پی ڈی ایم اجلاس: مولانا کو محسن داوڑ کی شرکت پر اعتراض کیوں؟

منگل کو اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں شریک ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما محسن داوڑ کی شمولیت پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ کس حیثیت سے اس اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں؟

اجلاس میں شریک رکن نے بتایا کہ مولانا نے کہا کہ وہ محسن داوڑ کی شرکت پر باقی پارٹیوں کے نمائندگان سے بات کریں گے کہ وہ کس حیثیت سے اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں (تصاویر: اے ایف پی/ انڈپینڈنٹ اردو)

انڈپینڈنٹ اردو کو ذرائع کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے حالیہ اجلاس میں اس اپوزیشن اتحاد کے صدر اور جمعیت علمائے اسلام ف کے  سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے رکن قومی اسبملی اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما محسن داوڑ کی شمولیت پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ کس حیثیت سے اس اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں؟

اجلاس میں شریک ایک رکن نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ منگل (17 نومبر کو) اسلام آباد میں ہونے والے اس اجلاس میں 11 سیاسی جماعتوں کے نمائندگان شریک تھے۔ اجلاس کے دوران مولانا فضل الرحمٰن کے کچھ کمنٹس پر محسن داوڑ نے اعتراض کیا تو مولانا نے ان کی اجلاس میں شمولیت پر اعتراض اٹھا دیا۔

مذکورہ رکن کے مطابق: 'مولانا فضل الرحمٰن نے اجلاس کے دوران قبائلی علاقوں کے انضمام کو مغرب کا ایجنڈہ کہتے ہوئے اسے قبائلی عوام کے ساتھ زیادتی قرار دیا تو اس پر محسن داوڑ نے اعتراض اٹھایا۔'

یاد رہے کہ پی ٹی ایم نے بارہا یہ واضح کیا ہے کہ وہ غیر پارلیمانی تنظیم ہے اور  ان کے جتنے بھی رہنما پارلیمانی سیاست میں حصہ لیتے ہیں وہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے اور ان ارکان کی نہ تو پی ٹی ایم مخالفت اور نہ حمایت کرتی ہے جبکہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں محسن داوڑ ذاتی حیثیت میں شریک ہوتے ہیں۔

اجلاس میں شریک مذکورہ رکن کے مطابق: 'محسن داوڑ نے مولانا کو بتایا کہ اس انضمام کے لیے قبائلی عوام نے قربانیاں اور کوششیں کی ہیں اور اسی کے نتیجے میں انضمام ممکن بنایا گیا ورنہ اگر مغرب چاہتا تو اگر وہ ایک انگریز قانون اس علاقے پر سو سال مسلط کر سکتا تھا تو وہ اس کا انضمام بھی جلد ہی کروا سکتا تھا۔'

انہوں نے مزید بتایا: 'جس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے محسن داوڑ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اجلاس کو بتایا کہ ان کو قبائلی اضلاع میں جلسوں کی اجازت نہیں ہے جبکہ یہ لوگ (پی ٹی ایم) بغیر کسی روک ٹوک کے جلسے منعقد کرتے ہیں اور ان کو کچھ نہیں کہا جاتا، جس پر محسن داوڑ نے مولانا کو بتایا کہ وہ جلسہ ہم نے زور زبردستی کیا ہے او ہمیں ابھی تک اس جلسے کا اجازت نامہ نہیں ملا ہے۔'

مذکورہ رکن نے بتایاکہ مولانا نے محسن داوڑ کی پی ڈیم ایم اجلاس میں شرکت پر بھی اعتراض کیا کہ وہ کس حیثیت سے اجلاس میں شریک ہو رہے ہیں، جس کے جواب میں محسن داوڑ نے بتایا کہ وہ شروع دن سے آل پارٹیز کانفرنس کا حصہ ہیں اور وہ ذاتی حیثیت میں بحیثیت اپوزیشن رہنما اس اجلاس میں شریک ہیں۔

'اس پر مولانا نے کہا کہ اگر یہ پارٹی سربراہان کا اجلاس ہے تو یہاں پر آپ کی پارٹی (پی ٹی ایم) کے سربراہ کو شریک ہونا چاہیے، جس پر محسن داوڑ نے بتایا کہ وہ ذاتی حیثیت سے اس اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔'

مذکورہ رکن کے مطابق: 'بات اس پر ختم ہوگئی جب مولانا نے کہا کہ وہ محسن داوڑ کی شرکت پر باقی پارٹیوں کے نمائندگان سے بات کریں گے کہ وہ کس حیثیت سے اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں اور کیا آئندہ ان کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دینی چاہیے یا  نہیں۔ '

مولانا کو محسن داوڑ کی شمولیت پر اعتراض کیوں؟

مولانا فضل الرحمٰن بظاہر ابتدا سے ہی پشتون تحفظ موومنٹ کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دو سال قبل ایک تقریب کے دوران مولانا نے پی ٹی ایم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'مجھے لوگ کہتے ہیں کہ پی ٹی ایم والے اچھی باتیں کر رہے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ اچھی باتیں تو طالبان بھی کرتے تھے لیکن پھر بعد میں کیا ہوا تھا۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح مولانا نے مزید کہا تھا: 'میرا خیال ہے کہ جو چیز جلد ہی نمودار ہوجائے، اس کے بارے میں فوراً کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے کیونکہ پی ٹی ایم کے مطالبات تو جائز ہے اور نوجوان اس میں شامل ہیں اور اس کو سپورٹ بھی کرنا چاہیے لیکن اس کو باقاعدہ دیکھنا چاہیے کہ کہیں لوگ اس کا شکار نہ ہو جائیں۔'

اسی طرح محسن داوڑ کو پی ڈی ایم کے لاہور جلسے میں شرکت کی دعوت بھی نہیں دی گئی تھی، جو سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث رہا، جس پر محسن داوڑ نے کہا تھا کہ دعوت نہ دیے جانے کے باوجود بھی وہ اس الائنس کو سپورٹ کریں گے اور اس کا حصہ بنیں گے، تاہم اس سے قبل کراچی کے پی ڈی ایم جلسے میں محسن داوڑ کو دعوت دی گئی تھی اور وہاں پر انہوں نے خطاب بھی کیا تھا۔

مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے اجلاس میں شرکت پر اعتراض کے حوالے سے جب محسن داوڑ سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ 'وہ اجلاس کی اندورنی باتوں پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتے،' تاہم انہوں نے اس بات کی تردید نہیں کی کہ مولانا نے ان کی شمولیت پر اعتراض کیا ہے۔

پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں کیا کہتی ہیں؟

مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے محسن داوڑ کی پی ڈی ایم اجلاس میں شرکت پر اعتراض کے بارے میں عوامی نیشنل پارٹی، جو پی ڈی ایم کا حصہ بھی ہے، کے صوبائی ترجمان ثمر ہارون بلور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے محسن داوڑ  کی اجلاس میں شمولیت پر سوال اٹھانا بجا ہے کیونکہ یہ الائنس سیاسی پارٹیوں کا حصہ ہے اور محسن داوڑ کسی سیاسی پارٹی کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں۔'

ثمر  بلور نے مزید بتایا: 'ہم پی ڈی ایم میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندگان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس الائنس کو سیاسی پارٹیوں کا ایک متحدہ الائنس سمجھتے ہیں جبکہ مولانا کی جانب سے محسن داوڑ کی ذاتی حیثیت میں اجلاس میں شرکت پر اعتراض بالکل جائز ہے۔'

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے پی ڈی ایم میں شامل بڑی اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال اور  خرم دستگیر سے رابطہ کرنے  کی کوشش کی گئی، لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔

جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی ترجمان مولانا عبدالجلیل جان سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے موقف جاننا چاہا تو انہوں نے بتایا کہ 'میں اس پر اتنا ہی تبصرہ کروں گا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے اجلاس میں جو موقف محسن داوڑ کی شرکت پر دیا ہے وہی پارٹی کا بھی موقف ہے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست