فلم ’کشمیر فائلز‘ کا مقصد کیا ہے؟

کشمیری ویسے بھی وادی کے اندر فوجی محاصرے میں روز روز کی سختیاں اور بندشوں سے گزر رہے ہیں، شاید اب فلم کی ریلیز کے بعد کشمیر سے باہر جانے کی ہمت بھی نہیں کر پائیں گے۔

جن ریاستوں میں بی جے پی حکمران ہے وہاں اس فلم پر ٹیکس معاف کر دیا گیا ہے (زی سٹوڈیوز) 

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

 

بالی وڈ فلم ’کشمیر فائلز‘ اگر دوسری عام فلموں کی طرح ریلیز ہوتی، شائقین دیکھتے اور تبصرے کرتے تو شاید کشمیری مسلمان اس پر اتنے برہم نہ ہوئے ہوتے جتنا انہوں نے سوشل میڈیا پر اس کا برملا اظہار کیا ہے۔

فلمی ناقد راشد سلطان کے مطابق ’کشمیریوں کو علم ہے کہ اس فلم کو بنانا اور پھر ایسے وقت ریلیز کرنا ایک خاص منصوبے کے تحت ہو رہا ہے جب وادی کی جغرافیائی ہیت، تاریخ مسخ کرنے کے ساتھ ساتھ جذبہ آزادی کو ختم کرنا مقصود ہے۔ اس فلم کو دیکھنے کے بعد ہندوستان کی وہ کم قلیل آبادی بھی جنونی ہندو بن گئی ہے جو کل تک سیکیولرزم کا دم بھرتی تھی۔‘

اس کی ایک مثال ممبئی میں ملتی ہے جہاں انسانی حقوق کے کارکن اور لبرل ہندو راجیش روٹھیلا کہتے ہیں کہ ’اس فلم کو دیکھ کر میں نے دل میں ٹھان لی ہے کہ میں کبھی مسلمانوں کے حقوق کی بات نہیں کروں گا بلکہ کشمیریوں کے خلاف ہندوتوا کی پالیسی کا بھر پور ساتھ دوں گا۔‘

’کشمیر فائلز‘ میں سنہ 90 کی مسلح تحریک شروع ہونے کا احاطہ کیا گیا ہے جب آزادی کے پر ہجوم جلوسوں میں عوام کی جنونی کیفیت نظر آ رہی تھی، مسجدوں اور زیارت گاہوں کے میناروں سے آزادی کے ترانے اور پاکستان کے حق میں فلک شگاف نعرے بلند ہو رہے تھے جن سے ہر وہ طبقہ خوف و دہشت میں مبتلا ہو گیا جو بھارت نواز تھا جس میں مین سٹریم جماعتوں کے رہنماؤں سمیت پنڈت برادری شامل تھی۔

اسی دوران تقریباً دس ہزار مسلمان خاندان لائن آف کنٹرول کراس کر کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پہنچ گئے جو اب تک وہاں مہاجرین بن کر رہائش پذیر ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک سال کے دوران 89 پنڈت ہلاک کیے گئے جبکہ اس دوران 1435 ہندوستان نواز مسلمان بھی مارے گئے مگر فلم میں صرف پنڈتوں کی ہلاکت کا ذکر کیا گیا ہے۔

اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ 30 برسوں میں 399 کشمیری پنڈت ہلاک کیے گئے ہیں۔

پرتشدد حالات کے پیش نظر تقریباً ایک لاکھ 37 ہزار پنڈت کشمیر سے ہجرت کر کے جموں اور ہندوستان کی دوسری ریاستوں میں چلے گئے جہاں کچھ عرصہ گزرنے کے بعد حکومت نے ان کی رہائش، کھان پان، تعلیم اور روزگار کی سہولیات فراہم کیں، البتہ اپنے گھر اور اپنے وطن سے دوری کی تڑپ آج بھی ان کے دلوں میں زندہ ہے۔

حریت کے سرکردہ رہنما سید علی شاہ گیلانی سمیت آزادی پسند بیشتر رہنماؤں نے پنڈتوں سے کشمیر واپس آنے کی کئی بار درخواست کی مگر ان میں سے بیشتر واپس نہیں لوٹ سکے۔

بی جے پی کی حکومت نے ان کے لیے کشمیر کے ہر ضلعے میں پنڈت بستیاں قائم کرنے کا عہد کیا ہے اور ایک اندازے کے مطابق گذشتہ دو سال کے اندر پانچ ہزار سے زائد خاندان کشمیر لوٹ آئے ہیں۔

مسلمانوں نے اعتراض کیا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس وقت کے گورنر جگ موہن نے تحریک آزادی کو اسلامی رنگ دے کر پنڈتوں کو وادی سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا کیونکہ انہوں نے خود اُس وقت کہا تھا کہ ’جموں و کشمیر کو پاکستان نے تقریباً نگل لیا ہے اور مجھے اس کو پاکستان کے منہ سے واپس نکالنا ہے۔‘

فلم میں مسلم آبادی کو پنڈتوں کی ہجرت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ پر آشوب دور کے باوجود 50 ہزار سے زائد سکھ کشمیر میں سکونت پذیر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسرا اعتراض پنڈت خاتون گرجا تکو کے بارے میں اٹھایا گیا ہے جن کو فلم میں اجتماعی ریپ کے بعد گھناؤنے طریقے سے قتل کرتے دکھایا گیا ہے۔

بیشتر مسلمان اس کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بندوق برداروں نے گرجا کو قتل کر دیا تھا مگر ریپ کی خبر سراسر جھوٹی ہے اور اس کی تشہیر کا مقصد مسلمانوں کی شبیہ کو مسخ کرنا ہے۔

فلم میں سنہ 90 میں ہجرت کرنے والے پنڈتوں کی تعداد پانچ لاکھ بتائی گئی ہے جو سرکاری اعداد و شمار کے برعکس ہے۔

حریت کے ایک رہنما نے فلم پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ 30 برسوں میں تین سو پنڈت ہلاک کیے گئے جو بھارت کی سراغ رساں ایجنسی را کے ساتھ منسلک تھے۔ اسی دوران 90 ہزار سے زائد مسلمان ہلاک کر دیے گئے ہیں جن کا فلم میں کوئی ذکر نہیں ہے۔

کچھ عرصے سے دیکھا گیا تھا کہ پنڈت اور مسلمان ایک دوسرے کے قریب آنے میں کوشاں تھے مگر فلم کی ریلیز سے نہ صرف کشمیری مسلمانوں اور پنڈتوں میں اب مزید خلیج بڑھ گئی ہے بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اپوزیشن میں بھی ایک دوسرے کے خلاف لفظی جنگ شروع ہو چکی ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی نے فلم کو سراہتے ہوئے کشمیر کی سچائی کو ظاہر کرنے پر زور ڈالا ہے جبکہ کانگریس اور دوسری جماعتوں نے فلم کو ہندوتوا کی تشہیری مہم قرار دیا ہے جو ہندوستان میں مذہبی جنونییت پیدا کرکے اقلیتوں کے خلاف ماحول تیار کر رہی ہے جس کا فائدہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں حاصل کیا جانا مقصود ہے۔

اس دوران پنڈت فلم ساز سنجے کاک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوے کہا کہ ’کشمیر ی پنڈت ہی کیوں، کشمیری مسلمان کیوں نہیں، جن پر فلم بنانی چاہیے تھی؟ گجرات اور دہلی میں بھی فسادات اور قتل و غارت گری ہوئی ہے اس پر فلمیں کیوں نہیں بنائی گئی اگر ہمیں سچائی کو ظاہر کرنا ہے؟‘

واضح رہے کہ فلم ساز وویک اگنی ہوتری نے امریکہ اور یورپی ملکوں میں رہائش پذیر بیشتر کشمیری پنڈتوں سے اس فلم کے لیے رقوم جمع کیں جنہوں نے اس فلم سے پہلے ’تاشقند فائلز‘ کے نام سے ایک اور متنازع فلم بنائی ہے جس کے خلاف سابق وزیراعظم لال بہادر شاستری کے پوتے نے عدالت میں کیس دائر کیا ہے۔

جہاں اس فلم کو کامیاب اور باکس آفس بنانے میں ’گودی میڈیا‘ اور سوشل میڈیا متحد طور پر کام کر رہا ہے وہیں مختلف ریاستوں میں حکمراں جماعت بی جے پی نے ملازمین اور اپنے کارکنوں کو فلم دیکھنے کے لیے کئی مراعات کا اعلان بھی کیا ہے۔

بعض سینیما گھروں میں ہجوم کو کشمیری مسلمانوں کے خلاف غیر شائستہ زبان اور نعرے بازی بھی دیکھنے کو ملی ہے۔

کشمیری ویسے بھی وادی کے اندر فوجی محاصرے میں روز روز کی سختیاں اور بندشوں سے گزر رہے ہیں شاید اب فلم کی ریلیز کے بعد کشمیر سے باہر جانے کی ہمت بھی نہیں کر پائیں گے۔

پھر اس کا حاصل یہی ہے کہ کشمیری برادریوں میں خلیج کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ