جب زینت امان کی ’نہ‘ سے ہدایت کار آپے سے باہر ہو گئے

من موہن ڈیسائی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ زینت امان زیر تکمیل فلم ’دھرم ویر‘ سے بھی زینت امان کو نکال باہر کریں، حالانکہ اس کا 75 فیصد کام مکمل ہو چکا تھا۔

زینت امان 1977 میں آنے والی فلم دھرم ویر میں، جو بےحد کامیاب رہی (ایس ایس مووی ٹون)

ہدایت کار اور پروڈیوسر من موہن ڈیسائی بیک وقت دو فلموں کی عکس بندی کر رہے تھے۔ ایک طرف تیزی سے ’دھرم ویر‘ جاری تھی تو دوسری جانب ’امر اکبر انتھونی۔‘

اس کی کہانی انہوں نے اخبار کی ایک خبر سے لی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک شرابی اپنے تین بچوں کو پارک میں چھوڑ گیا تھا۔ اسی کو موضوع بنا کر انہوں نے یہ سوچا کہ اس خبر پر فلم بنائیں، جس میں یہ دکھائیں گے کہ ایک بچہ مسلم، دوسرا ہندو اور تیسرا مسیحی گھرانے میں پرورش پاتا ہے۔

یہ ملٹی سٹار کاسٹ والی فلم تھی، جس میں انہوں نے امیتابھ بچن، رشی کپور اور ونود کھنہ کو شامل کیا۔ ظاہر ہے کہ اتنی بڑی مردانہ کاسٹ کے ساتھ ہیروئنز کا کام نہ ہونے کے برابر کام تھا۔ من موہن ڈیسائی نے پھر بھی زیر تکمیل فلم ’دھرم ویر‘ کی ہیروئن زینت امان کوشامل کرنے کا فیصلہ کیا جن کی اداکاری سے وہ خاصے متاثر ہوئے تھے۔

من موہن ڈیسائی کا خیال تھا کہ زینت امان کی جوڑی امیتابھ بچن کے ساتھ بہتر رہے گی جبکہ رشی کپور کے لیے نیتو سنگھ اور ونود کھنہ کے لیے شبانہ اعظمی کو منتخب کیا۔

ان دونوں ہیروئنوں نے اس پیش کش قبول کر لی، البتہ زینت امان کا معاملہ مختلف نکلا۔ ہدایت کار من موہن ڈیسائی نے ایک دن ’دھرم ویر‘ کی عکس بندی کے دوران ہی زینت امان کو اپنے دل کی خواہش بیان کی تو زینت امان نے ان سے پہلے سکرپٹ پڑھنے کا مطالبہ کر دیا۔

زینت امان کے پاس سکرپٹ پہنچا تو انہوں نے اس کا بغور مطالعہ کیا۔ انہیں لگا کہ اس فلم میں تو ان کے لیے کرنے کو تو کچھ بھی نہیں ہے۔ بس یہ دیکھ کر زینت امان نے معذرت کر لی۔

یہ خبر جب من موہن ڈیسائی تک پہنچی تو ان کا غصہ ساتویں آسمان تک پہنچ گیا۔ انہوں نے ایک بار پھر زینت امان سے وجہ دریافت کی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے  ایک تو وہی وجہ بیان کی کہ اس میں میرے کرنے کو کچھ نہیں ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اس میں جو معاوضہ مل رہا ہے وہ بھی کم ہے۔

من موہن ڈیسائی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ زیر تکمیل فلم ’دھرم ویر‘ سے بھی زینت امان کو نکال باہر کریں۔ اسسٹنٹ سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ فلم کا 75 فی صد کام مکمل ہو چکا ہے، اس لیے یہ قدم نہ ہی اٹھایا جائے تو بہتر ہو گا۔

اس لیے ڈیسائی یہاں تو مان گئے مگر ’امر اکبر انتھونی‘ کے لیے من موہن ڈیسائی نے ایک لمحے کے لیے بھی دیر نہیں لگائی اور زینت امان کی جگہ فوراً پروین بوبی کو شامل کر لیا۔

اب صورت حال یہ تھی کہ’دھرم ویر‘ اور’امر اکبر انتھونی‘ ساتھ ساتھ بن رہی تھیں لیکن من موہن ڈیسائی کی تمام تر توجہ ’امر اکبر انتھونی‘پر تھی۔

یہ فلم انتہائی مختصر عرصے میں تیار ہو کر 27 مئی 1977 کو سینیما گھروں میں نہ صرف سج گئی بلکہ اس نے آتے ہی باکس آفس پر دھوم بھی مچا دی۔ گو کہ ہیروئنز پروین بوبی، نیتو سنگھ اور شبانہ اعظمی کا کردار واقعی واجبی نوعیت کا تھا لیکن اس کے باوجود کہانی ایسی تھی کہ اس کمی کا کسی کو احساس ہی نہیں ہوا۔

بہرحال ’امر اکبر انتھونی‘ سے فرصت ملی تو اب من موہن ڈیسائی نے ’دھرم ویر‘ کو بھی مکمل کرنے میں پھرتی دکھائی۔ فلم کی عکس بندی کے دوران زینت امان اور من موہن ڈیسائی کے درمیان تلخیاں بڑھتی رہیں اور کئی مواقع پر وہ کسی نہ کسی منظر پر زینت امان پر اپنا غصہ نکالتے رہے۔

من موہن ڈیسائی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر انیل ناگراتھ یہ سب بھانپ رہے تھے، اسی بنا پر انہوں نے ایک آگے بڑھ کر باقی عکس بندی خود کرانی شروع کر دی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کسی طرح فلم متاثر ہو۔

پھر چھ ستمبر 1977 کو ’دھرم ویر‘ بھی سینیما گھروں میں لگی تو من موہن ڈیسائی کی دیگر فلموں کی طرح اس نے بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔

زینت امان کی اداکاری اس فلم میں عروج پر رہی۔ جس کی وجہ سے انہیں بعد میں ’شالیمار،‘ ’ڈان،‘ ’گریٹ گیمبلر،‘ ’دوستانہ،‘ ’لاوارث‘  اور ’رام بلرام‘ جیسی بہترین فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا۔

زینت امان من موہن ڈیسائی کی ممنون تھیں لیکن وہ جانتی نہیں تھی کہ ’امر اکبر انتھونی‘ میں کام سے انکار نے کو وہ برہم کر چکی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسے میں من موہن ڈیسائی نے جب اگلے دو برسوں کے دوران ’سہاگ‘ اور ’دیش پریمی‘ بنانے کا ارادہ کیا تو پروڈکشن ٹیم کا یہی کہنا تھا کہ ان دنوں زینت امان کی جوڑی امیتابھ بچن کے ساتھ ہٹ جا رہی ہے، جن کے ساتھ ان کی ڈان، گریٹ گیمبلر، دوستانہ اور لاوراث ہٹ ہو چکی ہیں، اس لیے بہتر ہو گا کہ ان دونوں فلموں کے لیے زینت امان کو ہی کاسٹ کیا جائے۔

لیکن من موہن ڈیسائی اڑ گئے۔ انہوں نے دو ٹوک لفظوں میں کہ دیا کہ کچھ بھی ہو جائے میں زینت امان کو ہیروئن نہیں لوں گا۔ انہوں نے دونوں فلموں میں پروین بوبی کو ہی کاسٹ کیا۔

غصے کے تیز من موہن ڈیسائی نے اپنی پروڈکشن ٹیم پر یہ بھی واضح کر دیا کہ اب وہ کبھی بھی کسی فلم کے لیے ان کے سامنے زینت امان کے نام کی پیش کش نہ کریں۔ ایسا ہی ہوا جب تک من موہن ڈیسائی زندہ رہے، انہوں نے پھر کسی بھی فلم کے لیے زینت امان کو کاسٹ نہیں کیا۔

یوں ایک بڑے ہدایت کار کو زینت امان کی ’نہ‘ نے انہیں ہمیشہ کے لیے ان کے کیمپ سے آؤٹ کر دیا۔

زینت امان کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہیں بھی ملال ہونے لگا کہ کاش وہ سپر ہٹ فلم ’امر اکبر انتھونی‘ میں کام نہ کرنے سے معذرت نہ کرتیں۔ یہ پچھتاوا انہیں 1978 میں اس وقت اور زیادہ ہوا تھا جب فلم فیئر ایوارڈز میں ’امر اکبر انتھونی‘ نے زینت امان کی ہی فلم ’ہم کسی سے کم نہیں‘ کے ساتھ سب سے زیادہ سات نامزدگیاں حاصل کیں۔

حالانکہ ’ہم کسی سے کم نہیں‘ میں زینت امان کا کردار مہمان اداکارہ کا تھا لیکن زینت امان کو یہ رنج رہا کہ اگر وہ فلم میں کام کرنے کی ہامی بھر لیتیں تو ان کے پاس منفرد اعزاز آ جاتا کہ سب سے زیادہ نامزدگیوں والی دونوں فلمیں انہی کی تھیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی فلم