’چار سال محنت کی لیکن اب مقابلے کا امتحان نہیں دے سکتا‘

خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن کی پالیسی میں تبدیلی سے پرونشل مینجمنٹ سروسز کے امتحان میں بیٹھنے کے خواہش مند امیدواران اب تشویش کا شکار ہیں۔

نئی پالیسی کے تحت نا اہل قرار دیے جانے والے امیدواروں نے پشاور پریس کلب کے باہر گذشتہ پانچ دنوں سے دھرنا بھی شروع کیا ہے (تصویر:سہیل وزیر)

صوبہ خیبر پختونخوا میں پبلک سروس کمیشن (پی ایس سی) نے صوبائی انتظامی خدمات (پی ایم سی) کے امتحانات میں اہلیت کے طریقہ کار میں تبدیلی کی ہے جس پر نوجوان امیدواروں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ 

’میں نے چار سال تک مقابلے کے امتحانات کے لیے تیاری کی۔ سکریننگ ٹیسٹ سمیت امتحان کے لیے بھی تیاری کر رہا تھا اور گذشتہ ماہ خیبر پختونخوا  کے صوبائی منیجمنٹ سروس کے امتحان کے سکریننگ ٹیسٹ میں 65 فیصد مارکس خاصل کیے لیکن ای مجھے امتحان میں بیٹھنے کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا ہے۔‘

یہ کہنا تھا خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ سہیل وزیر کا جو خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن کی نئی پالیسی کی وجہ سے پریشان ہیں اور سکریننگ ٹیسٹ پاس کرنے کے باوجود ان کو باقاعدہ تحریری امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔

صوبائی پبلک سروس کمیشن نے صوبے کی سطح پر ہونے والے  ’پرونشل مینیجمنٹ سروسز(پی ایم ایس)‘ کے مقابلے کے تحریری  امتحان میں بیٹھنے کے لیے امیدواروں کی اہلیت کی پالیسی میں تبدیلی کی ہے۔

پی ایم ایس دراصل سی ایس ایس کے طرز کا متحان ہوتا ہے جس میں صوبے کے اندر انتظامیہ کی خالی پوسٹس پر گریڈ 17میں تعیناتی کی جاتی ہے۔

یہ امتحان عام طور پر ہر چار سال بعد لیا جاتا ہے جس میں صوبے بھر سے ہزاروں امیدوار حصہ لیتے ہیں اور امیداروں سے امتحان لیا جاتا ہے لیکن اس سے پہلے ایک سکریننگ ٹیسٹ بھی لیا جاتا ہے۔

سہیل وزیر نے بتایا جو پولیٹیکل سائنس میں بی ایس کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں اور ٹاپر رہے ہیں کہ رواں سال مارچ میں اس مقابلے کے امتحان کے لیے اشتہار دیا گیا تھا اور ہر امیدوار سے  1500 روپے بطور امتحانی فیس بھی وصول کیے گئے ہیں تھے۔ پبلک سروس کمیشن کے مطابق تقریباً 35 ہزار امیدواروں نے اندراج کرایا تھا۔ 

تاہم سہیل کا کہنا ہے کہ اشتہار کے بعد پبلک سروس کمیشن نے اہلیت کی پالیسی میں تبدیلی کر دی۔

انہوں نے بتایا: ’پچھلے امتحانات میں پبلک سروس کمیشن کی جانب سے سکریننگ ٹیسٹ پاس کرنے کے لیے ایک مخصوص فیصد مقرر کی جاتی تھی جس طرح پچھلے امتحان میں 40 فیصد نمبرز مقرر کیے گئے تھے۔ لیکن ابھی نئی پالیسی یہ بنائی گئی ہے کہ ہر ایک خالی نشست کے لیے 25 امیداروں کو سکریننگ ٹیسٹ سے منتخب کیا جاتا ہے۔‘

سہیل نے بتایا کہ یہ پالیسی زون وائز ہے۔ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں پورے صوبے کے اضلاع کو مختلف زونز میں  تقسیم کیا گیا ہے۔

زونز ایک میں باجوڑ، مہمند، خیبر، کرم، اورکزئی، شمالی و جنوبی وزیرستان کے اضلاع شامل ہیں۔

اسی طرح زون نمبر دو میں پشاور، چارسدہ ، نوشہرہ ، صوابی اور مردان

جبکہ زون نمبر تین میں سوات، دیر، بونیر، چترال، شانگلہ، ملاکنڈ شامل ہیں۔

زون چار میں ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، بنوں، لکی مروت، کوہاٹ، اور کرک کے اضلاع شامل ہیں

اور زون پانچ میں ہری پور، ایبٹ آباد، اور مانسہرہ شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان خالی آسامیوں کی تقسیم بھی زون وائز کی جاتی ہے۔ رواں سال مجموعی طور پر پورے صوبے میں 95 خالی آسامیوں کے لیے امیدواروں سے امتحان لیا جائے گا۔

سہیل نے بتایا: ’اب نئی پالیسی یہ ہے کہ زون میں اگر ایک خالی آسامی ہے تو اس کے لیے سکریننگ ٹیسٹ میں 25 امیدواروں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

اب میرا تعلق زون فور سے ہے اور میں نے سکریننگ ٹیسٹ میں 65 فیصد مارکس حاصل کیے ہیں لیکن میں پہلے 25 امیداواروں میں شامل نہیں ہوں تو مجھے تحریری امتحان میں  بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔‘

رواں سال پی ایم ایس کے سکریننگ ٹیسٹ میں تقریباً 35 ہزار امیدواران موجود تھے لیکن نئی پالیسی کی تحت ان میں صرف 23 سو تک امیدواروں کو اہل قرار دیا گیا ہے کہ وہ تحریری امتحان میں بیٹھ سکیں گے جبکہ باقی کو مقابلے سے باہر کردیا گیا ہے۔

سہیل نے بتایا کہ پی ایم ایس امتحان دینا اور اس کو پاس کرنا ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک سخت امتحان ہوتا ہے اور امیدواران اس کے لیے سالوں سے مطالعہ کرتے ہیں لیکن پبلک سروس کمیشن کی انتظامیہ ان نے امیدواروں کو صرف غیر متعلقہ سوالات پر مبنی ایک معروضی سکریننگ ٹیسٹ کی بنیاد پر امتحان سے باہر کردیا ہے جو امیدواروں کے ساتھ زیادتی ہے۔

سہیل کے طرح سینکڑوں دیگر امیدوار بھی پریشان ہے۔ نئی پالیسی کے تحت نا اہل قرار دیے جانے والے امیدواروں نے پشاور پریس کلب کے باہر گذشتہ پانچ دنوں سے دھرنا بھی شروع کیا ہے اور ان کا صوبائی حکومت سے مطالبہ ہے کہ پبلک سروس کمیشن کی انتظامیہ سے بات کر کے اس نئی پالیسی پر نظرثانی کی جائے۔

عدنان خٹک بھی ان مظاہرین میں سے ایک ہیں جنہوں نے پشاور یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی ہے اور اس دفعہ صوبائی مقابلے کے امتحان دینے اور اس میں کامیاب ہونے کے لیے پر امید تھے۔

عدنان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملک میں لاکھوں ڈگری ہولڈرز بے روزگار ہیں اور اس دفعہ تو کرونا وائرس کی وبا نے بھی بہت سے نوجوانوں کو متاثر کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کرونا کی وجہ سے پی ایم ایس کے امتحانات بھی تاخیر کا شکار ہوئے جو 2019 میں ہونے تھے لیکن کرونا کی وجہ سے 2020 میں منعقد کیا گیا اور اب اس نئی پالیسی نے  ہزاروں طلبہ کے مستقبل کو ہوا میں معلق کردیا ہے۔

عدنان نے بتایا: ’اس دفعہ سینکڑوں ایسے طلبہ ہے جن کا اس امتحان دینے کے آخری چانس ہے کیونکہ ان میں سے بعض کی عمر زیادہ ہوجائے گی اور وہ امتحان کے لیے اہل نہیں ہوں گے جبکہ بعض دو دفعہ پہلے یہ امتحان دے چکے ہیں تو وہ آئندہ یہ امتحان دینے کے لیے اہل نہیں ہوں گے۔‘

رولز میں کیا ترمیم کی گئی ہے ؟

خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن نے نئے پالیسی کا نوٹیفیکشن مارچ 2021 میں جاری کیا تھا جبکہ پی ایم ایس کے لیے اشتہار دسمبر 2020 میں جاری ہوا تھا لیکن عدنان کے مطابق نئی پالیسی کے حوالے سے امیدواروں کو کچھ بھی نہیں بتایا گیا ہے۔

پبلک سروس کمیشن کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے)  کے مطابق خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن رولز 2017  کے رول نمبر 24 میں اضافی فقرہ شامل کیا گیا ہے۔

ترمیم کے مطابق ہر ایک زون میں ایک خالی پوسٹ کے لیے سکریننگ ٹیسٹ میں ٹاپ 25 امیدواروں کو تحریری امتحان میں بیٹھنے کی اجازت ہوگی۔

انوہی رولز کے شق نمبر 24 میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ کمیشن کے چئیرمین کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ سکریننگ ٹیسٹ کو کسی خالی پوسٹ کے حوالے سے کس زمرے میں لیتا ہے جبکہ سریننگ ٹیسٹ میں لیے گئے مارکس کو صرف کسی خالی پوسٹ کے لیے شارٹ لسٹنگ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

تاہم ان رولز میں پہلے مقابلے کے امتحان کے حوالے سے ایسی کوئی شق موجود نہیں تھی کہ سکریننگ ٹیسٹ میں کتنے فیصد مارکس لینے ہوں گے اور نہ رولز میں ایسی کوئی بات  لکھی گئی ہے کہ ایک پوسٹ کے لیے سکریننگ ٹیسٹ میں کتنے امیدوروں کو شارٹ لسٹ کیا جائے گا۔

حکومت کا موقف

صوبائی معاون خصوصی برائے اعلیٰ تعلیم و اطلاعات کامران خان بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب سے یہ مسئلہ سامنے آیا ہے تو ہزاروں امیدواروں نے ان کے ساتھ رابطہ کیا ہے اور انہوں نے وزیر اعلیٰ کی اجازت لینے کے بعد پبلک سروس کمیشن کے چئیر مین کے ساتھ بات بھی کی ہے۔

کامران نے بتایا: ’مجھے چیئرمین نے بتایا کہ یہ مسئلہ ان کے میز پر پڑا ہے اور اس پر کام جاری ہے۔ اب پبلک سروس کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے اور حکومت ان کے فیصلوں کو چیلنج نہیں کر سکتی لیکن ہم صرف درخواست کر سکتے ہے کہ ان امیدواروں کو مسئلہ حل ہو سکے۔‘

تاہم انہوں نے بتایا کہ اس میں اب ایک اور ایشو سامنے آگیا ہے کہ جو امیدوار نئی پالیسی کے تحت تحریری امتحان کے لیے شارٹ لسٹ ہوگئے ہیں وہ کہتے ہے کہ نئی پالیسی میں اب تبدیلی کرنا میرٹ کے خلاف ہوگا۔

کامران نے بتایا: ’اب یہ صورتحال بنی ہے کہ اس میں دو پارٹیاں سامنے آئی ہیں لیکن پبلک سروس کمیشن نے مجھے یہی بتایا ہے کہ وہ اس مسئلے پر کام کر رہے ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل