تحریک عدم اعتماد: حکومتی اتحادیوں اور اپوزیشن کی ’سنجیدہ‘ ملاقاتیں

اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں، تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ’پاکستان میں کسی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوئی۔‘

متحدہ قومی موومنٹ  کے  رہنماؤں کی مسلم لیگ ن کے صدر  شہباز شریف کی  ماڈل ، ٹاؤن، لاہور میں  واقع رہائش گاہ میں آمد اور ملاقات (مسلم لیگ ن میڈیا سیل)

پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ایک بار پھر ہلچل شروع ہوچکی ہے اور وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے لاہور اہم ملاقاتوں کا مرکز بن گیا ہے۔

سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری جنہیں ’سیاسی جوڑ توڑ کا بادشاہ‘ سمجھا جاتا ہے، گذشتہ ایک ہفتے سے لاہور میں ہیں، جہاں پہلے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے گھر ظہرانے پر انہوں نے لیگی قیادت سے ملاقات کی اور پھر چوہدری برادران کی رہائش گاہ پر ق لیگی قیادت سے ملاقات ہوئی۔

اسی طرح حکمران اتحاد کی بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی قیادت نے بھی چوہدری برادران اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے ان کی رہائش گاہ پر جاکر ملاقات کی۔

پارلیمنٹ میں اقتدار کی گیم تبدیل کرنے سے متعلق چاروں جماعتوں کے درمیان ملاقاتوں سے اپوزیشن کی جانب سے ایوان میں حکومت کی تبدیلی کا تاثر مضبوط ہونے لگا ہے۔

تاہم تجزیہ کاروں کے خیال میں ’اپوزیشن کی چال‘ سنجیدہ لگتی ہے لیکن ابھی ماحول اتنا واضح نہیں ہوا، جس کی بنیاد پر حتمی طور پر کہا جاسکے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی یا نہیں۔

اپوزیشن کی ملاقاتیں اور دعوے

سب سے پہلے آصف علی زرداری اور شہباز شریف کی ملاقات میں تحریک عدم اعتماد پر اتفاق کا اعلان کیا گیا اور پھر پیپلز پارٹی قیادت نے چوہدری برادران کو اپوزیشن کا ساتھ دینے پر ’سیاسی فارمولہ‘ پیش کیا۔ اسی طرح مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم قیادت کی ملاقات میں بھی موجودہ سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔

شہباز شریف سے ملاقات میں ایم کیو ایم قیادت کی جانب سے بھی تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کا ساتھ دینے سے متعلق پارٹی میں مشاورت کا عندیہ دیا گیا۔

مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایم کیو ایم کو حکومتی اتحاد سے نکلنے کی دعوت دی ہے اور عدم اعتماد کے حوالے سے ایم کیو ایم کو پیغام دے دیا ہے۔ بقول شہباز شریف: ’میرا دل کہتا ہے کہ یہ میری باتوں سے متفق ہیں۔‘

اس حوالے سے ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’تحریک عدم اعتماد سمیت تمام آپشنز پر اپوزیشن نے اپنا ایجنڈا دے دیا ہے اور اس حوالے سے فیصلہ رابطہ کمیٹی سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔‘

مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ’چند دنوں میں پی ڈی ایم کے اجلاس میں اپنے رابطوں اور مسلم لیگ ن کی مشاورت پر سب کو اعتماد میں لیں گے کیونکہ حکومت سے جان چھڑوانا ضروری ہے۔‘

مسلم لیگ ن کی قیادت نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف پہلی بار قانونی طور پر حکومت مخالف تحریک عدم اعتماد پر رضامندی ظاہر کر چکے ہیں۔

اسی طرح سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ ’بعض حکومتی اراکین بھی رابطے میں ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی تیاری جاری ہے اور جب پیش کی جائے گی تو حقائق سب کے سامنے آجائیں گے۔‘

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی اعلان کر چکے ہیں کہ ’موجودہ حالات میں حکومت کو قانونی راستے سے ہٹانا جمہوری حق ہے، جسے استعمال کیا جائے گا۔‘

کیا تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوسکتی ہے؟

اس سوال کے جواب میں سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد سے متعلق کوششیں تو کافی سنجیدہ ہیں اور جس طرح حکمران اتحاد کی جماعتوں سے ملاقاتوں میں معاملات طے کر کے انہیں ساتھ ملانے کی کوشش جاری ہے، اگر انہیں رضامند کرلیا گیا تو وزیراعظم کے لیے مشکل کھڑی ہوسکتی ہے۔‘

تاہم انہوں نے کہا: ’مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں آج تک کبھی کسی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس بار کامیابی کے لیے اپوزیشن کو بہت زور لگانا پڑے گا تاکہ تاریخ بدل سکے۔‘

سہیل وڑائچ کے مطابق: ’حکومت کے اتحادی ابھی تک تو زیادہ خوش دکھائی نہیں دیتے اور اگر انہیں حکومت نے راضی نہ کیا تو وہ اپوزیشن سے مل سکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا: ’یہ بات بھی درست ہے کہ اپوزیشن ایک بار سینیٹ انتخابات میں یوسف رضا گیلانی کو پارلیمنٹ سے اراکین کی تعداد کم ہونے کے باوجود سینیٹر منتخب کروا چکی ہے تو حکومتی اراکین اور اتحادیوں میں حکومتی حمایت کے حوالے سے لچک تو موجود ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن لین دین کے وعدوں پر کس حد تک اتحادیوں کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگی یا آیا حکومت ان کے تحفظات دور کر کے دوبارہ ساتھ رکھنے میں کامیاب ہوجائے گی۔‘

سینیئر اینکر منصور احمد خان بھی اپوزیشن کی کوششوں کو سنجیدہ سمجھتے ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سےگفتگو میں انہوں نےکہا کہ ’سیاسی درجہ حرارت بڑھتا دکھائی دے رہا ہے اور اپوزیشن قیادت کی تحریک ماضی سے زیادہ سنجیدہ نظر آرہی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ابھی تک حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن تیاری سے لگ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں اپوزیشن پارلیمنٹ میں حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے، تاہم سڑکوں پر لانگ مارچ یا احتجاج سے کوئی زیادہ پریشر بنتا نظر نہیں آرہا کیونکہ حکومتوں کو لانگ مارچ یا دھرنے سے ہٹانا مشکل ہے۔‘

منصور احمد خان کے مطابق: ’جس طرح پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم نے 26 فروری اور 23 مارچ کو الگ لانگ مارچ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے، وہ صرف سیاسی ماحول بنانے کی کوشش ہے۔ اس سے حکومت کو نہیں گرایا جاسکتا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی جو سپورٹ ماضی میں رہی ہے، وہ اب دکھائی نہیں دیتی، لہذا تحریک عدم اعتماد کی صورت میں حکمران جماعت کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت 2018 جیسی ممکن نہیں لگتی۔‘

حکومت کیا کہتی ہے؟

دوسری جانب ان تمام دعوؤں اور سیاسی ہلچل کو حکومتی وزرا اپوزیشن کی ’غیر سنجیدگی‘ قرار دے رہے ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں کہا کہ ’اپوزیشن جماعتوں کی سینیٹ میں اکثریت ہے لیکن وہاں عدم اعتماد تو کیا بل تک پاس کرنے میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتے۔ یہ اپوزیشن جماعتیں انتہائی غیر سنجیدہ ہیں۔‘

نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’جیسے ہی اپوزیشن رہنماؤں کے کیسوں کی تاریخیں آتی ہیں، یہ آپس میں جڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔‘

فواد چوہدری کے بقول: ’یہ تاثر درست نہیں کہ اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کیسوں میں دم نہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز سزا یافتہ مجرم ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’شہباز شریف نے عدالت میں درخواست دی کہ کمر درد کی وجہ سے حاضر نہیں ہوسکتے اور اسی دن آصف زرداری کو ظہرانے پر بلا کر ملاقات کی گئی۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست