چین میں چھ سال کے بچوں سے امتحان لینے پر پابندی

یہ اقدامات چین کے تعلیمی شعبے میں حکومتی سطح پر وسیع اصلاحات کا حصہ ہیں جن کے تحت ان سکولوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی جہاں رٹا لگوایا جاتا ہے۔

چھ اپریل کو لی گئی تصویر میں والدین بچوں کو بیجنگ میں ایک سکول سے واپس لا رہے ہیں۔ چین نے چھ سال کے بچوں کے لیے امتحانات ختم کر دیے ہیں (روئٹرز)

چین کی حکومت نے پیر کو چھ اور سات سال کی عمر کے بچوں کے تحریری امتحانات پر پابندی لگا دی۔

یہ پابندی چینی نظام تعلیم میں ان جامع اصلاحات کا حصہ ہے جن کا مقصد سکولوں کے طلبہ اور والدین پر دباؤ کم کرنا ہے جہاں سخت مقابلے کا رجحان ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چین کے امتحان کی بنیاد پر چلنے والے نظام تعلیم میں اس سے قبل اگلی جماعت میں جانے کے لیے پہلی جماعت سے امتحانات کا سلسہ شروع ہو جاتا تھا جو 18 سال کی عمر میں یونیورسٹی میں داخلے کے امتحان کے خوف پر ختم ہوتا تھا۔

چین میں جامعات میں داخلے کے ٹیسٹ کو ’گاؤکاؤ‘ کہا جاتا ہے جس میں ایک نمبر کا فرق بھی طالب علم کی پوری زندگی کو متاثر کر سکتا ہے۔

پیر کو جاری ہونے والے نئے رہنما اصولوں کے مطابق: ’تواتر سے امتحانات جن کی وجہ سے طلبہ پر حد سے زیادہ بوجھ پڑتا ہے اور وہ امتحان کی وجہ سے سخت دباؤ میں آجاتے ہیں وزارت تعلیم کی  جانب سے ختم کر دیے گئے ہیں۔‘

وزارت تعلیم کا کہنا ہے کہ چھوٹی عمر سے طلبہ پر دباؤ ان کی ’ذہنی اور جسمانی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے۔‘

نئے قواعد و ضوابط کی رو سے لازمی تعلیم کے دوسرے برسوں میں بھی امتحان کو ایک بار فی ٹرم تک محدود کر دیا ہے۔ جونیئر ہائی سکول میں بھی مڈم ٹرم اور فرضی امتحان لیے جائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ اقدامات چین کے تعلیمی شعبے میں حکومتی سطح پر وسیع اصلاحات کا حصہ ہیں جن کے تحت ان سکولوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی جہاں رٹا لگوایا جاتا ہے۔ والدین کی رائے میں یہ طریقہ کار بچوں کی تعلیم کو مصنوعی طریقے سے آگے بڑھانے کا عمل ہے۔

جولائی میں چین نے ٹیوشن کی خدمات فراہم کرنے والے تمام نجی اداروں کو غیر منافع بخش بن جانے کا حکم دیا تھا اور ٹیوشن دینے والے اداروں کو اختتام ہفتہ اور چھٹی والے دنوں میں بنیادی مضامین پڑھانے سے روک دیا تھا۔ اس طرح 100 ارب ڈالر کے اس شعبے کو موثر انداز میں کنٹرول کیا گیا۔

اس اقدام کا مقصد چینی تعلیم میں عدم مساوات کو کم کرنا ہے جہاں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے بعض والدین اپنے بچوں کو چوٹی کے سکولوں میں داخلہ دلوانے کے لیے نجی ٹیوشن پر سالانہ ایک لاکھ یوآن (15 ہزار چار سو ڈالر) خرچ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔

کچھ والدین سکولوں کے قریب واقع علاقوں میں مکان بھی خریدتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں مکانوں کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔

شنگھائی کی کنسلٹنگ فرم اولیور وائمن کی شراکت دار اور ایشیائی تعلیم کے شعبے کی سربراہ کلاڈیا وانگ کا کہنا ہے کہ ’کوئی اور ملک نہیں ہے جہاں ٹیوش کا وہ کلچر پایا جاتا ہو جیسا کہ چین میں ہے۔‘

بیجنگ شہر کے حکام نے گذشتہ ہفتے حکم جاری کیا ہے کہ اساتذہ ہر چھ سال بعد سکول تبدیل کریں تا کہ قابل اساتذہ کو ایک ہی سکول میں جمع ہونے سے روکا جا سکے۔

چین میں آبادی میں اضافے کی شرح کئی دہائیوں سے کم ترین سطح پر ہے۔

اس صورت حال میں چینی حکام نے رواں سال کے آغاز میں دو بچوں کی پابندی اٹھا لی تھی اور ان کی خواہش ہے کہ ایسے والدین کی مراعات میں اضافہ کیا جائے جو مزید بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا