حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو آج کل حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے۔
تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے موجودہ سیاسی صورت حال بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے اور تجزیہ کاروں کے خیال میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں پاکستان تحریک انصاف کی سیاست پر اثر پڑے گا۔
2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے ماضی کے برعکس اپنی نشستوں کی تعداد میں تو خاطرخوا اضافہ کیا تھا لیکن حکومت بنانے کے لیے درکار سادہ اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اسے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت بنانی پڑی تھی۔
ان اتحادی جماعتوں میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، بلوچستان عوامی پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ق اور آزاد ارکان قومی اسمبلی شامل تھے۔
تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں آنے والے دن ان اتحادیوں کی حکمران جماعت کو حمایت اور پی ٹی آئی کے اپنے اراکین کی وفاداری کی آزمائش ہو گی۔
مختلف تجزیہ نگاروں اور صحافیوں کا خیال ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں پی ٹی آئی کے لیے اپنی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
تجزیہ کار وجاہت مسعود نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وزیر اعظم عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔
’وہ دوبارہ جولائی 2011 کی پوزیشن پر واپس چلے جائیں گے۔ ان کی جیب میں جو ہیرے موتی یا اثاثے ڈالے گئے تھے وہ بھی ان کے ہاتھ سے واپس چلے جائیں گے۔‘
بقول وجاہت مسعود ویسے تو عمران خان کی فین فالوونگ پہلے سے تھی لیکن ’عوام میں جو ان کی پسندیدگی پیدا کی گئی اور ان کے لیے سیاسی تعاون ایک خاص طبقے میں پیدا ہوا وہ ان کی ساڑھے تین سالہ حکومت میں دکھائی گئی کارکردگی کے سبب باقی نہیں رہے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں، تحریک عدم اعتماد منظور ہونے کی صورت میں عمران خان یا ان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف کا کوئی مستقبل نہیں دیکھتا۔ کم و بیش یہی مستقبل ہوگا جو 2008 کے بعد ہم نے مسلم لیگ ق کا دیکھا۔‘
وجاہت مسعود کا مزید کہنا ہے کہ ’اگر یہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جاتی ہے تو وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی مشکلات ختم نہیں ہوں گی بلکہ کہنا یہ چاہیے کہ صحیح معنوں میں ان کا آغاز ہو جائے گا۔
اس تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ان کی سیاسی قوت بہت زیادہ بکھر چکی ہو گی۔ ان کی حکومت اس وقت بھی اور تحریک عدم اعتماد کے بعد عملی طور پر مفلوج ہو گی۔‘
ان کے مطابق ’جہاں تک حزب اختلاف کا تعلق ہے تو اس کے لیے ناکامی کا سوال اس لیے نہیں کیونکہ پاکستان میں موجودہ حزب اختلاف استعارہ ہے جمہوریت پسندوں کا۔
وزیراعظم عمران خان کا دوسری جانب کہنا ہے کہ حکومت سیاسی محاذ پر مستحکم اور پراعتماد ہے۔ انہوں نے یہ بات پنجاب کے گورنر چوہدری محمد سرور اور وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار سے لاہور میں جعمرات کو گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پنجاب کی سیاسی صورت حال سے متعلق فیصلے تمام متعلقہ افراد کے ساتھ مشاورت کے بعد کیے جائیں گے۔
سابق نگران وزیر اعلیٰ اور تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا: ’اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو تحریک انصاف حزب اختلاف میں بیٹھے گی۔ وہ لوگ جو ان کے ساتھ شامل ہوئے اور پھر چھوڑ گئے تو پارٹی تو ان کے آنے سے پہلے بھی موجود تھی۔
’ٹھیک ہے کہ اس وقت وہ اتنی مقبول نہیں تھی بلکہ 2011 کے بعد یہ ایک نمایاں پارٹی بنی۔ میرا خیال ہے کہ یہ حزب اختلاف کی ایک اہم پارٹی کے طور پر کام کرتی رہے گی۔‘
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد کیا عمران خان کے دیگر ساتھی بھی انہیں چھوڑ جائیں گےَ؟
اس سوال کے جواب میں حسن عسکری کا کہنا تھا کہ ’جو لوگ پاکستان کی تاریخ سے واقف ہیں وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کچھ ساتھی آپ کے ساتھ اقتدار کی وجہ سے ہوتے ہیں، کچھ مصلحت کی وجہ سے۔ لیکن ایک ہارڈ کور پارٹی اپنی جگہ موجود رہے گی۔‘
ان کے مطابق’ اگر تحریک انصاف کے ہاتھ سے اقتدار چلا بھی جائے تو جماعت ختم نہیں ہوگی۔ دیکھا جائے تو 2011 میں تحریک انصاف اقتدار میں نہیں تھی تواس وقت بھی جماعت قائم تھی ہاں اس وقت انہیں بہت زیادہ تعاون حاصل نہیں تھا۔ اور وہ انہیں وقت کے ساتھ ساتھ ملا۔‘
ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ ’تحریک عدم اعتماد ناکام ہو یا کامیاب پاکستان میں دونوں صورتوں میں ایک دوسرے کے خلاف تنازع اور مخالفت کی صورت حال کا ماحول قائم رہے گا۔ اور اگر یہ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تب بھی حزب اختلاف ان کے لیے کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا رکھے گی۔‘
حسن عسکری کے مطابق اب پاکستان کی سیاست اتنی آسان نہیں ہوگی۔ ’سیاست میں کافی خرابیاں پیدا ہونے والی ہیں۔‘
’اقتدار میں ہوں یا نہ ہوں پاکستان کے اندر سیاست دانوں کی اقتدار کی جنگ جاری رہے گی۔ مسائل کی بات کریں تو جو ہمارے ہاں زبان استعمال کی جارہی ہے یا جو طریقہ کار استعمال ہوتا ہے یہ چیزیں پہلے سے شدید ہو جائیں گی جبکہ ملک کے اقتصادی اور دیگر مسائل کی جانب توجہ کم ہو گی۔‘
ان کے مطابق ’اس وقت حزب اختلاف اور تحریک انصاف کے درمیان جو مقابلہ ہو رہا ہے اس کا عوامی مسائل سے ہمیں کوئی تعلق نظر نہیں آتا کیونکہ اگر عوامی مسائل حل کرنے ہوتے تو حزب اختلاف کوئی متبادل حل دیتی۔
’ان کا مقصد عمران خان کو ہٹانا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تب بھی ان کا جھگڑا چلے گا اور اگر عمران خان عہدے سے ہٹا بھی دیے جاتے ہیں تب عمران خان جھگڑا کریں گے۔ سیاست اسی طرح چلے گی جبکہ عوام کے مسائل اپنی جگہ جوں کے توں قائم رہیں گے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینیئر صحافی مبشر بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’موجودہ سیاسی صورت حال میں جو اشارے مل رہے ہیں، یوں لگتا ہے کہ یہ اتحادی اور وہ الیکٹیبلز جو ماضی میں اپنا مختلف سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے پی ٹی آئی میں آئے تھے وہ واپسی کا سوچ رہے ہیں۔
’وزیر دفاع پرویز خٹک کے بھائی عنقریب جمعیت علمائے اسلام یا پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلیں گے۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی پیپلز پارٹی میں واپس جا چکے ہیں۔ اس طرح کے بہت سے واقعات آنے والے دنوں میں رونما ہو سکتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عمران خان اپنی جماعت کو بہت مضبوط کر سکتے تھے لیکن وہ ایسا کچھ نہیں کر پائے جس سے پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا۔
’مجھے لگتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں پی ٹی آئی کو بہت بڑا سیاسی دھچکا پہنچے گا اور اگلے انتخابات میں وہ شاید 2013 والی پوزیشن پر چلے جائیں جس میں ان کی 33 نشستیں تھیں۔
’عمران خان فی الوقت اپنی مدت پوری کریں گےلیکن دوبارہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنا شاید ان کا خواب رہے۔‘