عدم اعتماد: کامیاب تو عمران خان ہی ہوگا

وزیراعظم بننا عمران خان کی خواہش تھی تو مکمل ہوچکی، ضد تھی تو پوری ہو گئی اور نواز شریف سے کوئی انتقام لینا مقصود تھا تو سود سمیت شریف خاندان سے لیا جاچکا۔

(تصویر: پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ)

یہ تحریر مصنف کی آواز میں سننے کے لیے کلک کیجیے

 

وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے یا ناکام، دونوں صورتوں میں جیت عمران خان ہی کی ہونی ہے۔ کسی کو اچھا لگے یا برا، حقیقت مگر یہی ہے۔

وزیر اعظم بننا عمران خان کی خواہش تھی تو مکمل ہو چکی، ضد تھی تو پوری ہو گئی اور نواز شریف سے کوئی انتقام لینا مقصود تھا تو جمائمہ خان پر ٹائلوں کے مقدمے کا جواب سود سمیت شریف خاندان کو لوٹایا جاچکا۔ مجروح عزت نفس بھی آسودہ ہے کہ جو عمران خان کا مذاق اڑاتے تھے، کابینہ میں شامل ہو کر وہ اب صبح کا ناشتہ بھی عمران خان کے ویژن کے مطابق کرتے ہیں۔

حکومت بھی کی تو کسی ہرجائی محبوب جیسی بے نیازی سے۔ حزب اختلاف کو کبھی گھاس تک نہیں ڈالی۔ حتی کہ اہم ترین مواقع پر بھی، جب قانون سازی کے نازک مراحل درپیش تھے انہوں نے حزب اختلاف کو منہ نہیں لگایا۔ وہ خود ہی کھنچی چلی آتی تھی اور کبھی ووٹ دے کر تو کبھی غیر حاضر رہ کر حکومتی بل کامیاب کراتی پھرتی تھی۔

عمران خان اب مزے میں ہیں۔ حزب اختلاف یا یوں کہہ لیجیے کہ مخالفین کے لیے وہ اوج و موج کا آشوب بنے رہے ہیں۔ میڈیا کے جن افلاطونوں کا خیال تھا جاڑے کے بعد بہار بھی ان کے تجزیوں کی وجہ سے آتی ہے ان کے اعتبار عشق کا عمران خان نے خانہ خراب کر دیا ہے۔ حتیٰ کہ اس نظریے کو بھی غلط ثابت کر دیا کہ جمہوری حکومت عوامی رائے کا احترام کرتی ہے۔

جس طرح سے انہوں نے اشیا کی قیمتیں بڑھائیں اور جس بے نیازی سے بڑھائیں یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ شوخ تند خو کی طرح وہ بھی کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ آمروں کے نصیب میں بھی ایسی بے ادائیاں کب آئی ہوں گی جنہیں عمران خان کی شوخیِ ناز نے دامن میں پرو رکھا ہے۔

اب ایک ہی چیلنج ہے، اگر واقعی وہ ہے۔ اور یہ ان کا طرز حکومت ہے۔ سوشل میڈیا پر نونہالان انقلاب کی عالم آرائی سے قطع نظر، حقیقت یہ ہے کہ ان کے دورِ حکومت نے ظلم رسیدوں کو نوحہ گری کے سوا کچھ نہیں دیا۔ یوں لگتا ہے لوگوں کا نصیب برہم ہوا پڑا ہے۔ ایسی تبدیلی آئی ہے کہ لوگوں کے چہروں پر زردی آکر ٹھہر سی گئی ہے۔ اب یا تو اگلے ڈیڑھ دو سال میں عمران خان کچھ ایسا کر دکھائیں کہ سرخرو ہو جائیں اور خلق خدا تبدیلی کا سہرا کہنا شروع کر دے۔ یہ ظاہر ہے کہ ممکن نہیں۔

اس کابینہ اور اس استعداد کار کے ساتھ سرخرو ہونا تو بالکل بھی ممکن نہیں کہ اس کابینہ میں سے تین چوتھائی تو وہ ہیں جن کے نزدیک عمران کی کامیابی یا ناکامی کوئی معنی ہی نہیں رکھتی۔ انہیں اطمینان ہے کہ کل جس کی بھی حکومت ہو گی، وہ اسی کی کابینہ میں ہوں گے۔ جو مشرف دور میں وزیراعلیٰ، زرداری دور میں نائب وزیر اعظم اور عمران کے دور میں ملک کے سب سے بڑے صوبے کے سپیکر بن جاتے ہیں ان کی جانے بلا عمران رہے یا نہ رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 عمران خان کے سرخرو ہونے کی دوسری صورت یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کوئی ختم کر دے۔ یہ پانچ سال پورے نہ کر سکے۔ اقتدار کے خاتمے پر ان سے کارکردگی کا سوال کوئی نہ کرے بلکہ وہ سیاسی شہید کے درجے پر فائز ہو کر اقتدار سے الگ ہوں اور لوگوں کو بتاتے پھریں کہ شہد کی نہریں اور دودھ کے چشموں کی کھدائی تو ہو چکی تھی اب بس ان کی رسم افتتاح ہی باقی تھی کہ ان کو اقتدار سے الگ کر دیا گیا۔

یاد رہے کہ عمران خان حکمران بھلے اچھے نہ ثابت ہوئے ہوں، ایجی ٹیٹر وہ شاندار ہیں۔ ایک مفروضہ قائم کر کے ’پوسٹ ٹروتھ‘ کے سہارے اسے قبول عام کے درجے پر لانے میں ان کی مہارت غیر معمولی ہے۔ پھر ان کی ذات کے ساتھ ایک رومان بھی وابستہ ہے۔ رومان دلیل سے بے نیاز ہوتا ہے۔ یہ صرف عقیدت میں گندھا ہوتا ہے۔ عمران خان کے لیے دوسرا بڑا چیلنج یہ رومان ہے۔

وہ یہ چاہیں گے کہ کارکردگی سے عوام اور حتیٰ کہ اپنے ووٹر کو بھی مطمئن کرنے میں ناکامی کے بعد کم از کم اتنا ضرور ہو جائے کہ ان کی ذات سے وابستہ رومان ختم نہ ہو۔ یہ رومان اگر وہ قائم رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اقتدار سے الگ ہو کر بھی ان کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ موجودہ معاشی حالات میں نئی حکومت کون سے کمالات دکھا لے گی؟ نئی حکومت کے چار ماہ میں لوگ عمران حکومت کو بھول جائیں گے اور عمران خان پھر سے وہی حزب اختلاف والے اقوال زریں سنا سنا کر محفلیں لوٹا کریں گے۔

رومان کو مخاطب بنانے کے لیے کسی دلیل کی نہیں، بس ایک جذباتی سے ماحول کی ضرورت ہوگی۔ اگر چہ ابھی تحریک عدم اعتماد کے آنے اور اس کے کامیاب ہو جانے کے بیچ بہت سارے مقامات آہ و فغاں ہیں لیکن تحریک عدم اعتماد اگر آجاتی ہے اور کامیاب بھی ہو جاتی ہے تو سمجھیے ماحول بن گیا۔

عمران خان کی نسبت عشقی ڈی چوک کے سیلِ اشک پر بہے گی اور کہے گی قریب تھا کہ میں انقلاب لے آتا لیکن سب چورڈاکو میرے خلاف اکٹھے ہوگئے۔ ان سے نبٹنے کے لیے ضروری ہے کہ تبدیلی دو تہائی اکثریت سے واپس لائی جائے۔ وبال کی جو پوٹلی بچ گئی وہ کرونا کے سر پر ڈال دی جائے گی۔ دائروں کے سفر کا کھیل واپس 2013 والے مقام سے پھر سے شروع ہو جائے گا۔

حکومتوں کا انجام جب غیر فطری ہوتا ہے تو وہ مظلوم بن جاتی ہیں اور مظلومیت سے بڑی کوئی قوت نہیں۔ بھٹو آج تک اسی لیے زندہ ہے کہ لوگ اسے مظلوم سمجھتے ہیں۔ ایک ہی بار ایسا ہوا کہ پیپلز پارٹی نے مدت اقتدار مکمل کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ اندرون سندھ تک سمٹ کر رہ گئی۔

تو حزب اختلاف میں کوئی ہے جو سمجھ سکے؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر