نقل کے لیے کان میں بلوٹوتھ لگوانے والا بھارتی طالب علم پکڑا گیا

11  سال قبل میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کے بعد سے ہر بار فیل ہونے کے بعد حالیہ امتحان اس طالب علم کی آخری کوشش تھی۔

 2015  میں   بھارت کی  شمالی ریاست بہار میں طالب علموں کے والدین اور رشتہ داروں کو سکولوں کی دیواروں پر چڑھتے ہوئے دیکھا گیا تھا اور پولیس قریب کھڑی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی(فائل فوٹو: اے پی)

بھارت میں بار بار فیل ہونے والا میڈیکل کا ایک طالب علم مبینہ طور پر مائیکرو بلوٹوتھ ڈیوائس کے ساتھ امتحان میں نقل کرتے ہوئے پکڑا گیا، جسے اس کے کان میں سرجری کے ذریعے ٹرانسپلانٹ کیا گیا تھا۔

11 سال قبل میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کے بعد سے ہر بار فیل ہونے کے بعد پیر کو ہونے والا امتحان طالب علم کی آخری کوشش تھی۔

پرائیویٹ میڈیکل کالج کا یہ طالب علم مہاتما گاندھی میموریل میڈیکل کالج میں امتحان دے رہا تھا جب ان کے ٹراؤزر کی اندرونی جیب میں سے ایک موبائل فون ملا جو کہ بلیو ٹوتھ ڈیوائس سے منسلک تھا۔

لیکن میڈیکل کالج کے ڈین ڈاکٹر سنجے ڈکشٹ نے دی انڈیپنڈنٹ کو بتایا کہ عملہ طالب علم، جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، کی تلاشی لیتے ہوئے بلوٹوتھ ڈیوائس کو برآمد کرنے میں ناکام رہا۔

ڈاکٹر سنجے ڈکشٹ نے کہا: ’وہ پیر کو 13 دیگر طلبہ کے ساتھ جنرل میڈیسن کا امتحان دے رہا تھا جب ’دیوی اہیلہ بائی یونیورسٹی‘ کا عملہ اچانک جانچ کے لیے یہاں پہنچا اور انہیں ایک طالب علم کے پاس سے موبائل فون اور دوسرے سے بلوٹوتھ ڈیوائس ملی۔‘

انہوں نے کہا: ’دو طلبہ سے ملنے والی ڈیوائسز اور ان کے امتحانی پرچوں کو ضبط کر لیا گیا اور انہیں نئی شیٹس دی گئیں۔‘

بھارت کے انگریزی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق کالج کے حکام کی طرف سے پوچھ گچھ کے بعد ایک اہلکار نے کہا کہ طالب علم کے کان میں جلد کے رنگ کی ایک مائیکرو بلوٹوتھ ڈیوائس موجود ہے، جسے ایک ای این ٹی سرجن نے ٹرانسپلانٹ کیا تھا۔

ایک اور طالب علم کو سِم سے چلنے والی ایک چھوٹی ڈیوائس اور ایک مائیکرو بلوٹوتھ ڈیوائس کے ساتھ پکڑا گیا لیکن اس نے کالج کے حکام کو بتایا کہ اسے سرجیکل طور پر ٹرانسپلانٹ نہیں کیا گیا تھا اور اسے پِن سے ہٹایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر ڈکشٹ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ طلبہ نے جان بوجھ کر ان ڈیوائسز کو چھپایا تھا کیونکہ ان سے کہا گیا تھا کہ وہ تمام الیکٹرانکس اشیا عملے کو جمع کروا دیں۔

یونیورسٹی کی امتحانی کمیٹی نے معاملے کی اندرونی تحقیقات شروع کر دی ہیں اور ڈیوائسز کو جانچ کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔

یونیورسٹی عملے کے ساتھ موجود ڈپٹی رجسٹرار رچنا ٹھاکر نے اخبار کو بتایا کہ تفتیش کے اختتام پر اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ آیا یہ امتحان میں غیر منصفانہ طریقے استعمال کرنے کے لیے پولیس کیس بنتا ہے یا نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دونوں طالب علموں کو پکڑنے والی چھاپہ مار ٹیم کی وائس چانسلر رینو جین نے سرکاری خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو بتایا: ’ہمارا خیال ہے کہ یہ مائیکروفون دونوں طالب علموں کے کانوں میں سرجیکل طور پر لگائے گئے تھے۔ دونوں طالب علموں کے خلاف کیس تیار کر لیے گئے ہیں۔ دیوی یونیورسٹی کی کمیٹی اس معاملے پر فیصلہ کرے گی۔‘

بھارت میں طلبہ کی جانب سے بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی کرتے ہوئے پکڑے جانا یا پکڑے نہ جانے کے لیے ایسے چالاک طریقوں کا استعمال کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے جہاں امیدواروں کی تعداد ملازمت کے لیے خالی آسامیوں اور کورسز کے لیے کالجوں میں نشستوں سے زیادہ ہوتی ہے۔

ریاست مدھیہ پردیش بھی اسی قسم کے دھوکہ دہی کے ایک بڑے سکینڈل کی زد میں آئی تھی، جب سپریم کورٹ کو اس میں ملوث 634 ڈاکٹروں کے لائسنس منسوخ کرنے پڑے۔

’ویاپم‘ نامی اس سکینڈل کے دوران 2008 سے 2013 کے درمیانی عرصے میں کئی لوگوں کو سوالیہ پرچوں کو لیک کرنے، جوابی پرچوں میں دھاندلی اور طالب علم کی بجائے امتحان میں بیٹھنے کے لیے دوسرے افراد کی خدمات حاصل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ویاپم سکینڈل کی تحقیق کرنے والے ڈاکٹر آنند رائے نے کہا: ’کانوں میں بلوٹوتھ لگانا بہت آسان ہے۔ یہ عارضی طور پر کان سے منسلک ہو جاتا ہے اور بعد میں اسے ہٹایا جا سکتا ہے۔ ویاپم سکینڈل کے ایک ملزم نے بھی آٹھ سال قبل اپنا میڈیکل امتحان پاس کرنے کے لیے اس طرح کی تکنیک کا استعمال کیا تھا۔‘

 2015  میں ایک اور واقعے میں، جس نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل کی تھی، شمالی ریاست بہار میں طالب علموں کے والدین اور رشتہ داروں کو سکولوں کی دیواروں پر چڑھتے ہوئے دیکھا گیا تھا اور پولیس قریب کھڑی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ اس قدر بڑے پیمانے پر نقل کے واقعے کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوئیں، جس کے بعد سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں کچھ والدین بھی شامل تھے اور کم از کم 750 طلبہ کو اداروں سے نکال دیا گیا تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس