اسلحہ مارکیٹ قانونی دائرے میں لانے پر صنعتکاروں کو تحفظات

درہ آدم خیل کے ایک ہزار سے زیادہ چھوٹے اسلحہ خانوں کے مالکان نے اسلحہ مارکیٹ کو قانونی دائرہ کار میں لانے کی مجوزہ حکومتی پالیسی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ایک اسلحہ ساز 3 جون 2020 کو ایک بندوق کا کرونا کی وبا کے بعد اسلحہ مارکیٹ کھلنے پر ورکشاپ میں معائنہ کر رہا ہے۔ درہ آدم خیل کی یہ اسلحہ مارکیٹ پشاور سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے (تصویر: اے ایف پی فائل)

صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے مشہور زمانہ ’درہ اسلحہ مارکیٹ‘ کو قانونی حیثیت دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام علاقے کو صنعتی زون قرار دیا ہے اور اس معاملے میں کاغذی کارروائی مکمل کرکے سفارشات صوبائی کابینہ کے سامنے پیش کرکے ایک پالیسی تیار کی جائے گی۔

دوسری جانب ایک ہزار سے زیادہ چھوٹے اسلحہ خانوں کے صنعتکاروں نے اس معاملے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ حکومتی فیصلے کی پیشگی اطلاع پاکر انہوں نے اپنی تجاویز حکومت کو بروقت پہنچا دی تھیں اور اگر ان تجاویز پر عملدرآمد نہ ہوسکا تو انہیں بجائے ریلیف ملنے کے نقصان ہوگا۔

انڈپینڈنٹ اردو کو ملنے والی تفصیلات کے مطابق منصوبے پر عمل درآمد کے لیے قائم اعلی سطح کی کمیٹی نے ابتدائی سروے مکمل کرکے دستاویزات پر کام شروع کردیا ہے جبکہ رواں ہفتے صوبائی محکمہ داخلہ کے حکام اور ضلعی انتظامیہ نے درہ آدم خیل کا ایک تازہ دورہ کیا تھا اور وہاں کے صنعت کاروں سے ملاقات بھی کی تھی۔

اس فیصلے کی بنیادی وجہ پہلے سے قائم شدہ ایک مارکیٹ کو حکومتی سرپرستی میں لے کر اس میں مزید نکھار و بہتری لانا اور اس سے آمدن حاصل کرنا ہے۔

درہ کی اسلحہ مارکیٹ کو قانون کے دائرہ کار میں لانے کے حوالے سے عرصہ دراز سے وفاقی حکومت اور انضمام کے بعد صوبائی حکومت غور کرتی رہی ہیں کیوں کہ جہاں ایک جانب حالات کی وجہ سے یہ صنعت متاثر ہوئی ہے اور اس پر حکومتوں کی جانب سے جزوی پابندیاں لگتی رہی ہیں وہیں اس چھوٹے سے قصبے نے اپنی مدد آپ کے تحت خود کو عالمی معیار کے ہتھیار بنانے کا اہل بھی ثابت کیا ہے۔

صنعت کاروں کے تحفظات

اگرچہ تاحال حکومت کی کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی ہے لیکن حکومت کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ گذشتہ تجویز جس کے تحت موجودہ مارکیٹ کو درہ سے باہر انڈسٹری بنا کر منتقل کرنے کی بات کی گئی تھی اب اس کے برعکس تمام درہ آدم خیل علاقے کو ایک صنعتی زون کی حیثیت حاصل ہوگی۔

صنعتکاروں کے مطابق جب انہیں علاقے سے باہر انڈسٹری بنا کر دینے کا علم ہوا تو وہ کافی مایوس ہوئے اور انہوں نے اس سلسلے میں گورنر اور دیگر ارباب اختیار سے کئی ملاقاتیں کرکے اپنی تجاویز دیں۔

درہ آدم خیل کے رہائشی اور اسلحہ کی صنعت سے وابستہ طارق آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ ’اسلحہ مارکیٹ سے وابستہ تمام مزدور اور مالکان پریشان ہیں اور کسی قسم کا سرکاری اعلامیہ ابھی تک جاری نہ ہونے کی وجہ سے وہ اب بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ حکومتی پالیسی کیا ہوگی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’دہشتگردی کے دور میں درہ کے اسلحہ خانوں کو شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ باقی کی کسر وبا نے پوری کر دی ہے۔‘

’سب ذہنی بیمار ہوچکے ہیں۔ ہمیں تنگ نہ کیا جائے۔ آج تک درہ آدم خیل میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا شدید مسئلہ رہا ہے۔ اگر حکومت ریلیف دینا چاہتی ہے تو بجلی دے، سکیورٹی دے اور ہمیں اپنی جگہ سے بے دخل نہ کرے ہماری ترتیب خراب نہ کرے۔ کیوں کہ یہاں ہم نہ صرف کام کرتے ہیں بلکہ گھر بار کو بھی دیکھتے ہیں۔ یہاں ہمارے ساتھ گھروں میں خواتین کی بہت بڑا لیبر فورس ہے۔‘

ایک اور صنعتکار سلطان آفریدی نے کہا کہ ’حکومت لائسنس دینے کا بھی ارادہ رکھ رہی ہے جس کی سالانہ فیس ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ درہ اسلحہ مارکیٹ کی خوبی یہ ہے کہ وہاں ہر شخص کی اپنی ایک مہارت ہے اور ایک گن تیار ہوتے وقت مختلف ہاتھوں سے گزر کر شوروم میں پہنچتی ہے۔‘

’کچھ ہنرمند دیہاڑی پر روزانہ صرف 800 روپے کماتے ہیں۔ آپ ان کو بھی لائسنس اور اس کی فیس ادائیگی میں شامل کریں گے تو ایسے افراد کے پاس یہ ہنر چھوڑنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوگا، جو سب کو نقصان دے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان تحفظات پر انڈپینڈنٹ اردو نے محکمہ داخلہ اور ضلعی انتظامیہ سے بات کرنے کی کوشش کی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

درہ آدم خیل کے صنعت کاروں اور کاریگروں کے ہنر کو زندہ رکھنے اور اس صنعت کو عالمی سطح پر فروغ دینے کے لیے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر بریگیڈیئر ایازخان کی کافی کوششیں ہیں جنہوں نے اس ضمن میں حکومتی اداروں اور فوجی سربراہان سے متعدد ملاقاتیں کرتے ہوئے انہیں تجاویز دیں کہ بجائے پابندیاں عائد کرنے کے اس صنعت کو مالی وقانونی سرپرستی میں لیا جائے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگرچہ ان کے دلائل سے ارباب اقتدار اکثر قائل نظر آتے تھے لیکن قبائلی علاقوں کے بعض مسائل عملدرآمد میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔‘

’میں نے تجاویز دیں کہ تمام  تیار ہونے والا اسلحہ، مینو فیکچرنگ گن یونٹس اور گنز کے پرزوں کو رجسٹر کیا جائے۔ داخلی وخارجی راستوں پر حکومتی نگرانی ہو۔ جو بھی اسلحہ تیار ہو اس کے معمولی چارجز وصول کیے جائیں۔ ایکسپورٹ کو یقینی بنانے کے لیےکوالٹی کنٹرول پر توجہ دی جائے۔ اسلحے میں استعمال ہونے والی سٹیل اور میٹلرجی کو ٹیسٹ کرنے کے لیے ایک لیبارٹری دی جائے۔ ہنرمند افراد کو سکھانے اور انہیں فروغ دینے کے لیے ایک انسٹی ٹیوٹ قائم کیا جائے۔‘

تاریخی پس منظر

درہ آدم خیل پشاور اور کوہاٹ کے درمیان واقع ایک  پہاڑی علاقہ ہے جس میں آفریدی قوم کا آدم خیل قبیلہ آباد ہے۔ اس علاقے کا محل وقوع کچھ اس طرح ہے کہ اس میں متعدد پیدل راستے مختلف پشتون قبائلی علاقوں کی طرف نکلتے ہیں۔

19 ویں صدی تک دنیا جدید ہتھیار سے متعارف ہوچکی تھی اور آتشیں اسلحے کی مختلف اقسام ’سول وار‘، ’کرائمین وار‘ اور ’فرانکو جرمن وار‘ میں استعمال ہوچکی تھیں۔ فرنگی جب اپنے ساتھ یہ اسلحہ برصغیر پاک وہند لائے تو یہاں کے مقامی باشندے اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

مقامی طور پر انگریزی ہتھیار کی قوت خرید نہ ہونے کی وجہ سے 1890 کے قریب، پشتونوں نے دیسی ساخت کا اپنا اسلحہ بنانا شروع کیا۔

اس مقصد کی خاطر سیالکوٹ کے کوٹلی لوہاراں سے کاریگر لائے گئے جنہیں درہ کے مقام پر اسلحے کی مرمت اور انگریزی رائفلز، پستول اور ریوالورز وغیرہ کی نقل بنانے کے کام پر لگا دیا گیا۔

رفتہ رفتہ درہ میں انگریزی اسلحے کی ہوبہو نقل تیار ہونے لگی، تاہم دیسی ساخت کے خام لوہے سے بنا یہ اسلحہ معیار کے لحاظ سے زیادہ پائیدار نہیں تھا۔

پاکستان بننے تک درہ کی مارکیٹ کافی مہارت حاصل کرچکی تھی اور یہاں سے تمام پشتون علاقوں کو سہولت کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے سستا اسلحہ جاتا تھا۔

بعدازاں بیرونی ممالک سے سمگل شدہ جدید انگریزی ہتھیار افغانستان اور گوادر بندرگاہ کے ذریعے یہاں پہنچنے لگا جس کو خریدنے کے لیے پاکستان بھر سے شوقین حضرات اس علاقے کا رخ کرنے لگے۔

درہ آدم خیل مارکیٹ پرنہ صرف انگریز دور میں بلکہ پاکستان بننے کے بعد بھی وقتاً فوقتاً پابندیاں لگتی رہی ہیں جن کے تحت ان کارخانوں کو بڑی ساخت کا اسلحہ جیسے کہ ٹینک، راکٹ لانچر، مارٹر گولے، ہیوی مشین گن کے خرید وفروخت اور بناوٹ سے منع کیا گیا تھا۔

 1980میں  افغانستان پر روس کے حملے کے وقت درہ مارکیٹ کو فروغ ملا، افغانستان سے مال غنیمت میں ملنے والا اسلحہ یہں آنا شروع ہوا، ساتھ ہی کلاشنکوف کلچر متعارف ہوا۔

پاکستان میں بدامنی پھیلنے لگی اور پھر دہشت گردی کا دور آیا۔ بدامنی کے دور میں درہ آدم خیل کے اسلحہ خانوں پر پابندیاں لگائی گئیں جس سے اس صنعت کو اچھا خاصا نقصان پہنچا۔

اسی دور میں یہ بحث مباحثے بھی ہوئے کہ بجائے اس صنعت کو ختم کرنے کے اس کو فروغ دیا جائے اور ان صنعت کاروں کے ساتھ تعاون کیا جائے۔

اگرچہ یہ بحث مباحثے درہ کے لیے کوئی قانونی درجہ حاصل نہ کرسکے لیکن ان صنعت کاروں نے خود کو دوبارہ کھڑا کرکے ایک مقام پر پہنچایا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان کی مارکیٹ میں دستیاب تمام سپورٹس گنز، ذاتی تحفظ کا اسلحہ صرف درہ مارکیٹ کا تیارکردہ ہے۔

یہی نہیں بلکہ درہ کے اسلحہ خانوں میں بہترین معیار کے کارتوس تیار ہوتے ہیں جو بیلسٹک کے لحاظ سے باہر کے کارتوسوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔

یہاں دنیا بھر کی تمام مشہور رائفلز، شاٹ گنز اور پستول کی نقلیں بھی تیار ہوتی ہیں، جن پر اصل کاگمان ہوتا ہے۔

جیسے کہ مشہور شاٹ گنز بریٹا، پرڈی، وینچسٹر، ہالینڈ اینڈ ہالینڈ، ماؤزر وغیرہ اورپستول میں گلاک، سمتھ اینڈ ویسن، سٹائر اور براؤننگ کی بہترین کوالٹی کی ایک نمبر کاپیاں یہاں تیار ہوتی ہیں۔

یہ قصبہ اسلحے کی خرید و فروخت اور مرمت کا ایک بڑا مرکز بن گیا ہے جہاں موجودہ وقت میں تقریباً ایک ہزار سے زائد چھوٹی صنعتیں ہیں جن میں تقریبا 10 ہزار مزدور و ماہرین کام کرتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان