جب ایک زوردار تھپڑ نے راجیش کھنہ کو سبق سکھایا

چند سکینڈز تک راجیش کھنہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کیوں کہ فلم کے سکرپٹ میں تھپڑ کا کوئی ذکر تھا ہی نہیں۔

 جنتا حوالدار باکس آفس پر زیادہ کامیاب نہ ہو سکی مگر اس سے راجیش کھنہ کے رویے میں تبدیلی آ گئی (بالاجی فلمز) 

کامیڈین محمود کے فارم ہاؤس پر فلم ’جنتا حوالدار‘ کی عکس بندی جاری تھی۔ راجیش کھنہ، ہیما مالنی اور یوگیتا بالی مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔

اس فلم کی کہانی محمود نے لکھی تھی جب کہ ہدایات بھی ان ہی کی تھیں۔ پروڈیوسر منوہرلال بی چھابیہ کا سرمایہ بچانے اور فلم کو جلدا ز جلد مکمل کرنے کے لیے محمود کی کوشش تھی کہ اس کی بیشتر عکس بندی ان ہی کے فارم ہاؤس پر ہو، اسی لیے پورا کا پورا پروڈکشن یونٹ فارم ہاؤس پر ٹھہرا ہوا تھا۔

1979 کا یہ وہ دور تھا جب راجیش کھنہ کے سپر سٹار ہونے کا سورج اچانک ہی غروب ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اس کی ایک وجہ جہاں امیتابھ بچن کی بطور ’اینگری ینگ مین‘ دم دار انٹری تھی، وہیں دھرمیندر، جیتندرا، ونود کھنہ اور رشی کپور نے رہی سہی کسر پوری کر کے ان کی سپر سٹار ہونے کی سلطنت کو ختم ہی کر ڈالا تھا۔

اب ایسی صورت حال میں کئی فلم ساز، راجیش کھنہ سے نگاہیں چرانے لگے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حالیہ برسوں میں راجیش کھنہ کی پے در پے کئی فلمیں ناکامی سے دوچار ہو چکی تھیں۔ حالت یہ تھی کہ راجیش کھنہ 1979 میں ہی ریلیز ہونے والی دو فلموں ’نیا بکرا‘ اور ’مقابلہ‘ میں بطور مہمان اداکار جلوہ گر ہو کر فلم نگری میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔

کامیڈین محمود نے ان ناکامیوں کے باوجود راجیش کھنہ کی صلاحیتوں پر انحصار کرتے ہوئے فلم ’جنتا حوالدار‘ میں مرکزی کردار میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔

بدقسمتی سے راجیش کھنہ احساس برتری یا پھر اس خمار کا شکار تھے کہ وہ ناکامیوں کے باوجود آج بھی سپر سٹار ہیں۔ یہی خوش فہمی ان کے کیریئر کو مسلسل زوال پذیر کرتی جا رہی تھی۔ اس روز بھی ایک منظر کو عکس بند کرانے کے بعد جیسے ہی وہ فارغ ہوئے تو محمود کے صاحبزادے ان کے قریب سے گزرے اور صرف رسمی ’ہیلو‘ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔

راجیش کھنہ جنہیں عادت تھی کہ جہاں جائیں وہاں پرستاروں کا ہجوم لگ جاتا تھا، انہوں نے اس ’ہیلو‘ کہہ کر آگے بڑھنے کو جیسے اپنے عزت نفس پر چوٹ خیال کیا۔ وہ سمجھے کہ محمود کے بیٹے نے جیسے ان کی جان بوجھ کر توہین کی ہے اور جس عزت اور جس وقار کے وہ حقدار تھے، اسے ہتک کا نشانہ بنایا ہے۔

راجیش کھنہ ذہنی طور پر اس قدر مضطرب ہوئے کہ اس چھوٹے سے واقعے کو اپنے اوپر حاوی کر لیا۔ گو کہ فلم کا پورا یونٹ فارم ہاؤس پر ٹھہرا ہوا تھا لیکن اب راجیش کھنہ نے معمول بنا لیا کہ وہ سیٹ پر جان بوجھ کر تاخیر سے پہنچنے لگے۔ وہ میک اپ دیر سے کراتے یا پھر کمرے سے باہر نکلنے میں غیر معمولی دیر کرتے۔ وہ یہ باور کرانے کی کوشش میں تھے کہ فلمیں ناکام ہوئی ہیں وہ ناکام نہیں ہوئے اور سپر سٹار ہونے کے لیے سپر سٹار جیسے نخرے اور رویہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔

ہدایت کار محمود سیٹ پر گھنٹوں ان کا انتظار کرتے لیکن راجیش کھنہ انہیں بھی خاطر میں نہیں لا رہے تھے۔

ایک روز آخر کار محمود کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو ہی گیا۔ وہ منظر عکس بند کرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ پہلو بدل بدل کر اس راہ کی طرف دیکھ رہے تھے جہاں سے راجیش کھنہ کو آنا تھا۔

ادھر محمود کو یہ فکر ستا رہی تھی کہ جو تخلیق انہوں نے 1976 میں بنانے کی کوشش کی تھی، راجیش کھنہ کے اس غیر پیشہ ورانہ رویے کی وجہ سے ایک بار پھر تاخیر سے نہ گزرے۔ سب سے زیادہ پریشان وہ پروڈیوسر کی وجہ سے تھے جن کے سرمائے کو وہ ضائع کرنا نہیں چاہتے تھے۔

 اب معمول یہ ہو گیا کہ ہیروئن ہیما مالنی اور خود محمود جو فلم میں اداکاری بھی کر رہے تھے، راجیش کھنہ کے لیے انتظار کی سولی پر لٹکتے رہتے۔

ایک روز آخر کار محمود کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو ہی گیا۔ وہ منظر عکس بند کرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ پہلو بدل بدل کر اس راہ کی طرف دیکھ رہے تھے جہاں سے راجیش کھنہ کو آنا تھا اور پھر وہ لمحہ آ ہی گیا جب راجیش کھنہ اپنے مخصوص انداز میں ہاتھ ہلاتے اور بل کھاتے میک اپ کرا کے سیٹ پر پہنچے لیکن جب تک محمود کے غصے کا پارہ آسمان تک جا پہنچا تھا۔

راجیش کھنہ محمود کے غصے سے انجان سیٹ پر تھے اور ایک سپر سٹار کی طرح سکرپٹ پر سرسری نظر ڈالی اور کیمرے کے سامنے آ پہنچے۔ لیکن اس سے پہلے محمود ان کے مقابل کھڑے تھے، جنہوں نے ایک زناٹے دار طمانچہ راجیش کھنہ کے چہرے پر مارا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چند سکینڈوں تک راجیش کھنہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ فلم کے سکرپٹ کے مطابق ایسا کوئی منظر ہے ہی نہیں۔ اس سے پہلے ان کی سمجھ بوجھ کچھ کام کرتی، ان کے کانوں سے محمود کے گرج دار اور غصیلے الفاظ ٹکرائے کہ ’ہوسکتا ہے تم اپنے گھر کے سپر سٹار ہو، میں نے تمہیں معاوضہ دیا ہے تاکہ میری فلم وقت پر ختم ہو۔ جب تک کام کر رہے ہو، وقت پر آنا۔‘

یہ کہہ کر محمود ڈائریکٹر کی نشست پر بیٹھ گئے۔ سیٹ پر تو جیسے موت جیسی خاموشی طاری ہوگئی، جبکہ راجیش کھنہ دم بخود ٹکٹی باندھ کر محمود کو دیکھ رہے تھے۔ یہ وہ بھی زمانہ تھا جب محمود کی موجودگی پر فلمیں فروخت ہوتی تھیں بلکہ کئی مواقع پر وہ ہیرو سے زیادہ معاوضہ طلب کرتے، یہی وجہ ہے کہ کئی ہیروز ان کے سامنے اف تک نہیں کرتے تھے۔

کامیڈین محمود کی سوانح ’محمود اے مین آف مینی موڈز‘ لکھنے والے حنیف زاوری کے مطابق اس واقعے کے بعد راجیش کھنہ کے رویے میں غیر معمولی تبدیلی آئی۔ وہ ’جنتا حوالدار‘ کے سیٹ پر مقرر وقت سے پہلے موجود ہوتے۔ فلم تیار ہوکر سینیما گھروں میں بھی لگی لیکن راجیش کھنہ کو پھر بھی کامیابی نہ ملی۔ محمود کے زوردار طمانچے نے راجیش کھنہ کو یہ سبق تو دے دیا کہ وہ اب سپر سٹار نہیں، اگر پھر سے اسے پانا ہے تو رویے میں تبدیلی اور ساتھ ہی اچھے سکرپٹ کی کھوج کرنی ہوگی۔

یہی وجہ ہے کہ 1979میں انہوں نے ’امردیپ‘ میں ایسی مثالی اداکاری دکھائی کہ اگلے سال یہ فلم بہترین فلم کے ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی جبکہ بہترین اداکار کی شعبے کے لیے راجیش کھنہ نامزد ہوئے۔

اس کے بعد 1980میں ’تھوڑی سی بے وفائی‘ میں پھر راجیش کھنہ کو یہ اعزاز ملا۔ اس ایک طمانچے نے راجیش کھنہ کو اداکاری کا وہ سبق سکھا دیا جس سے وہ برسوں تک محروم رہے تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی فلم