اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے حکومت مخالف تحریک میں ایک بار پھر حکمت عملی تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
پہلے اسمبلیوں سے استعفوں اور فوری لانگ مارچ سے متعلق فیصلہ موخر کرکے ضمنی انتخابات اور سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا گیا اور اب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمنٹ میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تجویز دے دی ہے، جس پر حتمی فیصلہ چار فروری کے اجلاس میں کیا جائے گا۔
دوسری جانب حکومت نے تحریک عدم اعتماد کو اپوزیشن کی جانب سے ’چوری بچانے کی جدوجہد‘ قرار دیتے ہوئے تحریک ناکام ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے جاننے کے لیے مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر کامران مائیکل سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کی تجاویز پر مشاورت کے بعد حتمی فیصلہ چار فروری کو اجلاس میں ہوگا، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی تجویز بروقت ہے اور اس بار پارلیمنٹ میں سپیکر یا وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات واضح ہیں کیونکہ اپوزیشن اراکین تو ساتھ ہیں ہی، حکومتی اتحادی اور کئی پی ٹی آئی اراکین بھی اپنی حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہیں اور ان پر حلقوں کے لوگوں کا دباؤ ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی تھی تو اب کیسے کامیابی ممکن ہے؟ جس کامران مائیکل نے جواب دیا کہ ’ہم یہی تو چاہتے ہیں کہ غیر جمہوری قوتوں کا کردار روکا جائے، جس طرح سینیٹ میں ان پر تنقید ہوئی اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کا موقف عام انتخابات میں دھاندلی پر ثابت ہوا۔ اگر آئندہ بھی ایسا کرنے کی کوشش ہوئی تو پھر ہمارے موقف میں مزید جان ڈل جائے گی کیونکہ عوام اب سب کچھ جانتے ہیں۔ ان حالات میں کسی کا بھی کردار ادا کرنا مشکل ہوجائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ سے بھی گفتگو کی اور پوچھا کہ ان کی جماعت نے تحریک عدم اعتماد کی تجویز کیوں پیش کی؟
جس پر انہوں نے بتایا: ’ہم پی ڈی ایم کے سامنے اپنی تجویز دلیل کے ساتھ پیش کریں گے اور انہیں پارلیمنٹ میں سپیکر یا وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر دلائل دیں گے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’ کامیابی سے متعلق جو تجاویز ہیں وہ پی ڈی ایم میں ہی پیش کر سکتے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ چیئرمین پیپلز پارٹی اس بارے میں قابل عمل تجاویز رکھتے ہیں، جن سے یہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوسکتی ہے۔‘
قمر زمان کائرہ نے کہا: ’جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا تعلق ہے تو اس وجہ سے سیاسی جدوجہد روکی تو نہیں جاسکتی، لیکن پیپلز پارٹی نے اپنی جمہوری جدوجہد ہمیشہ جاری رکھی تو کیا اس کے بعد کامیابی نہیں ملی؟ لہذا اب بھی جمہوری انداز میں ضرور کامیاب ہوں گے۔‘
اس معاملے پر جمعیت علمائے اسلام کے ترجمان اسلم غوری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پی ڈی ایم مختلف سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے، جس میں ہر جماعت کا اپنا موقف اور تجویز ہوسکتی ہے لیکن جب اس پر بحث ہوتی ہے تو جو قابل عمل ہوں، ان تجاویز پر اتفاق ہوجاتا ہے۔‘
نئی پیش رفت کے حوالے سے اسلم غوری نے بتایا: ’پیپلز پارٹی کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک پر موقف سننے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔ جہاں تک ہماری جماعت کا موقف ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد ناکام بنائی گئی، اب بھی وہی حربے استعمال ہوں گے۔ حکومت کو ہٹانے کے لیے عوامی طاقت کا ستعمال ہی واحد حل ہے تاکہ حقیقی جمہوریت بحال ہوسکے۔‘
حکومت کیا کہتی ہے؟
وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کہتے ہیں کہ ’اپوزیشن اپنی دشمن خود ہے۔ کبھی جلسے کرتے ہیں کبھی اسمبلیوں سے استعفوں کا اعلان کرتے ہیں اور کبھی لانگ مارچ کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ان کا صرف ایک ہی ایجنڈا ہے کہ حکومت کو بلیک میل کرکے کیس واپس کروائے جائیں اور کرپشن کا پیسہ ہضم کرنے کی رعایت دی جائے، جس طرح پرویز مشرف سے این آر او لیے گئے تھے۔‘
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں شبلی فراز نے کہا کہ ’جس طرح عوام نے پی ڈی ایم کے جلسے مسترد کیے، اسی طرح تحریک عدم اعتماد پر بھی ان کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ ہمیں ان کی دھمکیوں کی پرواہ نہیں بلکہ دہائیوں سے جاری لوٹ مار کا حساب لینے کے موقف پر ڈٹے رہیں گے۔‘
شبلی فراز نے مزید کہا کہ ’ان دھمکیوں کو عوام نے بھی مسترد کر دیا اور حکومت بھی بلیک میل نہیں ہوگی۔ وزیر اعظم نے کرپشن کے خلاف جو سٹینڈ لے رکھا ہے، اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘
دوسری جانب وفاقی وزیر پرویز خٹک نے ایک بیان میں کہا کہ ’پی ڈی ایم کا پلیٹ فارم چوری بچاؤ مہم چلا رہا ہے، جس کی حکومت کو کوئی فکر نہیں کیونکہ جب بھی کسی کی چوری پکڑی جائے تو بچنے کے لیے خوب شور شرابا مچایا جاتا ہے۔ اگر عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو انہیں اپنی اوقات کا اندازہ ہوجائے گا اور پی ٹی آئی ایک بار پھر اپنی کامیابی ثابت کرے گی۔‘