جب ایک ریویو دلیپ کمار اور نور جہاں کی ’جگنو‘ پر پابندی کی وجہ بنا

مشہور انگریزی فلمی جریدے  ’فلم انڈیا‘ کے ایڈیٹر بابو راؤ پاٹیل نے 1948 میں ریلیز ہونے والی نور جہاں اور دلیپ کمار کی فلم  ’جگنو‘ کے حوالے سے اتنا سخت تنقیدی تبصرہ لکھا کہ اس پر کئی ماہ تک پابندی لگ گئی۔

بابو راؤ پاٹیل نے اس تجزیے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کہ ’جگنو‘ تعلیمی اداروں کی بدنامی کا باعث بن سکتی ہے اور یہ ایک نئے ملک بھارت کے لیے کسی صورت درست نہیں ہوگا (شوکت آرٹ پروڈکشنز)

بھارت کے مشہور انگریزی فلمی جریدے  ’فلم انڈیا‘ کا وہ ایک تبصرہ تھا، جس نے فلمی صنعت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

یہ ریویو جریدے کے ایڈیٹر بابو راؤ پاٹیل کا لکھا ہوا تھا، جن کے تجزیے اور تبصرے کو فلمی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ  اپنے قلم کی طاقت سے کسی بھی اداکار کا کیرئیر بنانے اور بگاڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

بابو راؤ پاٹیل نے اس فلم کی کڑی تنقید کی تھی، جس میں اس دور کی شہرہ آفاق گلوکارہ اور اداکارہ نور جہاں پہلی بار شہنشاہ جذبات دلیپ کمار کے ساتھ کام کررہی تھیں۔ ہدایت کار اور فلم ساز شوکت حسین رضوی کی یہ تخلیق غیر منقسم ہندوستان میں نور جہاں کی آخری فلم تھی، جس کا نام‘ جگنو‘ تھا۔

فلم کے مختلف اخباری اشتہارات میں اسے ’نوجوانوں کے نغمے‘ سے تشبیہ دی گئی۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس میں کالج کے نوجوانوں کی داستان پیش کی جارہی تھی، جس میں جہاں میں رومانس کا سہارہ لیا گیا، وہیں معاشرے کے فرسودہ رسم و رواج کو بھی موضوع بنایا گیا۔ فلم میں صرف جگنو یعنی نور جہاں کا کردار اور سورج (دلیپ کمار) کی رومانی کہانی نہیں تھی بلکہ دیگر کردار بھی پیار و عشق کے بہاؤ میں بہتے ہوئے نظر آئے۔ درحقیقت اسے ایک ایسی فلم کہا جاسکتی ہے جو روشن خیالی کی عکاس تھی۔

اب یہی بات بابو راؤ پاٹیل کو ناگوار گزری۔ پاکستان کا قیام ہوچکا تھا جبکہ فلم اس سے چند ماہ پہلے ہی سینیما گھروں میں لگی تھی۔ شمالی ہند میں  کاروبار تو اچھا کر رہی تھی لیکن جب یکم اکتوبر 1948کو بمبئی میں فلم لگی تو بھونچال مچ گیا۔

اس زمانے میں بمبئی ایک ریاست کی حیثیت رکھتا تھا۔ ایسے مرحلے پر بابو راؤ پاٹیل نے اپنے جریدے ’فلم انڈیا‘ پر تجزیہ کرتے ہوئے اس کی سرخی لگائی: ’جگنو۔۔۔ گندی، بے ہودہ اور قابل نفرت فلم‘۔ انہوں نے اس ریویو میں اس کی وجہ یہ بیان کی نوزائیدہ ملک بھارت میں ’جگنو‘ کی نمائش سے نوجوانوں کے اخلاق پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ وہ لاپروا اور رومان پرور ہوں گے جبکہ تعلیمی اداروں میں پڑھائی کے بجائے نوجوانوں کی توجہ عشق و محبت پر زیادہ ہوگی۔

بابو راؤ پاٹیل کے مطابق ’جگنو‘ اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ بھارت میں کالج کی زندگی جنسی خواہشات کو پورا کر رہی ہیں، جس میں لڑکے، لڑکیوں کے تعاقب میں ہیں، فحش اشارے کرتے ہیں، محبت بھرے گیت گاتے ہیں اور لڑکیاں، لڑکوں پر دل ہارنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کے بقول ’جگنو‘ معاشرے کی اخلاقیات میں دارڑیں ڈال سکتی ہے۔

بابو راؤ پاٹیل نے اس تجزیے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کہ ’جگنو‘ تعلیمی اداروں کی بدنامی کا باعث بن سکتی ہے اور یہ ایک نئے ملک بھارت کے لیے کسی صورت درست نہیں ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بابو راؤ پاٹیل کے فلمی جریدے کا دعویٰ تھا کہ انہیں ’جگنو‘ کو لے کر قدامت پسند قارئین کی جانب سے تحفظات بھرے خطوط ملے ہیں، جس میں کچھ حیران تھے کہ آخر اس فلم کو کیسے سینسر نہیں کردیا گیا، جس میں بے حیائی اور رومان کا درس دیا جارہا ہے اور جس میں کالج کی زندگی کے بارے میں غلط تاثر پیش کیا جارہا ہے۔

یہاں تک کہا گیا کہ لوگوں کو شمشاد بیگم کی آواز میں فلم کے گیت ’لوٹ جوانی پھر نہیں آنی‘ کے الفاظ اور اس اداکارہ پر بھی اعتراض تھا، جس پر مختصر لباس میں یہ گانا عکس بند ہوا تھا۔

کئی کا خیال تھا کہ ’جگنو‘ دیکھ کر ان کے والدین پر کیا اثر پڑے گا کہ ان کی اولاد کیا واقعی درس گاہوں میں تعلیم حاصل کر بھی رہی ہے کہ نہیں؟ تجزیے کے مطابق اس طرح کی فلم نوجوانوں کے اندر منفی شعور کو اجاگر کرے گی۔

اس تجزیے کے چند ہفتے بعد ہی ’جگنو‘ کو بمبئی کے سینیما گھروں سے اتار دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بابو راؤ پاٹیل، بمبئی میں نور جہاں کے پڑوسی تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے جیسے ’جگنو‘ کے خلاف مورچہ بنالیا۔

بابو راؤ پاٹیل نے اب ایک نیا قدم اٹھایا۔ انہوں نے اپنے تجزیے کی ایک کاپی بمبئی کے اس وقت کے وزیر داخلہ مرار جی ڈیسائی کو بھیجی اور کہا کہ وہ ’جگنو‘  پر بندش لگائیں۔ وزیر داخلہ نے 26 اکتوبر 1948 کو ’جگنو‘ کی نمائش پر جنرل کلازیز ایکٹ 1897 کی شق 21 کے تحت پابندی لگادی۔

مسئلہ یہ تھا کہ ہدایت کار اور پروڈیوسر شوکت حسین رضوی تو بھارت میں تھے ہی نہیں اسی لیے تقسیم کاروں نے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا، جن کا کہنا تھا کہ فلم سنسر بورڈ سے گزر چکی ہے پھر یہ بندش بلاجواز ہے لیکن ان کی ایک بھی نہ سنی گئی۔ قیاس تو یہ بھی کیا جاتا ہے کہ بابو راؤ پاٹیل کا ’جگنو‘ کے خلاف یہ معرکہ آرائی دراصل اس بات کا غصہ بھی تھا کہ نور جہاں اور شوکت حسین رضوی نے تقیسم ہند کے بعد پاکستان میں کیوں سکونت اختیار کی۔

بمبئی کی طرح اب دیگر ریاستوں میں بھی ’جگنو‘ کی نمائش پر پابندی لگنا شروع ہوگئی۔ بھارتی تقسیم کاروں نے ایک بار پھر سینسر بورڈ سے رجوع کیا، جس نے کئی مناظر کو قطع و برید کا نشانہ بنایا اور کم و بیش 28منٹ کم کرکے ایک بار پھر اسے سینسر بورڈ سے سرٹی فکٹ مل گیا۔

کچھ ماہ بعد فلم سینیما گھروں میں واپس پیش کی گئی۔ اس نے ریکارڈ کامیابی حاصل کی اور کاروبار کے اعتبار سے سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ فلم کے گانے مقبول ہوئے اور ایسے میں بمبئی سے کوسوں دور پشاور میں موجود لالہ غلام سرور کو کسی نے بتایا کہ ان کا بیٹا یوسف خان اب سپر سٹار بن چکا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی فلم