جب امیتابھ بچن نے مکالمے کی بجائے شعر پڑھنے سے انکار کر دیا

فلم ’کالیا‘ کی شوٹنگ کے دوران امیتابھ بچن نے شعر پڑھنے سے انکار کر دیا، جب کہ ہدایت کار ٹینو ڈٹ گئے کہ سکرپٹ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔

’کالیا‘ اپنے دور کی مقبول ترین فلموں میں سے ایک تھی (تصویر: بوبی انٹرپرائزز)

سیٹ پر ایک تناؤ اور کشیدگی والا ماحول تھا۔ ایک طرف سپر سٹار تھے تو دوسری جانب اس اداکار کو پہلی بار فلم میں شامل کرنے والا وہ ہدایت کار، جس کی پہلی فلم ’دنیا میری جیب میں‘ خاطرخواہ کامیابی اپنے دامن میں سمیٹ نہ پائی تھی۔

سیٹ پر خاموشی کا راج تھا، جو اس جانب اشارہ تھا کہ بہت جلد کوئی بہت بڑا طوفان آنے والا ہے۔ سپاٹ بوائے سے لے کر کیمرا مین تک ایک جانب دبکے بیٹھے تھے۔ ہیروئن پروین بوبی اور پران بھی بظاہر اس سارے معاملے سے انجان بن کر سکرپٹ پر نگاہیں دوڑا رہے تھے۔

ٹینو آنند چاہتے تھے کہ بطور ہدایت کار ان کی یہ دوسری فلم بہترین کاروبار کرے، اسی لیے انہوں نے تگڑے پروڈیوسر اقبال سنگھ کو پکڑ کر فلم ’کالیا‘ بنانے کی تیاری کی تھی، جس میں ان کے ہیرو اس دور کے اینگری ینگ مین اور سپر سٹار امیتابھ بچن تھے۔

ٹینو آنند کا ابتدائی تعارف یہ تھا کہ وہ مشہور سکرین پلے رائٹر اندر راج آنند کے صاحبزادے ہیں۔ وہی اندر راج آنند جنہوں نے شومین راج کپور کی پہلی فلم ’آگ‘ کے مکالمے اور کہانی لکھی تھی۔ ان کے بارے میں ایک عام تاثر یہ تھا کہ ان کے لکھے ہوئے سکرپٹ کا ’کاما‘ تک کوئی اداکار تبدیل کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔

انہوں نے ’آہ،‘ ’سی آئی ڈی،‘ ’چھلیا،‘ ’اناڑی،‘ ’ہمراہی،‘ ’سنگم‘ جیسی کامیاب فلموں کی کہانی اور مکالمے لکھے لیکن یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اندر راج آنند بیٹے ٹینو آنند کی پہلی فلم کی کہانی لکھنے کے باوجود اس تخلیق کو کھڑکی توڑ کامیابی نہ دلا سکے۔

ہدایت کار ٹینو آنند کی 1981 کے اوائل میں عکس بندی کی جانے والی ’کالیا‘ کے سیٹ پر اب دھیرے دھیرے خاموشی اور گہری ہوتی جا رہی تھی۔ چند لمحے پہلے امیتابھ بچن نے دوٹوک لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ یہ مکالمہ نہیں بولیں گے۔ ادھر ٹینو آنند چٹان کی طرح اپنے موقف پر کھڑے تھے۔

وہ سوچ رہے تھے کہ اس اکلوتے مکالمے کے لیے وہ اور ان کے والد رات تین بجے تک بیٹھے رہے۔ والد اندر راج آنند نے کئی مکالمے لکھے لیکن ٹینو آنند ہر بار یہ کہہ کر مسترد کر دیتے کہ ’ڈیڈ، کوئی ایسا مکالمہ ہونا چاہیے کہ سینیما ہال میں تالی بجے۔‘

بڑی عرق ریزی کے بعد یہ مکالمہ تخلیق ہوا اور اب امیتابھ بچن مسلسل انکار کرتے ہوئے سیٹ سے چلے گئے تھے۔

تھوڑی دیر میں ایک بار پھر سٹوڈیو میں ہلچل ہوئی۔ امیتابھ بچن میک اپ کرا کے سیٹ پر آ چکے تھے لیکن ان کے ماتھے پر ایک بار پھر بل پڑ گئے، جب انہوں نے دیکھا کہ ٹینو آنند نے اسی جگہ کیمرا رکھا ہوا، جہاں سے انہیں وہی مکالمہ بولنا تھا، جس کے لیے وہ معذرت کر چکے تھے۔ انہوں نے غور سے ٹینو آنند کو دیکھا۔

میرے مکالمات گوشت ہیں اور جب امیتابھ بچن انہیں چبائے گا اور اپنی آواز میں اُگلے گا تو ان میں شیر کی دھاڑ ہو گی کیونکہ اسے مکالمات بولنے آتے ہیں۔

ٹینو آنند نے امیتابھ بچن کو سمجھایا تھا کہ فلم کے اس منظر میں پران صاحب جو پولیس انسپکٹر کا کردار ادا کر رہے تھے، امیتابھ بچن پر بندوق تان کر انہیں مخاطب کرکے کہتے ہیں، ’اگر تم نے ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو اس (بندوق) کے اندر جتنا لوہا ہے، وہ تمہارے اندر گاڑ دوں گا۔‘ اس کے جواب میں امیتابھ بچن کو ایک شعر پڑھنا تھا:

تو آتش دوزخ سے ڈراتا ہے انہیں
جو آگ کو پی جاتے ہیں پانی کر کے

امیتابھ بچن کا کہنا تھا کہ وہ یہ شاعرانہ طرز کا مکالمہ ہرگز نہیں بولیں گے اور اسی تو تو میں میں امیتابھ بچن سیٹ سے چلے گئے لیکن اب واپس آئے تو اسی منظر کو ریکارڈ کرنے کے آثار ملے تو ان کے چہرے پر ناگواری کے آثار نمودار ہوئے۔

ایک بار پھر ٹینو آنند ان کے مقابل تھے۔ جس کا مطلب یہی تھا کہ وہ مکالمہ بلاوا کر ہی رہیں گے۔ اس سے پہلے کہ امیتابھ بچن کچھ بولتے، ٹینو آنند نے انہیں اپنے دل کی بات بتانا شروع کی کہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ اس مکالمے پر تالی ضرور بجے گی۔

امیتابھ بچن نے ایک ادا سے کہا، ’تم نے کتنی فلمیں بنائی ہیں؟ جواب میں ٹینو آنند نے کہا ’ایک۔‘ امیتابھ بچن بولے ’میں 40 کے قریب فلموں میں کام کر چکا ہوں اور ہر ہدایت کار یہی کہتا ہے کہ اس مکالمے پر تالی بجے گی لیکن بجتی نہیں ہے۔‘

ٹینو آنند نے پراعتماد اور ٹھوس لہجے میں امیتابھ بچن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، ’سر میں اس بات کی شرط لگاتا ہوں کہ اگر تالی نہ بجی تو یہ پیشہ ہی چھوڑ دوں گا۔ ساتھ ہی آپ بھی وعدہ کریں کہ اگر جس بات پر میں قائل ہوں اگر ایسا نہ ہوا تو آپ کو بھی اداکاری چھوڑنی پڑے گی۔‘

یہ کہہ کر غصے میں پیر پٹختے ہوئے ٹینو آنند سیٹ سے چلے گئے۔ سیٹ پر بتیاں بجھا دی گئیں۔ ٹینو آنند سٹوڈیو سے باہر نکل کر کرسی پر جا کر بیٹھ گئے۔

ایسے میں ’کالیا‘ کے پروڈیوسر اقبال سنگھ بھاگم بھاگ ٹینو آنند کے پاس پہنچے اور امیتابھ اور ٹینو آنند کے درمیان صلح صفائی کروائی اور بادل نخواستہ اب ٹینو آنند سین دوبارہ شوٹ کرنے پر آمادہ ہو گئے۔

سیٹ پر ایک بار پھر لائٹس روشن تھیں۔ امیتابھ بچن، ٹینو آنند کو نظر انداز کرتے ہوئے سیٹ پر تھے۔ پران صاحب اور پروین بوبی نے اپنی اپنی پوزیشن سنبھال لی تھیں۔ امیتابھ بچن جو بضد تھے کہ وہ مذکورہ مکالمہ نہیں بولیں گے۔ انہوں نے اسے ادا ہی کیا۔ ٹینو آنند نے منظر تو ریکارڈ کرلیا لیکن گھر واپس جاتے ہوئے انہیں یہی دھڑکا لگا تھا کہ انہوں نے بڑے سپر سٹار سے ٹکر لی ہے، ممکن ہے کہ کل جب وہ سیٹ پر آئیں تو انہیں یہ بری خبر ملے کہ ہدایت کار تبدیل کر دیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسا نہیں ہوا۔ نجانے ٹینو آنند کے پراعتماد لہجے میں کیا جادو تھا کہ امیتابھ بچن نے ذہنی اور پیشہ ورانہ طور پر یہ تسلیم کرلیا تھا کہ اگر ان کا ہدایت کار کسی بات پر ڈٹ گیا ہے تو اس کے موقف میں ضرور جان ہوگی۔

فلم ’کالیا‘ جب ریلیز ہوئی تو ٹینو آنند سیدھا قریبی سینیما گھر پہنچے اور اس وقت ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ جب امیتابھ بچن نے یہ مکالمہ ادا کیا تو سینیما گھر تالیوں سے گونج اٹھا۔

غالباً اس کی خبر امیتابھ بچن کو بھی ہوئی اور انہوں نے بھی ٹینو آنند کا لوہا مان لیا۔ اس کے بعد وہ ٹینو آنند کے بہترین دوست بھی بن گئے۔

فلم ’کالیا‘ میں امیتابھ بچن کا یہی نہیں ایک اور مکالمہ بھی مشہور ہوا کہ ’ہم بھی وہ ہیں جو کبھی کسی کے پیچھے کھڑے نہیں ہوتے۔ جہاں کھڑے ہو جاتے ہیں، لائن وہیں سے شروع ہوتی ہے۔‘

ماضی کے مشہور اداکار آغا کے داماد اور جلال آغا کے بہنوئی ٹینو آنند اور امیتابھ بچن کے اس دوستانے کی ایک مثال ’شہنشاہ‘ بھی رہی، جس نے امیتابھ بچن کو بالی وڈ کے ’شہنشاہ‘ ہونے کا ٹائٹل دیا۔ اس فلم کے کلائمکس کے 23 صفحات ٹینو آنند کے والد اندر راج آنند نے بستر مرگ پر لکھے تھے اور یہ سارے صفحات امیتابھ بچن کو پڑھنے تھے۔

ٹینو آنند نے امیتابھ کو مشورہ دیا کہ اگر وہ چاہیں تو اپنی سہولت کے تحت کچھ مکالمات نکال سکتے ہیں، جس پر امیتابھ بچن کا جواب تھا کہ ’ان صفحات میں سے ایک لفظ بھی نہیں نکالا جائے گا۔ وہ پورا کا پورا سکرپٹ پڑھیں گے۔‘ 

یہ وہ اداکار کہہ رہا تھا جو ایک مکالمہ نہ بولنے پر اڑ گیا تھا۔ بدقسمتی سے ’شہنشاہ‘ کی نمائش سے پہلے ہی ٹینو آنند کے والد چل بسے اور اپنے بیٹے کے اس شاہکار کی کامیابی کو نہ دیکھ سکے۔

 ٹینو آنند نے ایک بار والد اندر راج آنند سے دریافت کیا تھا، ’آپ نے ’کالیا‘ اور پھر ’شہنشاہ‘ میں اس قدر شاعرانہ اور انقلابی مکالمات کیوں لکھے، آپ مکالمات کو سجا کر کیوں پیش کرتے ہیں، سیدھے سادے انداز میں بھی تو بات پہنچائی جا سکتی ہے؟‘

اس کے جواب میں اندر راج آنند نے کہا کہ ’اس انڈسٹری میں ایک ہی شیر ہے اور وہ گوشت کھاتا ہے، اسے کبھی سبزی یا گھاس پھونس مت کھلانا۔ میرے مکالمات گوشت ہیں اور جب امیتابھ بچن انہیں چبائے گا اور اپنی آواز میں اُگلے گا تو ان میں شیر کی دھاڑ ہو گی کیونکہ اسے مکالمات بولنے آتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم