ونود کھنہ کی فلم جو دو ماہ میں مکمل ہو کر سپر ہٹ بنی

جھٹ بٹ بننے والی اسی فلم سے ونود کھنہ کے ڈوبتے کیریئر کو سہارا اور مادھوری ڈکشٹ کو پہلا بریک ملا۔

(فیروز خان فلمز)

فیروز خان نے ہالی وڈ کی کلاسک ’دا گاڈ فادر‘ سے متاثرہ تمل زبان کی فلم ’نائیکان‘ دیکھی تو ان کا خیال تھا کہ اس سے بہتر کوئی فلم ہو ہی نہیں سکتی کہ جس پر ری میک بنائی جائے۔

فلم تھی بھی غیر معمولی، ہدایت کار منی رتنم کی اس تمل زبان کی فلم میں مرکزی کردار کمل ہاسن نے ادا کیا تھا۔ کہانی ایک ایسے انسان کی تھی جو درحقیقت رابن ہڈ ہی کہا جا سکتا تھا۔ بچپن سے احساس محرومی اور حق تلفی کا شکار ایسا ہوتا ہے کہ جرم کی راہ کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

پھر ایک دن جرائم کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بن کر ہر ایک کے دل پر حکمرانی کر رہا ہوتا ہے۔ وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ ’دیاوان‘ یعنی رحم دل اور مخلص ہے۔ جبھی غریبوں کا مسیحا اور ہر دکھ سکھ میں ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔

فیروز خان کو جب یہ معلوم ہوا کہ اس تمل زبان کی فلم کے حقوق خریدنے کے لیے امیتابھ بچن اور جیتندر بھی بے چین ہیں تو انہوں نے ان سب سے زیادہ رقم ادا کر کے اسے ہندی زبان میں بنانے کے حقوق حاصل کر لیے۔

دو سال پہلے ہی ان کی ایک اور فلم ’جانباز‘ نے ہر ایک کو گرویدہ بنا لیا تھا، اسی لیے 1988 میں انہوں نے تمل زبان کی فلم سے متاثر ہو کر ’دیاوان‘ بنانے کی تیاری پکڑی تو ان کے ذہن میں مرکزی کردار کے لیے کوئی اور نہیں ونود کھنہ ہی تھے۔

فیروز خان کی ہمیشہ سے عادت رہی تھی کہ وہ دوسرے اداکاروں کے برعکس وہی کردار ادا کرتے جو انہیں بہتر محسوس ہوتا۔ یہی نہیں تھا کہ سرمایہ لگایا ہے تو سکرین پر خود ہیرو بن جائیں، اسی لیے انہوں نے ونود کھنہ کو ’دیاوان‘ بنانے کا فیصلہ کیا۔

ونود کھنہ اور فیروز خان کی اپنی الگ دوستی تھی اور اس میں مزید مضبوطی اس وقت آئی جب انہوں نے ’قربانی‘ میں ایک ساتھ کام کیا۔ اسی لیے فیروز خان کی پیش کش پر ونود کھنہ نے آنکھ بند کرکے فلم کو سائن کیا۔

انہیں یقین تھا کہ اگر فیروز خان نے انہیں شامل کیا ہے تو یہ یقینی طور پر ہٹ ہو گی کیونکہ تمل فلم نے بھی جنوبی بھارت میں تہلکہ مچایا تھا۔

فیروز خان کی کوشش تھی کہ فلم کو جتنی تیزی کے ساتھ بنایا جائے، اتنا ہی اچھا ہو گا، اسی لیے انہوں نے اپنے علاوہ، ونود کھنہ، ادتیہ پنجولی اور انوررادھا پاٹیل کا تو انتخاب کر لیا۔

اب مسئلہ ونود کھنہ کی ہیروئن کا درپیش تھا۔ یہ ایک مختصر سا کردار تھا، کوئی بھی اداکارہ آگے بڑھ کر اسے ادا کرنے پر تیار نہیں تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس میں ہیروئن کا بوس و کنار کا ایک بولڈ منظر تھا، جسے دیکھتے ہوئے اداکارائیں معذرت کر رہی تھیں۔

ایسے میں پہنچتے پہنچتے یہ کردار مادھوری ڈکشٹ تک آیا۔ اس وقت تک ان کی کوئی ہٹ فلم نہیں آئی تھی اور ’تیزاب‘ جس نے مادھوری کو مادھوری بنایا، ابھی زیر تکمیل تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اسے ادا کرنے میں دیر نہیں لگائی کیونکہ انہیں ایک بڑے ’بریک‘ کی ضرورت تھی۔ ان کی یہ خواہش اس فلم سے پوری ہو گئی۔

فیروز خان ’دیاوان‘ کو ایک ہی شیڈول میں عکس بند کرنے کا ارادہ کرے بیٹھے تھے۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی فلم ہوگی، جس کو صرف دو ماہ میں مکمل کیا گیا۔ موسیقار لکشمی کانت پیارے نے جھٹ پٹ چار گیت تیار کیے۔

’دیاوان‘ مکمل ہو چکی تو فیروز خان کو لگا کہ اس میں کوئی ایک ایسا گیت ہونا چاہیے جو دیاوان یعنی ونود کھنہ کے اس کرب اور درد کو بیان کرے جو اس نے بچپن سے بڑھاپے تک سہے۔ اسی لیے وہ بار بار موسیقار لکشمی کانت پیارے لال تک جاتے اور یہی فرمائش کرتے کہ کوئی ایسا ہی گانا تیار کریں۔

موسیقار جوڑی نے نغمہ نگار اندیور کو طلب کیا اور انہیں فیروز خان کی پریشانی بتائی۔ وہ بھی سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ادھر فیروز خان انتظار میں تھے کہ کب گیت تیار ہو تاکہ وہ ’دیاوان‘ کو سنیما گھروں میں لگائیں۔ آخرکار ایک دن اندیور نے بول لکھ کر موسیقار لکشمی کانت پیارے لال کو تھمائے تو انہوں نے راتوں رات اس کی دھن تیار کر دی۔

گلوکاری کے لیے محمد عزیز کا انتخاب ہوا، جنہوں نے ایسا ڈوب کر ’دل تیرا کس نے توڑا‘ گایا کہ جب اسے فیروز خان کو سنایا گیا تو وہ جھوم اٹھے۔ جو کرب، جو جذبات، جو رنج اور جو دکھ انہیں گیت میں چاہیے تھا وہ انہیں مل گیا۔ ’دیاوان‘ میں یہ گیت آناً فاناً عکس بند کیا گیا، جبکہ کئی مواقع پر اسے پس پردہ بھی استعمال کیا گیا۔

ہدایت کار فیروز خان نے اب 29 ستمبر 1988 کو ’دیاوان‘ سنیما گھروں میں پیش کی تو ہاؤس فل کے بورڈز بھی لگنے شروع ہو گئے۔ ونود کھنہ نے بھی کیا ڈوب کر اداکاری کی کہ کئی ہم عصر اداکاروں کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بج گئیں۔

بیشتر کا خیال تھا کہ ونود کھنہ جو طویل عرصے تک فلمی دنیا سے دور رہے تھے، اسی فلم کے ذریعے پھر سے وہ بھارتی فلموں میں قدم جما گئے۔

’دیاوان‘ اس سال کی کامیاب ترین تخلیق رہی، جس کے گانے بھی ہٹ ہوئے۔ خاص کر آخری لمحات میں شامل ہونا گانا ’دل تیرا کس نے توڑا‘تو فلم کا خاصہ رہا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ فیروز خان نے اس فلم کے بعد پھر مادھوری ڈکشٹ اور نہ ہی ونود کھنہ کے ساتھ کسی اور فلم میں کام کیا۔ ’دیاوان‘ میں ونود کھنہ کی ہیروئن بننے والی مادھوری ڈکشٹ اس فلم کے لگ بھگ نو برس بعد ان کے بیٹے اکشے کھنہ کے ساتھ ’محبت‘ میں ان کی ہیروئن بن کر جلوہ گر ہوئیں۔

بہرحال آج بھی ’دیاوان‘ کو کلاسک فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی فلم