کسی وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوئی

اب تک پاکستان کی تاریخ میں تین وزرائے اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی جاچکی ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔

بےنظیر بھٹو کے خلاف 1988 میں تحریکِ عدم اعتماد پیش کی گئی تھی جو ناکام رہی (اے ایف پی)

اب تک پاکستان کی تاریخ میں تین وزرائے اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی جا چکی ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔

1973 میں جب ملکی آئین نافذ کیا گیا تو اس میں وزیر اعظم اور سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی شق شامل کی گئی لیکن اس آئینی شق کو پہلی مرتبہ ایک فوجی صدر کے دور میں استعمال کیا گیا۔

جنرل ضیا کے دور 1985 میں وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کے سپیکر تحریک عدم اعتماد کا پہلا نشانہ بنے۔ اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی فخر امام کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی جو کامیاب ہوئی اور انہیں عہدے سے ہٹا دیا اور اس طرح حامد ناصر چھٹہ نئے سپیکر بنے۔

قومی اسمبلی میں اب تک پانچ تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ہیں جن میں سے تین وزرائے اعظم اور دو سپیکرز کے خلاف تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزرائے اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے میں 16، 16 برس کا وقفہ رہا ہے۔

سابق فوجی صدر ضیا الحق نے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو عہدے سے ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد کا سہارا نہیں لیا بلکہ آئین میں آٹھویں ترمیم کے تحت قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے اپنا صدارتی استحقاق اختیار کیا اور قومی اسمبلی ہی تحلیل کر دی۔

1988 میں ہونے والے نئے انتخابات کے لگ بھگ ایک سال بعد ہی اس وقت کی متحدہ اپوزیشن نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی لیکن یہ بھی کامیاب نہ ہو سکی۔

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی طرح اس وقت بھی اپوزیشن کے 86 ارکان اسمبلی نے دستخط کیے تھے۔ اس وقت کی حزب مخالف کو 124 کے مقابلے 107 ووٹ ملے اور تحریک کامیاب نہ ہو سکی۔

بےنظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم کی ناکامی کے ٹھیک 10 ماہ بعد اس وقت کے صدر مملکت اسحاق خان نے اپنے پیش رو جنرل ضیا الحق کی طرح قومی اسمبلی کو چلتا کر دیا۔

سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد لگ بھگ 16 برس تک دوبارہ کسی وزیر اعظم کے خلاف کوئی تحریک عدم اعتماد نہیں آئی البتہ اسی دوران دو مرتبہ بےنظیر بھٹو اور ایک مرتبہ نواز شریف کی حکومت کو قومی اسمبلی تحلیل کر کے بر طرف کیا گیا۔

بےنظیر بھٹو کی پہلی حکومت اسحاق خان اور دوسری حکومت کو فاروق لغاری نے صدارتی اختیار کے ذریعے ختم کیا۔

نواز شریف کی پہلی حکومت کو اسحاق خان نے رخصت کیا اور دوسری حکومت کے وقت فوج اقتدار میں آ گئی۔

لگ بھگ 16 برس کے بعد ایک بار پھر ایک دوسرے فوجی صدر کے دور میں اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تاہم اگست 2006 میں پیش ہونے والی یہ قرار داد کامیاب نہ ہو سکی اور شوکت عزیز اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے پہلے جون 2003 میں قومی اسمبلی کے سپیکر چودھری امیر حسین کے جنرل پرویز مشرف کے ایل ایف او کو آئین کا حصہ قرار دینے پر اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ تاہم اس تحریک عدم اعتماد کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

اپوزیشن کا موقف تھا کہ 2002 میں جس وقت ارکان اسمبلی حلف اٹھا رہے تھے اس وقت سبکدوش ہونے والے سپیکر قومی اسمبلی الہی بخش سومرو نے رولنگ دی تھی کہ جنرل پرویز مشرف کا ایل ایف او آئین کا حصہ نہیں ہے۔ایک بار پھر سے 16 برس کے عرصے کے بعد اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لے کر آئی ہے اور اس مرتبہ عمران خان آئینی تحریک کے نشانے پر ہیں۔

اس طرح 16، 16 برس کے وقفے ملک کے تین وزرائے اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئیں ہیں۔

2002  میں آئین کی بحالی کے بعد موجود اسمبلی چوتھی ہے۔ ماضی کی نسبت اب تک تین اسمبلیوں نے اپنی آئینی معیاد مکمل کی ہے لیکن وزرائے اعظم اپنے منصب کی مدت مکمل نہیں کر سکے۔ 1985 سے 1999 تک نہ تو اسمبلی اپنی معیاد مکمل کر سکی اور نہ ہی کوئی وزیر اعظم آئینی مدت پوری کرسکا۔

سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے اقتدار میں قائم ہونے والی قومی اسمبلی نے تین وزرائے اعظم دیکھے۔ ان میں میر ظفر اللہ خان جمالی، چودھری شجاعت حسین اور شوکت عزیز شامل ہیں۔

2008 اور 2013 کی اسمبلیوں نے بھی معیاد پوری کی لیکن وزیر اعظم تبدیل ہوئے۔ یوسف رضا گیلانی کے نااہل ہونے پر راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم بننے جبکہ 2013 میں نواز شریف کی قومی اسمبلی کی رکنیت ختم ہونے پر مسلم لیگ ن نے شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم چنا۔

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اس وقت لائی گئی ہے جب ان کی حکومت کی معیاد مکمل ہونے میں ڈیڑھ برس کا عرصہ باقی ہے۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کو بھی اپنے خلاف اس وقت تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا جب نئے انتخابات ہونے میں ڈیڑھ برس باقی رہ گیا تھا۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کے رائے ہے مخلوط اور سادہ اکثریت والی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اپوزیشن عددی تعداد کی خاطر حکومتی ارکان کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

1989 کی بےنظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے دوران اپوزیشن کے ارکان کو چھانگا مانگا کے مقام پر رکھنے کا الزام سامنے آیا اور اس کی گونج آج بھی سیاسی محفلوں میں سنائی دیتی ہے۔

تبصرہ نگاروں کے مطابق عددی تعداد کے تعاقب میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے کے ارکان اسمبلی کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے جس کوئی اچھا شگون نہیں سمجھا جاتا۔

عمران خان ملکی تاریخ کے پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے قومی اسمبلی سے ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ اعتماد کا ووٹ لیا ہے۔

پہلے اعتماد کا ووٹ عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے فوری بعد لیا جو ایک آئینی تقاضہ ہے۔ دوسری مرتبہ مارچ 2021 میں اس وقت اعتماد کا لیا جب سینیٹ کے انتخابات میں حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں شکست ہوئی۔

ادھر قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد ایک آئینی طریقہ ہے لیکن 18 ترمیم کے بعد تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری پر ارکان اسمبلی اپنی جماعت کے فیصلے کے خلاف رائے شماری میں حصہ نہیں لے سکتے اور ایسا کرنے پر اسمبلی کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔

1997 میں نواز شریف نے فلو کراسنگ کو روکنے کے لیے آئین میں 14 ویں ترمیم متعارف کرائی اور اس وقت اپوزیشن لیڈر بینظر بھٹو نے اس غیر مشروط حمایت کی تھی

ماہرین قانون کے بقول تحریک عدم اعتماد کے لیے مخالفین کے ارکان اسمبلی کو اپنے ساتھ شامل کرنا ایسا ہے جیسے تحریک عدم اعتماد لانے کے آئینی طریقے کے لیے غیر آئینی طریقہ اختیار کیا جائے۔

قومی اسمبلی کے علاوہ سینیٹ کے چیئرمین صادق سجرانی کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی اور اپوزیشن کو عددی برتری کے باوجود خفیہ رائے شماری میں مات ہوئی۔

ماضی میں صوبائی اسمبلیوں میں تحریک عدم اعتماد کی گونج سنائی دی گئیں۔

اس کے علاوہ 1973 کے آئین سے قبل دسمبر 1957 میں اس وقت کے وزیرِ اعظم ابراہیم اسماعیل چندریگر کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تھی مگر وہ بھی کامیاب نہیں ہو سکی تھی کیوں کہ انہوں نے اس سے قبل ہی استعفی دے دیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ