میں ذاتی شناخت کو چھپانا ناممکن ہو گا جبکہ آن لائن، موبائل اور سی سی ٹی وی کی نگرانی ہر جگہ پرائیویسی اور کسی منظم اختلاف رائے کا امکان ختم کر دے گی۔

ہر شخص ریاست کی نظروں میں ہو گا جس کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہو گا کہ وہ آمر مطلق کا حکم مانے یا سب کی نظروں سے اوجھل کسی ’کالی کوٹھڑی‘ یا ایسے حراستی کیمپ میں غائب ہو کر مر جائے جس کا سرکاری سطح پر کوئی ریکارڈ ہی موجود نہ ہو۔

یہاں تک کہ ریاست کے زیر اہتمام ’خود مختار انٹرنیٹ‘ کے عروج کی بدولت ایسے نظریاتی شر پسندوں کی یاد بھی لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو جائے گی۔ جیسا کہ جارج آرویل نے 1984 میں پیش گوئی کی تھی ’جو ماضی کو کنٹرول کرتا ہے وہ مستقبل کو کنٹرول کرتا ہے۔‘

ٹوماس کاموسیلا سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی میں جدید تاریخ کے ایک قاری ہیں۔ یہ مضمون پہلی بار The Conversation پر شائع ہوا تھا۔

 

 

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا