’تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو فوری انتخابات کا امکان‘

سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمٰن، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے ہمراہ منگل کی شب بلاول ہاؤس اور آج بدھ کو ماڈل ٹاؤن میں شہباز شریف کی رہائش گاہ پر اہم ملاقاتیں

(تصویر کریڈٹ: پی پی پی میڈیا سیل)

پاکستان کی سیاست کا مرکز ان دنوں لاہور بنا ہوا ہے جہاں رواں ماہ کے شروع سے ہی حزب اختلاف کی قیادت سنجیدہ جوڑ توڑ کی کوششیں کر رہی ہے اور دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اپوزیشن نے حکومت مخالف تحریک عدم اعتماد کی حکمت عملی طے کرلی ہے۔

سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمٰن، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے ہمراہ منگل کی شب بلاول ہاؤس اور آج بدھ کو ماڈل ٹاؤن میں شہباز شریف کی رہائش گاہ پر اہم ملاقاتیں ہوئیں۔

شہباز شریف کی رہائش گاہ پر ہونے والے حزب اختلاف کی قیادت کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد سمیت دیگر معاملات کے لیے مشترکہ کمیٹی بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
دوسری جانب سابق صدر آصف زرداری سے سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویزالٰہی کی وفد کے ہمراہ ملاقات کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ملاقات میں اہم فیصلے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ق کا مشاورت سے فیصلے کرنے پر اتفاق ہوا ہے جبکہ ملاقات میں ملکی سیاسی صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کے دیگر امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
علامیے کے مطابق، سیاسی منظر نامے میں آصف علی زرداری اور چودھری پرویزالٰہی مشاورت سے لائحہ عمل طے کریں گے اور پاکستان مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کی قیادت کا ایک دوسرے پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔

ملاقات میں طارق بشیر چیمہ، مونس الٰہی، سالک حسین، حسین الٰہی، شافع حسین اور راسخ الٰہی بھی شامل تھے۔

ترجمان ن لیگ مریم ارونگزیب کے مطابق حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا لائحہ عمل تیار کرلیا گیا ہے اور اپوزیشن قیادت نے اس معاملہ میں معاملات طے کر لیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آئندہ چند روز میں مرکزی قیادت اہم اعلانات کرے گی اور پارلیمنٹ میں ’تبدیلی کی ہوا دکھائی دے گی۔‘

دوسری جانب قانونی ماہرین کے بقول اگر اپوزیشن وزیراعظم یا وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جانے دیتی ہے تو فلور کراسنگ قانون کے تحت آئندہ بننے والا وزیراعظم یا وزیراعلیٰ زیادہ دیر اپنی تعداد میں برتری برقرار نہیں رکھ سکے گا، کیونکہ اپوزیشن کا ساتھ دینے والے اتحادی یا حکومتی اراکین کی رکنیت معطل کرائی جاسکتی ہے۔

ایسے میں نئے انتخابات ناگزیر ہوجائیں گے۔

اپوزیشن قیادت کی ممکنہ حکمت عملی

اپوزیشن قیادت جو اس ماہ کے شروع سے لاہور میں سیاسی جوڑ توڑ کر رہی ہے انہوں نے معاملات طے پائے جانے کا عندیہ دیدیا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی آصف زرادری اور بلاول بھٹو زرداری سے دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے ہمراہ اٹھارہ گھنٹے میں دو بار بیٹھک ہوئی۔ اس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے چوہدری برادران سے ملاقات کی پھر ان کو زرداری نے عشائیے پر مدعو کیا۔

ویسے تو یہ ملاقاتیں تین ہفتوں سے جاری ہیں لیکن اس حکمت عملی میں سنجیدگی شہباز شریف کی روایتی حریف چوہدری بردران اور پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین سے ملاقات کے بعد زیادہ دکھائی دی۔

حزب اختلاف کی مشترکہ دوگھنٹے کی بیٹھک کے بعد صحافیوں کو بریفنگ میں مسلم لیگ ن کی مرکزی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا، ’آج کی اہم بیٹھک کا مقصد لوٹ مار کرنے والوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہے۔ عمران خان کو پارلیمانی طریقے سے ہٹانے کا فیصلہ ہوا گیا ہے تحریک عدم اعتماد سب سے پہلے کس کے خلاف آ رہی ہے، اس کا پہلے ہی اعلان کیا جا چکا ہے مگرتحریک عدم اعتماد لانے کے وقت کا فیصلہ ہم مشاورت سے کرینگے۔’

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کہیں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور اب وقت تیزی سے قریب آ رہا ہے۔

انہوں نے کہا: ’عوام کو مشکلات سے نکالنے کے لئے نمبر گیم پوری ہے آئندہ وزیراعظم کا فیصلہ مشاورت سے ہی ہو گا۔‘

مریم اورنگزیب نے مزید کہا: ’18 فروری کو پیکا قانون کے ذریعے عوام اور میڈیا کو غلام بنانے کی کوشش کی گئی۔ آزاد عدلیہ کو بھی تابع بنانے کی کوشش کی گئی ایسے ڈریکولا اور کالے قانون کو مسلم لیگ ن نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترجمان پیپلز پارٹی شازیہ مری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن قیادت وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر مکمل متحد ہے اور نمبرز بھی پورے ہوچکے ہیں۔

ان سے آئندہ حکومت بنانے کا فارمولہ پوچھا گیا تو شازیہ مری نے جواب دیا کہ سب سے پہلے ہم حکومت ہٹانے کی آئینی طریقے سے کوشش کر رہے ہیں۔ پہلا مرحلہ طے ہونے کے بعد دوبارہ قیادت بیٹھ کر آئندہ کے فیصلے کرے گی ابھی ساری توجہ صرف تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے پر ہے۔

­­­­­­ان کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے باہر بھی پیپلز پارٹی 27 فروری کو لانگ مارچ کا آغاز کرے گی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں استقبال کریں گی، جبکہ مشترکہ لانگ مارچ کی تاریخ ایک کرنے کا ابھی پی پی پی قیادت نے کوئی اشارہ نہیں دیا۔

آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت بن سکے گی؟

اس سوال کے جواب میں ماہر قانون سابق صدر سپریم کورٹ بار حامد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کی صورت میں پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو 172 اراکین کی حمایت درکار ہوگی۔ ’اگر اپوزیشن وزیر اعظم یا وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانے میں کامیاب ہوگئی تو پھر آئین کے آرٹیکل 63 اے کا اطلاق ہوگا، جس میں حکومتی اور اتحادی اراکین کے خلاف اپوزیشن کا ساتھ دینے پر فلور کراسنگ پر رکنیت معطلی یا نااہلی کا سامنا کرنا ہوگا۔‘

حامد خان کے بقول آئینی طور پر اگر پارٹی لیڈر اپنی جماعت کے اراکین پر فلور کراسنگ پر سپیکر کو درخواست دیتا ہے اور وہ سپیکر کو ان کی رکنیت منسوخی کی سفارش کرتے ہیں تو وہ اراکین ایوان کا حصہ نہیں رہیں گے۔ ایسی صورتحال میں اگر کوئی نیا وزیراعظم یا وزیراعلیٰ حکومتی اراکین کی حمایت سے کامیاب ہوبھی جاتا ہے تو ان کی رکنیت منسوخ ہونے پر کچھ عرصے بعد دوبارہ مطلوبہ حمایت کھو دے گا۔

انہوں نے بتایا: ’ایسی صورتحال میں آئینی طور پر معاملہ صدر مملکت کے پاس جاتا ہے جو اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کی ہدایت کر سکتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ بھی ہے کہ نیا وزیراعظم عہدہ سنبھالتے ہیں اسمبلیاں توڑ کر عبوری حکومت تشکیل دینے کے بعد نئے انتخابات کا اعلان کرسکتے ہیں لیکن عبوری حکومت کی تشکیل میں اپوزیشن لیڈر کے مجوزہ نام بھی لینا لازمی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں معاملہ نئے انتخابات کی طرف جاسکتاہے کیونکہ آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں پارلیمنٹ چلانے کا کوئی اورطریقہ دکھائی نہیں دے رہا۔

پارلیمان میں جماعتوں کی صورتحال کیا ہے؟

پارلیمنٹ ریکارڈ کے مطابق اس وقت حکومتی جماعت پی ٹی آئی کو 176 ارکین کی حمایت حاصل ہے جن میں پی ٹی آئی کے 155اراکین، ایم کیو ایم کے سات، ق لیگ اور بی اے پی کے پانچ، پانچ جب کہ جی ڈی اے کے تین اور اے ایم ایل کا ایک رکن شامل ہیں۔

حکومتی الحاق میں جمہوری وطن پارٹی کےتین آزاد ایک ارکین بھی شامل ہیں۔

اپوزیشن کو 162 ارکین کی حمایت حاصل ہے جن میں ن لیگ کے 84، پیپلزپارٹی کے56، ایم ایم اے کے 15، بی این پی کے چار، اے این پی ایک اور دو آزاد اراکین شامل ہیں۔

پارٹی پوزیشن کے مطابق اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانے کے لیے 10حکومتی یا حکومتی اتحادی اراکین کی حمایت درکار ہے۔

جہانگیر ترین گروپ کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ سات ایم این ایز ہیں۔ ایم کیو ایم کے سات اور ق لیگ کے پانچ اراکین کی اگر اپوزیشن حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو اپوزیشن واضع برتری سے تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔


 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست