عمران خان کا دورہ چین اور ہمارے تجزیہ کار

جیسے ہی عمران خان چین پہنچے، تجزیہ کاروں نے دہائی دینا شروع کر دی کہ وزیر اعظم پاکستان کا استقبال چین کے نائب وزیرِ خارجہ نے کیوں کیا، انہیں خوش آمدید کہنے چین کے صدر خود کیوں نہیں آئے؟

عمران خان اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان  چھ فروری 2022 کو بیجنگ سرمائی اولمپکس کے موقعے پر ملاقات ہوئی (ایوانِ وزیرِ اعظم)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے نیچے کلک کیجیے

جیسے ہی عمران خان چین پہنچے، کوچۂ جاناں میں آگ لگ گئی۔ تجزیہ کاروں کے قلم سے ہجر گرا اور انہوں نے دہائی دینا شروع کر دی کہ وزیر اعظم پاکستان کا استقبال چین کے نائب وزیر خارجہ نے کیوں کیا، انہیں خوش آمدید کہنے چین کے صدر خود کیوں نہیں آئے؟ ان کے خیال میں یہ پاکستان کی ناکامی تھی۔ یہ ثابت ہو گیا کہ پاکستان کی اب چین میں بھی کوئی عزت نہیں رہی اور عمران خان نے پاکستان کو تنہا کر چھوڑا ہے۔

جب تک لوگ ان تجزیہ کاروں کو بتا پاتے کہ گئی بہار کے خانہ زادو،عمران کے استقبال کو تو پھر نائب وزیر خارجہ چلے آئے، جب نواز شریف چین تشریف لے گئے تھے تو ان کا استقبال کرنے کے لیے بیجنگ کی میونسپل کمیٹی کے وائس چیئرمین آئے تھے، ان کا قلم لہو اور دل داغ ہو چکا تھا۔

اگلا مرحلہ بیجنگ اولمپکس کا تھا۔ عمران خان سٹیڈیم کے ایک انکلوژر میں بیٹھے کھیل دیکھ رہے تھے۔ یہ تصویر سامنے آئی تو تجزیہ کاروں نے دل پر ہاتھ رکھ کر آہ و بکا شروع کر دی کہ عمران خان کی اس تذلیل سے تو وطن عزیز کی ساری آبرو پانی ہو گئی ہے۔ شدت گریہ سے ان کے رخسار دلدل ہو گئے کہ ہائے ہمارے وزیر اعظم کو چین نے اکیلا ہی بٹھا دیا، کوئی میزبان ساتھ نہیں ہے۔

کچھ ایانے اور چند سیانے مل کر غم کی مالا پروتے رہے کہ یہ جو عمران کی تنہائی ہے یہ اصل میں پاکستان کی تنہائی ہے۔ شبِ غم کے قوالوں نے تان اٹھائی کہ جب نواز شریف وزیر اعظم تھے تو ایسی تنہائی نہیں تھی۔ پورا دن قوال آہ اور ہمنوا واہ کرتے رہے۔

 دن ڈھلا تو ایک اور تصویر سامنے آ گئی جس میں روس کے صدر بھی ایسے ہی اکیلے ایک انکلوژر میں بیٹھے میچ دیکھ رہے تھے۔ معلوم ہوا یہ کرونا ایس او پیز کا تقاضا تھا اور چین اپنے مہمانوں کی صحت کا خاص خیال رکھ رہا تھا۔ تجزیہ کاری مگر یہ تصویر دیکھ کر ذرا بھی شرمندہ نہ ہوئی۔ اس نے زبانِ حال سے اعلان کیا کہ ندامت کون سی دیوار ہے ہم جس کے نیچے آ مریں گے، مسکرائی اور پھرگلے میدان میں دادِ شجاعت دینے نکل کھڑی ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شوق کا اگلا پڑاؤ عمران خان کی چینی حکام کے ساتھ آن لائن میٹنگ تھی۔ یہ منظر دیکھ کر تجزیہ کاروں کا دل پھر سے رک کر خون ہو گیا۔ آزار دہندوں نے پھر شور مچا دیا کہ یہ تو قومی غیرت کا سودا ہو گیا۔ اگلوں نے عمران خان کو ملاقات کے قابل بھی نہ سمجھا۔ اتنا سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ میٹنگ تو وزیر اعظم ہاؤس سے بھی ہو سکتی تھی۔ سیانوں میں سے ایک نے ’اندر کی خبر‘ دی کہ عمران خان سے ملاقات نہ کر کے چین نے واضح پیغام دے دیا ہے اور یہ پیغام جہاں پہنچنا تھا وہاں پہنچ چکا ہے۔ اب عمران کا کھیل ختم ہو چکا ہے۔

اندر کی اس خبر کے ساتھ ’باہر‘ کی یہ خواہش بھی جھانک رہی تھی کہ بہت جلد نواز شریف صاحب وطن واپس آئیں گے۔ ان کی واپسی کے ساتھ ہی خلیل خان پھر سے فاختہ اڑانا شروع کر دیں گے۔ اور تین سالہ دور اقتدار میں صرف برطانیہ کے 17 دورے فرمانے والے نوا زشریف عمران خان کی طرح آزادی صحافت کو نظر انداز نہیں کریں گے بلکہ وہ اتنے دیالو ہیں کہ جب کبھی چین، ایران یا سعودی عرب جائیں گے تو درجن بھر اہل صحافت ایک لشکر جرار کی صورت ان کے ہمراہ ہوں گے، سیر سپاٹے ہوں گے، مفت کے عمرے کر کے مزے مزے کی سیلفیاں بنا بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کی جائیں گی تا کہ سند رہے اور آزادی صحافت کے کام آئے۔ پھر اس قوم کو پتہ چلے گا حکمرانوں کے دوروں کو کامیاب کیسے لکھا جاتا ہے۔

قوالی جاری تھی کہ دورے کے آخری رو ز عمران خان کی چینی صدر سے اور شاہ محمود قریشی کی چینی وزیر خارجہ سے ملاقات بھی ہو گئی۔ تب سے اب تک محٖفل مشاعرے میں ہُو کا عالم ہے۔ معلوم نہیں تجزیہ کاروں کی شبِ غم کیسے کٹی ہو گی۔

چین خطے ہی کی نہیں، دنیا کی بڑی قوت ہے۔ اس دورے کے موقع پر معاشی، تزویراتی، سفارتی، بہت سارے سنجیدہ موضوعات تھے جن پر گفتگو ہونی چاہیے تھی۔ لیکن ہمارے ہاں تجزیے کے نام پر وہی انچھر لکھے گئے جن کا اوپر ذکر کر دیا گیا۔

معلوم یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کا بحران طرز حکومت اور معیشت ہی کا نہیں، علم و فکر کا بھی ہے۔ ہمارے ’دانشور‘ کی کُل متاع فکر یہی ہے کہ وہ جس کے حصے کا دانشور ہے اسی کی فصیل پر کھڑا رجزپڑھتا رہے۔ سنجیدگی اور معروضیت سے اس کی جان جاتی ہے۔ ان کی ترک تازی کی حد یہی ہے کہ یہ گلی کی نکڑ پر بغلیں بجا بجا کر مجمع لگاتے ہیں اور اسے بتاتے رہتے ہیں کہ فلاں جا رہا ہے اور فلاں آ رہا ہے، ستمبر ستم گر ہونے والا ہے  اور مارچ میں ڈبل مارچ متوقع ہے۔

بےنیازی کا یہ عالم ہے کہ ان کے سارے تجزیے سونامی میں غرق ہوئے پڑے ہیں لیکن ان کا اب بھی یہی اصرار ہے کہ ملک میں گندم کی فصل اچھی ہو جائے تو یہ بھی ان کے تجزیوں کا اعجاز سمجھا جائے!

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ