وہ پروفیسر جنہوں نے طلبہ کو نمبر دینا بند کر دیا

ایک امریکی پروفیسر کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے طلبہ کو نمبر یا گریڈ دینے کا نظام ترک کر دیا ہے، اور اس کا طلبہ کو بہت فائدہ ہو رہا ہے۔

طلبہ کے کام کا جائزہ لینے اور انہیں اس پر فیڈ بیک دینے کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں لازمی طور پر نمبر بھی دیے جائیں (پیکسلز)

کالج میں انگریزی پڑھاتے ہوئے مجھے 30 سال سے زائد وقت ہو چکا ہے۔ چار سال قبل میں نے طلبہ کے تحریری کام پر گریڈ دینا ترک کر دیا جس سے میرے سکھانے اور ان کے سیکھنے کا عمل بدل کر رہ گیا۔ مجھے بس ایک چیز کا افسوس ہے کہ ایسا کرنے میں اتنی دیر کیوں کر دی۔

ایلیمنٹری سکول سے ہی اساتذہ طالب علموں کے کام کی عام طور پر  ستارے لگا کر نمبروں یا بعض اوقات باقاعدہ گریڈز سے درجہ بندی کرنے لگتے ہیں۔ عموماً مڈل سکول کے وقت، جب زیادہ تر طلبہ کی عمر 11 سال کے قریب ہوتی ہے، گریڈ سسٹم ایک مضبوط نظام کے طور پر استوار ہو چکا ہوتا ہے۔ امریکہ میں ’ای‘ کو تقریباً نظر انداز کرتے ہوئے بہترین کارکردگی کے لیے ’اے‘ اور ناکامی کے لیے ’ایف‘ گریڈ کا عمومی نظام رائج ہے۔

بڑے پیمانے پر اس نظام کا رواج 1940 کی دہائی میں پڑا اگرچہ اس کے باوجود ابھی تک کچھ سکول، کالج اور یونیورسٹیاں طلبہ کی قابلیت جانچنے کے لیے دیگر طریقے اختیار کرتے ہیں۔ طلبہ کی درجہ بندی اور گریڈ دینے کا نظام اس قدر وسیع پیمانے پر پھیل چکا ہے کہ اس سے بچ نکلنا مشکل نظر آتا ہے۔

تاہم بہت سے محققین کا خیال ہے کہ یہ انتہائی غیر منصفانہ ہے۔ مثال کے طور پر جو طالب علم کوئی نیا مضمون پڑھنے آتے ہیں تو ان کے پاس اس بارے میں معلومات بھی کم ہوتی ہیں، اس لیے انہیں آغاز میں کم گریڈز ملتے ہیں، نتیجتاً ان کی حتمی اوسط بھی کم نکلتی ہے چاہے بالآخر وہ ان موضوعات پر عبور ہی کیوں نہ حاصل کر چکے ہوں۔

گریڈز کے ساتھ کچھ اور بھی مسائل ہیں جو مایوسی کا بیج بوتے ہیں، حقیقت میں قابلیت ماپتے ہی نہیں اور طلبہ کے ذہنی دباؤ میں اضافہ کرتے ہیں۔

کرونا کی وبا کے دوران بہت سے اساتذہ بلکہ یہاں تک کہ اداروں نے محض ’پاس‘ یا ’فیل‘ کی گنجائش رکھی یا فیل/ پاس کی گریڈنگ لازمی کر ڈالی۔ انہوں نے یہ کام فاصلاتی نظام تعلیم پر دباؤ کم کرنے اور وبا کی ہنگامی صورتحال میں سیاہ فام طلبہ کے غیر متناسب طور پر متاثر ہونے کے سبب کیا۔ اگرچہ بعد میں بہت سوں نے درجہ بندی کا نظام دوبارہ بحال کر دیا لیکن یہ تسلیم کیے بغیر کہ جانچ پڑتال کا روایتی طریقہ عدم مساوات کا باعث اور حصول علم کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔

کرونا وائرس پھیلنے سے پہلے ہی میں اس سمت قدم بڑھا چکی تھی جسے ’انڈر گریڈنگ‘ کہتے ہیں۔ اس دوران میں نے ان اثرات کا مشاہدہ کیا جو اس شعبے کے دیگر محققین کے نتائج سے ملتے جلتے ہیں۔

تین وجوہات

میں نے تحریری کام پر گریڈ دینا تین وجوہات کی بنا پر ترک کیا جو آپس میں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، وہ سب ایسی ہیں جن پر دیگر پروفیسر پہلے ہی خدشات کا اظہار کر چکے ہیں۔

پہلی وجہ: میری خواہش تھی کہ میرے طلبہ اس رائے پر توجہ مرکوز کریں جو میں نے ان کی تحریر دیکھنے کے بعد دی تھی۔ مجھے احساس ہوتا تھا، جسے تحقیق کی بھی تائید حاصل تھی، کہ جب میں کسی تحریری اقتباس پر گریڈ دیتی تو طلبہ محض گریڈ کو اہمیت دیتے تھے۔ گریڈز کو اندر سے منہا کرنے کے بعد طلبہ مجبور ہو گئے کہ وہ  میری آرا کو غور سے دیکھیں۔

دوسرا: میں مساوات چاہتی تھی۔ میں تقریباً دس برس سے فن تعلیم کے مضمون (Pedagogy) کا مطالعہ کر رہی ہوں جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ تمام طلبہ کو تعلیم کے لیے درکار ضروری وسائل میسر ہوں۔

میرے مطالعے نے میرے اس مشاہدے پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ بعض اوقات میں جس چیز کو گریڈ دے رہی تھی وہ ایک طالب علم کا  بیک گراؤنڈ تھا۔ عمدہ تعلیمی پس منظر والے طلبہ پہلے سے ہی میرے کمرہ جماعت میں اے یا بی گریڈ کی سطح والے پرچے لکھنے کی تیاری کے ساتھ قدم رکھتے تھے جبکہ دوسروں کو ایسے مواقع میسر ہی نہیں آئے تھے جو انہیں اس قابل بناتے۔ میری کلاس میں گزارے گئے 14 ہفتے اس امتیازی تعلیمی سہولت کی تلافی نہیں کر سکتے تھے جس سے ان کے ساتھی طلبہ مستفید ہو چکے تھے۔

تیسرا: میں تسلیم کرتی ہوں کہ اس سے خود غرضی ٹپکتی ہے، مجھے درجہ بندی کے نظام سے نفرت ہے۔ مجھے سکھانا اور پڑھانا پسند ہے اور طلبہ کو اپنی رائے سے آگاہ کرنا ایسا ہی عمل ہے۔ میں ایسا کرنے پر خوش ہوں۔ گریڈ متعین کرنے کے سفاک نظام سے آزاد ہو کر میں نے طلبہ کی اسائنمٹنس پر بامعنی تبصرے لکھے، ان کی بہتری کے لیے تجاویز دیں، ان سے سوالات پوچھے اور اپنے طلبہ کے ساتھ ایسے سوال جواب کے عمل میں داخل ہوئی جو زیادہ نتیجہ خیز محسوس ہوا۔ مختصر الفاظ میں جو ایسے لگا جیسے کلاس روم کا دائرہ وسیع ہو رہا ہو۔

اسے کہتے ہیں ’انڈر گریڈنگ۔‘

جس راستے پر میں چلی یہ نیا ہے نہ میرا دریافت کردہ۔ اسے ’انڈر گریڈنگ‘ کہتے ہیں اگرچہ یہ پوری طرح صحیح  نہیں۔ سیمسٹر کے اختتام پر مجھے طلبہ کو گریڈ دینا پڑتے ہیں جیسا کہ یونیورسٹی کا مطالبہ ہے۔

لیکن میں انفرادی اسائنمنٹس کو گریڈ نہیں دیتی۔ اس کے بجائے میں طلبہ کو کثرت سے اپنی رائے دیتی اور نظرثانی کے کافی مواقع فراہم کرتی ہوں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیمسٹر کے اختتام پر وہ نظر ثانی شدہ سارا کام جمع کرواتے ہیں اور اس کے ساتھ ایک مضمون بھی ہوتا ہے جس میں وہ اپنی کارکردگی کا جائزہ اور قدر کا تعین کرتے ہیں۔  انڈر گریڈنگ کا طریقہ کار اپنانے والے بہت سے لوگوں کی طرح میں وہ گریڈ تبدیل کرنے کا حق محفوظ رکھتی ہوں جو طلبہ اپنی کارکردگی کی قدر متعین کرتے ہوئے خود کو دیتے ہیں۔ لیکن میں شاذ و نادر ہی ایسا کرتی ہوں اور جب کرتی ہوں تو گریڈ تقریباً اتنے ہی بڑھاتی ہوں جتنے کم کرتی ہوں۔

پہلی مرتبہ جب میں نے گریڈ دینے سے انکار کیا تو طلبہ کے لیے اسے ہضم کرنا بےحد مشکل ثابت ہوا۔ اس نظریے اور طریقہ کار کی وضاحت کرنے کے بعد مجھے بھی بہت سے ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑا جو روایتی انداز میں گریڈز نہ دینے والے دیگر افراد سے پوچھے جاتے ہیں۔ ’اگر ہم پوچھیں تو کیا آپ بتائیں گی کہ ہمیں تحریری پرچے میں کون سا گریڈ ملا ہے؟‘

میرا جواب انکار میں ہوتا کیونکہ میں نے واقعی اس پہ کوئی گریڈ نہیں لگایا ہوتا تھا۔ ’اگر ہم سیمسٹر کے دوران فیصلہ کرتے ہیں کہ ہمیں اس چیز پر نظرثانی کرنی ہے تو کیا تب آپ گریڈ دیں گی؟‘

میرا جواب دوبارہ نفی میں ہوتا کیونکہ میں بحیثیت مجموعی کارکردگی پر گریڈ دے رہی ہوں نہ کہ کسی انفرادی مضمون پر۔

’کیا آپ بتانا پسند کریں گی کہ میں کہاں کھڑا ہوں؟‘ آپ کے کام پر میرے تبصروں اور ہماری ملاقاتوں سے آپ کو اچھی طرح احساس ہو جانا چاہیے کہ آپ کلاس میں کہاں کھڑے ہیں۔

جہاں تک موٹیویشن یا طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنے کی بات ہے تو میں ان سے پوچھتی ہوں کہ آپ کیا سیکھنا چاہتے ہیں؟ آپ کے یہاں آنے کا مقصد کیا ہے؟ کالج کے بیشتر دیگر پروفیسروں کی طرح میں بھی ہر طرح کی کلاسیں پڑھاتی ہوں لیکن گریڈز دینے کے روایتی طریقے سے انحراف کا آغاز میں نے ان کلاسوں سے کیا جن میں طلبہ بنیادی تعلیمی ضروریات پورا کرنے کے لیے آتے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں وہ دل کی بات زبان پر نہ لا سکے۔ وہ اچھا گریڈ چاہتے تھے جس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ اداروں کا سکہ رائج الوقت یہی ہے۔

 تاہم جب ہماری بات چیت کا سلسلہ بڑھا تو کچھ محرکات بے نقاب ہوئے۔ کچھ نے میری ادب الاطفال کی کلاس لی کیونکہ ان کے خیال میں بنیادی تعلیمی ضرورت پوری کرنے کا یہ آسان یا ہلکا پھلکا سا طریقہ ہے۔ بعض اوقات انہوں نے ہچکچاتے ہوئے اعتراف کیا کہ مطالعہ یا تحریر انہیں مشکل کام لگتا ہے۔ انہیں اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں تھا، انہوں نے نہیں سوچا تھا کہ وہ بہتر ہو سکتے ہیں۔ مجھے بالکل ایسے ہی طلبہ کی تلاش تھی۔ کالج طلبہ کو سائنس کے عمومی مضامین پڑھانے والی روایتی گریڈنگ سسٹم سے منحرف اپنی کولیگ ہیدر میچیلی کی طرح ان کے کام پر گریڈ دیے بغیر میں پرامید رہی کہ یہ کم اعتماد طلبہ خود محسوس کریں گے کہ وہ بہتر ہو سکتے ہیں، اپنی صلاحیتوں میں نکھار لاتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔ 

میرے ایڈوانس کورسز میں طلبہ کو مواد سے متعلق اہداف کی نشان دہی میں کم وقت لگا لیکن حیران کن طور پر کچھ چیزیں ایک جیسی تھیں: وہ بھی کلاس میں بولنے کے خوف پر قابو پانا چاہتے تھے۔ انہیں بھی تشویش تھی کہ وہ اپنے ہم جماعت ساتھیوں کی طرح بولنے کا ہنر نہیں رکھتے اور خوف بھی کہ وہ ان کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔

اس خوف سے چھٹکارا کیسے حاصل ہوا؟

پہلے سیمسٹر میں طلبہ نے کلاس کی سرگرمیوں میں حصہ لیا، کورس کے اندر انہیں جو پڑھنے کے لیے کہا گیا تھا وہ پڑھا اور مضامین لکھے۔ میں نے دیکھ کر اپنی رائے پیش کر دی اور انہیں ضرورت محسوس ہوئی تو جتنی بار ان کا دل چاہا نظرثانی کی۔

سیمسٹر کے اختتام پر جب انہوں نے اپنا نظرثانی شدہ کام جمع کروایا تو اپنے سیکھنے کے عمل اور جائزوں کے بارے میں ان کے تاثرات بھی میرے اپنے مشاہدے سے قریب تھے۔ اکثریت نے اپنی علمی نشوونما کا اعتراف کیا اور میں نے اتفاق کیا۔ ایک سینیئر طالب علم نے ان کے ساتھ بالغ افراد والا رویہ اپنانے پر میرا شکریہ ادا کیا۔ جہاں تک میری اس دلچسپی کا تعلق ہے کہ سب کے ساتھ مساوی سلوک ہو میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ جو طلبہ کمزور تعلیمی پس منظر سے آئے تھے انہوں نے واقعی اپنی صلاحیتوں کو خوب نکھارا، ان کی ترقی بہت نمایاں تھی اور اس بات کا ان کے ساتھ میں نے میں نے بھی اعتراف کیا۔

یہ طریقہ کار لاگو کرنے میں وقت لگتا ہے اور میں کئی سال تک اس پر نظرثانی کرتی رہی ہوں۔ جب میں نے آغاز کیا اس وقت مجھے تجربہ نہیں تھا کہ طلبہ کو کیسے سمجھاؤں کہ کورس کے لیے اپنے اہداف متعین کریں، لکیر کا فقیر بننے کے بجائے نتائج کو اپنی بہتری اور علمی نشوونما کے آئینے میں دیکھیں۔

مجھے محسوس ہوا کہ سیمسٹر کے آغاز، وسط اور اختتام پر طلبہ کو اپنے اہداف کے بارے میں سوچنے سمجھنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، تبھی وہ یہ جان سکتے ہیں کہ انہوں نے واقعی کس قدر ترقی کی ہے۔ اپنے کام پر نظرثانی کے لیے بھی انہیں تھپکی کی ضرورت ہوتی ہے، اگرچہ یہ کام میرے تبصرے بھی کرتے ہیں لیکن اس بات کی واضح یاددہانی بہت مدد کرتی ہے کہ نظرثانی، سیکھنے کے عمل کا حصہ ہے اور کورس میں اس کی گنجائش رکھی گئی ہے۔

سینیئر درجوں کی نسبت تعارفی کلاسوں کے طلبہ کو اس رہنمائی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے لیکن آخر کار وہی نظرثانی کرنے اور بغور سمجھنے کے مواقع سے بہتر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اب میں دیکھ سکتی ہوں کہ ان کا نقطہ آغاز کچھ بھی رہا ہو ہر پس منظر کے طلبہ اپنی نشوونما کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ انہیں شاید میری رہنمائی سے بھی زیادہ فائدہ اس آزادی سے ملتا ہے کہ وہ خود اپنے پڑھائی لکھائی میں بہتری کا فیصلہ کریں۔ اس سے میں بھی فائدہ اٹھاتی ہوں کہ گریڈنگ کے سفاک نظام کے بغیر انہیں سکھانے اور علمی طور پر بہتر بنانے کا موقع حاصل کرتی ہوں۔


یہ تحریر پہلے ’دا کنورسیشن‘ پر شائع ہوئی تھی اور اس کا ترجمہ ان کی اجازت سے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کی مصنفہ الزبیتھ گرونر امریکی ریاست ورجینیا کی یونیورسٹی آف رچمنڈ میں انگلش کی پروفیسر ہیں۔ وہ پروفیشنل اینڈ آرگنائزیشنل ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک فار ہائر ایجوکیشن سے وابستہ ہیں جو اساتذہ کی پروفیشنل ڈیولپمنٹ پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس