وزارتیں اور فنڈز: تحریک عدم اعتماد روکنے کی کوشش؟

ملک کے سیاسی منظر نامے میں جہاں وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد لانے کی باتیں کی جارہی ہیں، وہیں حکومت نے بھی اپنے ’دفاع‘ کے لیے ’تیاریاں‘ شروع کر رکھی ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان  چار فروری 2022 کو چینی دارالحکومت بیجنگ میں  سرمائی اولمپک گیمز کی افتتاحی تقریب  میں شریک ہیں ۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے تحریک عدم اعتماد کے باعث اراکین کو راضی کرنے کے لیے فنڈز کا اجرا کیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ملک کے سیاسی منظر نامے میں جہاں وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد لانے کی باتیں کی جارہی ہیں، وہیں حکومت نے بھی اپنے ’دفاع‘ کے لیے ’تیاریاں‘ شروع کر رکھی ہیں۔

ایک طرف حکومت کی جانب سے وفاق اور پنجاب میں وزارتیں دینے کا اعلان کیا گیا ہے تو ساتھ ہی اپنے اراکین کو پنجاب میں 350 ارب روپے ترقیاتی فنڈز کی مد میں جاری کرنے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرادری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جب سے پی ڈی ایم قیادت شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن سے مل کر حکومت کے خلاف ایوانوں میں تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا ہے، اس سے سیاسی ماحول میں کافی ہل چل دیکھی جارہی ہے۔

خاص طور پر جب سے اپوزیشن قیادت کی حکومتی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور ناراض دھڑے جہانگیر ترین گروپ سے رابطوں کی باز گشت سنائی دی تو معاملہ سنجیدہ ہوتا جا رہا ہے۔

اپوزیشن قیادت کے رابطوں کے بعد گذشتہ دو دن میں جہانگیر ترین گروپ نے لاہور میں جبکہ مسلم لیگ ق نے اسلام آباد میں اپنے اپنے اجلاس کیے، جن میں اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے تحریک عدم پر مشاورت کی گئی ہے۔

مسلم لیگ ق کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ کی زیر صدارت ق لیگ کے پارلیمانی پارٹی اجلاس کے دوران اپوزیشن رابطوں پر مشاورت ہوئی۔

اس اجلاس میں حکومت کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا گیا۔ پارٹی اراکین نے معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور پیٹرولیم مصنوعات کی حالیہ بڑھائی گئی قیمتیں واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ ق لیگ کے اراکین نے تحریک عدم اعتماد سمیت تمام سیاسی فیصلوں کا اختیار چوہدری پرویز الہیٰ کو دے دیا ہے۔

تاہم اس سے قبل چوہدری مونس الہیٰ وزیراعظم کی موجودگی میں انہیں آن ریکارڈ یہ یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ مسلم لیگ ق ان کے ساتھ کھڑی رہے گی اور اپوزیشن سے ملاقاتیں ’سیاسی میل جول کا حصہ‘ ہیں۔

دوسری جانب جہانگیر ترین کی زیر صدارت لاہور میں پی ٹی آئی رہنما عون چوہدری کی رہائش گاہ پر بھی ایک اجلاس ہوا۔ اس اجلاس سے متعلق عون چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے اپوزیشن اور حکومتی عہدیداروں کی جانب سے رابطوں کے بعد اجلاس منعقد کیا تھا، جس میں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے شرکت کی۔‘

انہوں نے کہا کہ اجلاس میں اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پر حمایت کی پیش کش کی گئی ہے اور حکومتی عہدیداروں نے حکومت کے ساتھ رہنے کی درخواست کی ہے۔

عون چوہدری کے بقول: ’اجلاس کے شرکا نے حکومتی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے اور ہمارے گروپ کو حکومت کی جانب سے مسلسل نظر انداز کیے جانے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’بڑھتی مہنگائی اور غربت کے پیش نظر ہمارے اراکین بھی آئندہ انتخابات میں کامیابی پر پریشان ہیں، تاہم شرکا نے فیصلوں کا اختیار جہانگیر ترین کو دے دیا ہے اور وہ حکومت یا اپوزیشن کا ساتھ دینے سے متعلق فیصلہ کرنے میں بااختیار ہوں گے۔‘

انہوں نے تصدیق کی کہ ان کے اپوزیشن رہنماؤں سے رابطے جاری ہیں اور آئندہ ملاقات کا بھی امکان ہے۔ اس کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) بھی حکومتی رویے پر تحفظات کا اظہار کرچکی ہے اور اپوزیشن سے ان کے رابطوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

کیا وزارتیں اور فنڈز اراکین کو راضی کرنے کے لیے ہیں؟

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گل نے اپنے بیانات میں انکشاف کیا کہ وزیراعظم عمران خان جلد وفاقی اور پنجاب کابینہ میں تبدیلیاں کریں گے۔

حکومت کی اتحادی جماعت بی اے پی نے گذشتہ ہفتے مطالبہ کیاتھا کہ بلوچستان میں نمائندگی کے لیے وفاقی وزارتوں میں حصہ دیا جائے کیونکہ ابھی تک ان کی جماعت سے صرف ایک وفاقی وزیر زبیدہ جلال شامل ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے حکومت نے مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہیٰ کو بھی وفاقی وزارت دی تھی اور اس جماعت سے طارق بشیر چیمہ پہلے ہی وفاقی وزیر ہیں۔ اس جماعت کے حصہ میں پہلے دو وزارتیں آچکی ہیں۔

پنجاب میں بھی کابینہ بڑی کرنے کی منظوری بدھ (16 فروری کو) دورہ لاہور کے دوران وزیراعظم عمران خان نے دی۔ اس اضافے کے بعد صوبے میں کابینہ 41 رکنی ہوجائے گی۔ واضح رہے کہ 371کے ایوان میں آئینی طور پر زیادہ سے زیادہ 41 کابینہ اراکین کی ہی گنجائش موجود ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکومتی اعلامیے کے مطابق پنجاب کے ہر ضلعے میں ترقیاتی کاموں کے لیے مختص شدہ بجٹ 350 ارب میں سے ہر ضلعے کو 10 سے 15 ارب روپے جاری کیے جارہے ہیں۔

اس معاملے پر ترجمان پنجاب حکومت حسان خاور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ وزیراعظم پنجاب میں چار وزارتوں کی مزید منظوری دے چکے ہیں۔ یہ وزارتیں ایسے اراکین کو دی جائیں گی، جنہیں پہلے کوئی ذمہ داری نہیں ملی۔

تاہم انہوں نے کہا کہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ یہ ذمہ داریاں کن اراکین کو سونپی جائیں گی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ پنجاب میں جہانگیر ترین گروپ کو راضی کرنے کے لیے وزارتیں دینے کا فیصلہ ہوا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’جو بھی پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے ہیں یا ہمارے اتحادی ہیں، ان تمام اراکین کا وزارتوں کی ذمہ داری پر پورا حق ہے لیکن ابھی تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا کہ یہ ذمہ داریاں کس گروپ کے اراکین کو دی جائیں گے لیکن جلد ہی نام سامنے آجائیں گے۔‘

حسان خاور کے بقول: ’وزارتیں دینے کا فیصلہ محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے کیا گیا ہے، کسی سیاسی حکمت عملی کے تحت نہیں۔‘

اس معاملے پر مسلم لیگ ن کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’دنیا کو نہ گھبرانے کا مشورہ دینے والے خود گھبرا گئے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’جو فنڈز جاری کرنے کو کرپشن قرار دیتے تھے، نوکریاں بانٹنے کو بددیانتی کہتے تھے اور وزارتوں کو غیر ضروری کہا جاتاتھا۔ اب تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لیے اراکین کو نوکریوں کا کوٹہ دیا جا رہا ہے۔‘

عظمیٰ بخاری کے ماطقب: ’پنجاب میں 350 سو ارب روپے کی ترقیاتی فنڈز مختلف حکومتی اراکین کو جاری کرنا شروع کر دیے ہیں اور اب اتنی بڑی کابینہ کے باوجود بلیک میل ہوکر وفاق اور پنجاب میں وزارتیں بھی مذید تقسیم کی جارہی ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ نوکریاں، فنڈز یا وزارتیں تحریک عدم اعتماد کا راستہ نہیں روک سکیں گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست