تحریک عدم اعتماد: کیا اپوزیشن حکومت کو سرپرائز دے سکتی ہے؟

حزب اختلاف کی جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد كی كامیابی كے ضامن اپنے ترپ كے پتوں كو فی الحال سینے سے لگا ركھا ہے، اور قومی اسمبلی میں اپنے نئے حمایتیوں كی شناخت آشكار كرنے سے گریز كر رہی ہیں۔

سال 2018 كے انتخابات كے نتیجے میں وجود میں آنے والی موجودہ قومی اسمبلی میں پاكستان  تحریک انصاف عددی اعتبار سے سب سے بڑی قوت ہے، جس نے دوسری جماعتوں كی حمایت سے وفاقی حكومت بنا ركھی ہے(تصویر: ریڈیو پاکستان)

پاكستان میں حزب اختلاف كی جماعتیں وزیراعظم عمران خان كے خلاف  تحریک عدم اعتماد كو كامیابی سے ہمكنار كرنے كے لیے پارلیمان كے ایوان زیریں (قومی اسمبلی) میں مطلوبہ اراكین كی حمایت حاصل كرنے كا دعوی كر رہی ہیں۔ 

تاہم اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد كی كامیابی كے ضامن اپنے ترپ كے پتوں كو فی الحال سینے سے لگا ركھا ہے، اور قومی اسمبلی میں اپنے نئے حمایتیوں كی شناخت آشكار كرنے سے گریز كر رہی ہیں۔ 

پاكستان میں كسی منتخب سربراہ حكومت (وزیراعظم) كے خلاف  تحریک عدم اعتماد كی كامیابی یا ناكامی كا انحصار قومی اسمبلی میں حلیف اور حریف اراكین كی تعداد كے فرق پر منحصر ہوتا ہے، اور موجودہ ایوان میں اسی نمبرز گیم كی تبدیلی یا عدم تبدیلی وزیر اعظم عمران خان كے مستقبل كا فیصلہ كرے گی۔ 

موجودہ قومی اسمبلی میں اراكین كے وفاداریاں تبدیل كرنے سے متعلق صحافی اور سیاسی تجزیہ كار افتخار احمد كا كہنا تھا: ’یہ ایک بہت tricky معاملہ ہے، ہر امكان ففٹی ففٹی ہوتا ہے، لیكن میرے خیال میں اپوزیشن نے تیاری بھر پور كر لی ہے۔‘ 

انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت میں انہوں نے امكان ظاہر كیا كہ حزب اختلاف كی جماعتیں آنے والے دو سے تین روز میں قومی اسمبلی میں  تحریک عدم اعتماد كا نوٹس جمع كروا دیں گی۔ 

ان کے مطابق ’یہ ثابت كرتا ہے كہ اپوزیشن جماعتیں تیار ہیں، اور ان كے اراكین كی تعداد پورے ہونے سے متعلق دعوے بہت زیادہ غیر حقیقت پسندانہ نہیں ہیں۔‘

دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے گزشتہ روز ایک ٹویٹ میں حزب اختلاف كی وزیر اعظم كے خلاف ممكنہ تحریک عدم اعتماد كی ناكامی كی نوید دی تھی۔ 

صحافی اور وی لاگر شاكر سولنگی كا سلسلے میں كہنا تھا كہ ’حزب اختلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد كے حق میں حمایت حاصل كرنے كے دعوے تو كر رہی ہے تاہم ابھی  تحریک  پیش كرنے سے متعلق حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے۔‘

انہوں نے كہا كہ ’اپوزیشن كی نو ركنی كمیٹی نے لیڈرشپ كو تحریک عدم اعتماد كے امكانات اور دوسرے پہلوؤں سے متعلق حتمی رپورٹ پیش كرنا ہے، جس كے بعد آخری فیصلہ ہو گا۔‘

قومی اسمبلی میں كس كا كتنا وزن 

وزیر اعظم عمران خان كے خلاف ممكنہ  تحریک عدم اعتماد كی كامیابی یا ناكامی كے امكانات جاننے كے لیے قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں كے اراكین یا حكومتی اور حزب اختلاف كی نشستوں كی تعداد معلوم ہونا بہت ضروری ہے۔ 

سال 2018 كے انتخابات كے نتیجے میں وجود میں آنے والی موجودہ قومی اسمبلی میں پاكستان  تحریک انصاف عددی اعتبار سے سب سے بڑی قوت ہے، جس نے دوسری جماعتوں كی حمایت سے وفاقی حكومت بنا ركھی ہے۔ 

پاكستان میں وفاقی حكومت كو قومی اسمبلی میں  تحریک  انصاف كے 155 اراكین كے علاوہ مسلم لیگ ق (5)، متحدہ قومی موومنٹ پاكستان (7)، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (3)، عوامی مسلم لیگ (1)، بلوچستان عوامی پارٹی (5)، جمہوری وطن پارٹی (1) اور دو آزاد اراكین اسمبلی كی حمایت حاصل ہے۔ 

حكومتی اتحاد كے برعكس اپوزیشن كی نشستوں پر براجمان اراكین اسمبلی میں پاكستان مسلم لیگ نون (84)، پاكستان پیپلز پارٹی (56)، متحدہ مجلس عمل پاكستان (15)، عوامی نیشنل پارٹی (1)، بلوچستان نیشنل پارٹی (4) اور دو آزاد شامل ہیں۔ 

یوں 341 اراكین پر مشتمل قومی اسمبلی میں حكومتی جماعتوں سے تعلق ركھنے والے ایم این ایز كی تعداد 179 ہے، جبكہ 162 اراكین قومی اسمبلی اپوزیشن بینچز كا حصہ ہیں۔

كامیابی یا ناكامی كیسے ممكن؟ 

 آآئین پاكستان كے آرٹیكل 95 كے مطابق ایوان كی كل تعداد كے 20 فیصد اراكین كے دستخطوں سے وزیر اعظم كے خلاف قومی اسمبلی كے سیكریٹیریٹ میں  تحریک عدم اعتماد جمع ہو سكتی ہے، جبكہ اسے كامیابی یا ناكامی سے ہمكنار كروانے كے لیے اس كے حمایتیوں یا مخالفین كو ایوان میں سادہ اكثریت (یعنی 51 فیصد ووٹ) ثابت كرنا ہو گی۔ 

قومی اسمبلی میں مختلف سیاسی جماعتوں یا گروہوں كے اراكین كی تفصیل سے اندازہ لگایا جا سكتا ہے كہ حزب اختلاف كے پاس وزیر اعظم عمران خان كے خلاف  تحریک عدم اعتماد جمع كروانے كے لیے 20 فیصد اراكین كی تعداد موجود ہے۔ 

تاہم وزیر اعظم كے خلاف  تحریک  عدم اعتماد كو كامیاب بنانے كے لیے حزب اختلاف كو ایوان میں 172 اراكین (كل تعداد كا 51 فیصد یا سادہ اكثریت) دركار ہو گی، جو حكومتی بینچز میں سے مدد كے بغیر ناممكن ہے۔ 

حمایت كہا سے آسكتی ہے؟ 

اپوزیشن كو وزیر اعظم عمران خان كے خلاف  تحریک  عدم اعتماد كامیاب بنانے كے لیے قومی اسمبلی كے مزید كم از كم دس اراكین كی حمایت دركار ہو گی۔ 

تاہم حزب اختلاف كے مختلف رہنما 20 سے 25 حكومتی ایم این ایز كو  تحریک  عدم اعتماد كے حق میں رام كرنے كا دعوی ركھتے ہیں، اور حیرت انگیز طور پر ان اراكین كا تعلق  تحریک  انصاف سے بتایا جا رہا ہے۔ 

صحافی شاكر سولنگی كا كہنا تھا كہ ’جمیعت علما اسلام فضل الرحمن، پاكستان پیپلز پارٹی اور پاكستان مسلم لیگ نواز  تحریک  انصاف كے بالترتیب دو، چھ اور 17 ایم این ایز كو اپنے ساتھ ملانے كا دعوی كر رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’یہ ایم این ایز مستقبل كے عام انتخابات جماعتوں كے ٹكٹوں پر الیكشن لڑنے كے خواہش مند ہیں، اور اسی لالچ میں عدم اعتماد كی تحریم میں عمران خان كے خلاف ووٹ ڈال سكتے ہیں۔‘

جمیعت علما اسلام كے مركزی امیر اور حزب اختلاف كی جماعتوں كے اتحاد پاكستان جمہوری  تحریک  (پی ڈی ایم) كے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی  تحریک انصاف سے تعلق ركھنے والے 20 اراكین كی عدم اعتماد كے حق میں حمایت حاصل كرنے كا دعوی كرتے رہے ہیں۔ 

یہاں یہ امر قابل ذكر ہے كہ موجودہ قومی اسمبلی میں پچاس سے زیادہ ایسے اراكین موجود ہیں جو كبھی بھی پاكستان  تحریک انصاف كے ركن نہیں رہے، تاہم 2018 كے انتخابات میں  تحریک  انصاف كے ٹكٹ پر كامیاب ٹھہرے، یا الیكشن كے بعد حكومتی بینچز پر بیٹھنے كا فیصلہ كیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان اراكین میں آزاد اراكین كے علاوہ ایسے ایم این ایز بھی شامل ہیں جو ماضی میں اپوزیشن پارٹیوں كے سرگرم ركن رہ چكے ہیں۔ 

صحافی افتخار احمد كا كہنا تھا كہ ’اس وقت اپوزیشن  تحریک انصاف كے ایسے ایم این ایز پر كام كر رہی ہے جو ماضی میں ان (اپوزیشن پارٹیوں) كے ساتھ رہ چكے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’عمران خان حكومت كی پالیسیوں نے ان اراكین كو مایوس كیا ہے، اور اب وہ اپنا سیاسی مستقبل محفوظ بنانے كی خاطر اپوزیشن كی بڑی پارٹیوں كے ساتھ رابطے استوار كر رہے ہیں، تاكہ آنے والے الیكشنز میں انہیں ٹكٹ مل سكیں۔‘

انہوں نے مزید كہا كہ ’اپوزیشن كی وزیر اعظم كے خلاف  تحریک عدم اعتماد كی كامیابی میں پی ٹی آئی كے ناراض رہنما جہانگیر خان ترین كا گروپ ایک اہم كردار ادا كر سكتا ہے۔‘ 

افتخار احمد نے بتایا: ’جہانگیر ترین علاج كی غرض سے بیرون ملک جانے سے پہلے اپنے حمایتی اراكین كو واضح ہدایات دے چكے ہیں، كہ انہیں كیا كرنا ہو گا۔‘

انہوں نے مزید كہا كہ ’جنوبی پنجاب سے تعلق ركھنے والا سرائیكی ایم این ایز كا گروپ بھی عمران خان كی حكومت سے الگ سرائیكی صوبہ نہ بنانے كے باعث نالاں ہے، اور کوئی بھی سرپرائز دے سكتا ہے۔‘

دوسری حكومتی جماعتیں 

گزشتہ ایک ہفتے كے دوران حزب اختلاف كی جماعتوں كے رہنما مسلم لیگ ق كے چوہدری برادران اور متحدہ قومی موومنٹ پاكستان كے رہنماوں سے ملاقاتیں كرتے رہے ہیں۔ 

ان ملاقاتوں سے یہ تاثر ملا كہ شاید  تحریک انصاف كہ یہ دونوں حمایتی جماعتیں عدم اعتماد كی  تحریک  میں اپوزیشن كا ساتھ دے سكتی ہیں، تاہم دونوں پارٹیاں ملک میں تبدیل ہوتی سیاسی صورت حال كے پیش نظر واضح حكمت عملی كا اعلان نہیں كر رہے ہیں۔ 

اپوزیشن كی ملاقاتوں كے وزیر اعظم عمران خان نے بھی گجرات كے چوہدریوں اور ایم كیو ایم كے رہنماوں سے ملاقاتوں كے علاوہ اپنی جماعت كے ناراض رہنما جہانگیر ترین سے بھی رابطے استوار كیے ہیں۔ 

صحافی اور تجزیہ كار انصار عباسی كے خیال میں گجرات كے چوہدریوں كی حمایت یا مخالفت وزیر اعظم عمران خان كے خلاف پیش ہونے والی  تحریک عدم اعتماد كے مستقبل كے فیصلے سے متعلق اہمیت كی حامل ہو گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست