پاکستان کے 90 فیصد سے زیادہ طلبہ ریاضی اور سائنس میں کمزور: تحقیق

اس مطالعے میں مجموعی طور پر 78 سرکاری اور 75 نجی سکولوں کے طلبہ نے حصہ لیا، جہاں لڑکیوں نے سائنس میں لڑکوں کو تھوڑا سا پیچھے چھوڑ دیا اور ریاضی میں لڑکوں کے برابر رہیں۔

چار ستمبر 2021 کی اس تصویر میں طالبات   لاہور کے ایک سکول میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی )

آغا خان یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ (آئی ای ڈی) کی ایک ملک گیر تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں 90 فیصد سے زیادہ پرائمری اور سیکنڈری کلاسوں کے طلبہ ریاضی اور سائنس کے مضامین میں کمزور ہیں یا ان کو صرف بنیادی سمجھ بوجھ ہے، جو انہیں سیکھنے کی ضرورت ہے۔

ملک بھر کے 153 سرکاری اور نجی سکولوں میں پانچویں، چھٹی اور آٹھویں جماعت کے 15 ہزار سے زیادہ طلبہ نے اس تحقیق کا حصہ بنتے ہوئے ریاضی اور سائنس میں ایک معیار پر بنے ٹیسٹ مکمل کیے۔ اس تحقیق کی مالی معاونت پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے کی تھی۔

تمام ٹیسٹس پاکستان کے نصاب سے ہم آہنگ تھے اور گذشتہ مطالعے کے ذریعے ملک میں استعمال کے لیے موزوں قرار دیے گئے تھے۔

ریاضی کا اوسط سکور 100 میں سے27 فیصد تھا جبکہ سائنس کا اوسط سکور100 میں سے 34 فیصد تھا۔

تاہم دونوں مضامین میں صرف ایک فیصد طلبہ نے 80 سے زیادہ نمبرز حاصل کیے اور اس طرح محققین نے اسے ’عمدہ سمجھ بوجھ‘ قرار دیا ہے۔

لڑکیوں نے سائنس میں لڑکوں کو تھوڑا سا پیچھے چھوڑ دیا اور ریاضی میں لڑکوں کے برابر رہیں۔

نجی سکولوں میں اوسط سکور سرکاری سکولوں کے مقابلے میں زیادہ تھا، لیکن کسی بھی مضمون میں 40 سے زیادہ نہیں تھا۔ پنجاب میں اوسط سکور ملک کے دیگر علاقوں میں سب سے زیادہ تھا لیکن کسی بھی موضوع میں 40 سے زیادہ نہیں تھا۔

اس مطالعے میں مجموعی طور پر 78 سرکاری اور 75 نجی سکولوں نے حصہ لیا۔ 80 فیصد طلبہ کے والدین ہائی سکول سرٹیفکیٹ یا اس سے کم تعلیم یافتہ تھے۔

آٹھویں جماعت کے 20 طلبہ میں سے صرف ایک طالب علم اس سوال کا صحیح جواب دے سکا: ’ایک کلاس میں 30 طالب علم ہوتے ہیں۔ کلاس میں لڑکوں اور لڑکیوں کا تناسب 2:3 ہے۔ کلاس میں کتنے لڑکے ہیں؟‘

صرف 50 طلبہ ’10 ملین 20 ہزار اور 30‘ کو عددی شکل میں تبدیل کرسکے تھے۔ 10 میں سے ایک سے بھی کم بچہ یہ وجہ معلوم کرسکا کہ ورزش کے دوران دل تیزی سے کیوں دھڑکتا ہے۔

اس تحقیقاتی مطالعے کی شریک محقق اسسٹنٹ پروفیسر نصرت فاطمہ رضوی کا کہنا ہے کہ سائنس اور ریاضی کی تعلیم پر پریکٹیشنرز اور پالیسی سازوں کی توجہ کی اشد ضرورت ہے۔

محققین کو معلوم ہوا کہ طلبہ کے سیکھنے کے نتائج کے ساتھ  متعدد عوامل نمایاں طور پر منسلک تھے۔

اہمیت کے حوالے سے اس ترتیب میں وہ عوامل کچھ یوں تھے۔ ایک طالب علم کی والدہ کے پاس بیچلر یا ماسٹر کی ڈگری تھی (والد کا حصول تعلیم نسبتاً کم اہم تھا)، کلاس روم میں صرف ایک زبان بولا جانا، پرائیویٹ سکول جانا اور پنجاب کے سکول جانا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حیرت کی بات یہ ہے کہ طلبہ میں نئے اساتذہ کے مقابلے میں تجربہ کار اساتذہ سے سیکھنے کا رحجان کم تھا۔

طلبہ ڈگری حاصل کرنے والے اساتذہ سے سیکھنے کا رحجان بھی کم رکھتے تھے بہ نسبت ان اساتذہ کے جن کے پاس تعلیم کی ڈگری نہیں تھی۔

محققین نے ان کی تعلیم کے معیار کا جائزہ لینے کے لیے 589 اساتذہ کے کلاس رومز کا دورہ کیا۔ 10 میں سے تقریباً نو کی تدریسی مشقوں کو کمزور درجہ قرار دیا گیا تھا اور تقریباً 10 میں سے ایک کو اوسط درجے میں رکھا گیا تھا۔

کسی بھی استاد نے ایسا مظاہرہ نہیں کیا، جس کو محققین اچھی تدریسی مشق قرار دیں۔

تحقیق کی پرنسپل انویسٹی گیٹر ایسوسی ایٹ پروفیسر سعدیہ بھٹا نے کہا کہ زیادہ تر کمرہ جماعت میں اساتذہ طلبہ کو سوالات پوچھنے یا بنیادی خیال سمجھنے کے لیے سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ترغیب دینے کے بجائے نصابی کتاب سے الفاظ پڑھنے اور سمجھانے میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں بنیادی خیال کی ناقص تفہیم اور ٹیسٹس میں نتیجہ ناقص کارکردگی نکلتا ہے۔

مطالعے کے قابل ذکر نتائج میں یہ بھی شامل تھا کہ یک لسانی کلاس رومز کے طلبہ، جہاں نصابی کتاب، تدریس اور امتحانات سب ایک زبان میں تھے، نے کثیر لسانی کلاس رومز میں موجود طلبہ کو پیچھے چھوڑ دیا۔

محققین نے اساتذہ کا انٹرویو بھی کیا تاکہ انہیں درپیش مسائل کو سمجھا جاسکے۔ مباحثوں سے اساتذہ کو پیشہ ورانہ ترقی کے مواقع فراہم کرنے کی اشد ضرورت کا انکشاف ہوا تاکہ وہ اپنے موضوع کے علم اور اپنی تدریس پر غور کرنے کی صلاحیت دونوں کو بہتر بنا سکیں۔

آئی ای ڈی کی ڈاکٹر سعدیہ مظفر بھٹا، ڈاکٹر نصرت فاطمہ رضوی، سہیل احمد، خدیجہ ندیم، نورین عمران، سبینہ خان اور میمونہ خان اس تحقیقی ٹیم کا حصہ تھیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس