اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سلامتی کونسل كے مستقل اراكین كو ویٹو کا حق استعمال كرنے پر اس كا جواز پیش كرنے كا پابند بنا دیا ہے جو ماہرین كے خیال میں محض ایک اخلاقی دباؤ تک ہی محدود ہو سكتا ہے۔
جنرل اسمبلی نے منگل كو ایک قرارداد كے ذریعے فیصلہ كیا كہ سلامتی كونسل میں مستقل اراكین كی طرف سے ویٹو کا حق استعمال کرنے کی صورت میں 10 روز كے اندر اسمبلی كا خود بخود اجلاس ہوگا جس میں ویٹو كرنے والے ركن كو بولنے كا موقع فراہم كیا جائے گا۔
لیختنسٹین نامی ملک كی طرف سے پیش كی جانے والی قرارداد كی تجویز گذشتہ دو سال سے زیر بحث تھی لیکن مبصرین اس كو روس یوكرین جنگ كے سلسلے میں لیختنسٹین كی ویٹو كو ممکنہ طور پر مفلوج كرنے كی كوشش قرار دیتے ہیں۔
قرارداد 193 رکنی جنرل اسمبلی میں اتفاق رائے سے منظور ہوئی جو سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کے ویٹو پاور کو ختم یا محدود نہیں کرتی۔
تاہم یہ پہلی بار ہو گا كہ اقوام متحدہ كی جنرل اسمبلی سلامتی كونسل میں كسی قرارداد یا فیصلے پر ویٹو پاور كے استعمال پر بحث كرسكے گی۔
فیصلہ كتنا كارگر ہو گا؟
بین الاقوامی امور پر نظر ركھنے والے ماہرین كے خیال میں ویٹو پاور کے استعمال پر جنرل اسمبلی میں بحث سے خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا بلكہ یہ محض ایک رسمی كارروائی بن كر رہ جائے گی۔
معلم اور تجزیہ كار پروفیسر رفعت حسین كا كہنا تھا كہ جنرل اسمبلی میں ہونے والی بحث یا فیصلوں كا سلامتی كونسل كے مستقل اراكین پابند نہیں ہوں گے نہ ان پر پابندی كے سلسلے میں دباؤ ڈالا جا سكے گا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے كہا: ’اس فیصلے كی محض اخلاقی اہمیت ہو سكتی ہے كہ ویٹو پاور استعمال كرنے والے سلامتی كونسل كے مستقل ركن كو جواز پیش كرنا ہو گا۔‘
انہوں نے مزید كہا كہ سوپر پاورز اپنے افعال كا ہمیشہ سے جواز پیش كرتی رہی ہیں اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا۔
روس اور یوكرین جنگ كی مثال دیتے ہوئے پروفیسر رفعت حسین نے كہا كہ روس جنرل اسمبلی میں آكر یوكرین سے اس كو خطرات كا ذكر كر كے حملے كا جواز پیش كر سكتا ہے۔
’اور جنرل اسمبلی روس یا كسی بھی دوسرے سلامتی كونسل كے مستقل ركن كے خلاف كوئی اقدام نہیں اٹھا سكتی كیوں كہ اس كے لیے جنرل اسمبلی كے تمام اراكین كا متفق ہونا لازمی ہے، جو ایک مشكل كام ہوگا۔‘
اسلام آباد سٹریٹیجیک سٹڈی انسٹی ٹیوٹ نامی تھنک ٹینک سے وابستہ محقق احمد علی بیگ جنرل اسمبلی سے مذكورہ قرارداد كی منظوری كو ’انوكھی لیكن پیچیدہ پیشرفت‘ قرار دیتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان كا كہنا تھا: ’سپر پاورز كو اس طرح دنیا كے دوسرے ملكوں كے سامنے جواب دہ بنانا اتنا آسان نہیں ہو گا، بڑی طاقتیں اس كو برداشت نہیں كر سكیں گی۔‘
احمد علی بیگ كے خیال میں جنرل اسمبلی میں متفقہ قرارداد كی منظوری كے باوجود اس فیصلے كی افادیت پر انگلیاں اٹھتی رہیں گی اور آخر كار بڑی طاقتیں شاید اس كو ختم كروانے میں بھی كامیاب ہو جائیں۔
ان كا كہنا تھا كہ اس عمل كی كامیابی كی صورت میں بات بڑی طاقتوں كو كسی فیصلے یا قرارداد سے لاتعلق رہنے پر پوچھ گچھ كی حد تک بھی جا سكتی ہے جو سلامتی كونسل كے مستقل اراكین كبھی برداشت نہیں كریں گے۔
پاكستان كے لیے افادیت
محمد علی بیگ كا كہنا تھا كہ پاكستان سلامتی كونسل میں بھارت كی جانب سے پیش کی جانے والی قراردادوں سے چین كی ویٹو پاور كی وجہ سے بچتا رہا ہے۔
’اب اس تازہ صورت حال میں پاكستان كو مشكلات پیش آسكتی ہیں كیوں كہ عین ممكن ہے كہ چین جنرل اسمبلی میں جواز پیش كرنے كی وجہ سے پاكستان مخالف قراردادوں كو ویٹو نہ كرے۔‘
تاہم پروفیسر رفعت حسین كے خیال میں كشمیر پر سلامتی كونسل قراردادیں منظور كر چكی ہے ان كی موجودگی میں جنرل اسمبلی میں اس ایشو پر مزید بحث كی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
انہوں نے مزید كہا كہ افغانستان پر سابق سوویت یونین كے حملے كے بعد پاكستان ہر سال جنرل اسمبلی میں اس متعلق قرارداد پیش كرتا تھا، لیكن ان كا نتیجہ كبھی نہیں نكلا۔
پروفیسر رفعت حسین كے خیال میں جنرل اسمبلی كی قرارداد كی روشنی میں پاكستان كو كشمیر كے حوالے سے اقوام متحدہ میں كچھ زیادہ مشكل پیش نہیں آ سكتی ہے۔
فیصلے مخالفت اور حمایت
اقوام متحدہ كی جنرل اسمبلی كے ویٹو پاور استعمال كرنے والے سكیورٹی كونسل كے مستقل اراكین كو اس كی وجوہات بتانے كا پابند بنانے سے متعلق فیصلے كی دنیا بھر سے مخالفت اور حمایت كا سامنا كیا ہے۔
امریكہ، جو ہمیشہ سے روس كی جانب سے ویٹو پاور كے استعمال كو ناپسندیدگی كی نظر سے دیكھتا رہا ہے، نے جنرل اسمبلی كے فیصلے كی تعریف كی۔
امریكی نائب سفیر رچرڈ ملز نے نے کہا کہ امریکہ پچھلی دہائی کے دوران روس کے اپنے ویٹو کے حق کو غلط استعمال کرنے کے انداز سے غیر معمولی طور پر پریشان رہا۔
برطانیہ نے بھی جنرل اسمبلی كی حالیہ قرارداد كو بین الاقوامی امن اور سلامتی كو برقرار ركھنے كی طرف ایک قدم قرار دیا ہے۔
دوسری طرف روس، فرانس اور بھارت نے ویٹو پاور كا استعمال كرنے والے سكیورٹی كونسل كے مستقل اراكین كو وجوہات پیش كرنے كا پابند بنانے پر تنقید كی ہے۔
فرانس کی نائب سفیر نیتھلی براڈہرسٹ نے کہا: ’مجھے یقین نہیں آرہا کہ جنرل اسمبلی سلامتی کونسل کی جج بن سکتی ہے۔‘
روس کے نائب سفیر گیناڈی کوزمین نے ویٹو پاور كے اختیار کو اقوام متحدہ کا سنگ بنیاد قرار دیتے ہوئے كہا كہ اس کے بغیر سلامتی کونسل ربڑ سٹیمپنگ بن كر رہ جائے گی۔
چین نے بھی اپنے تحفظات كا اظہار كرتے ہوئے كہا كہ ویٹو کی گئی قرارداد پر جنرل اسمبلی کے اجلاس سے عملی طور پر طریقہ کار میں الجھن اور عدم مطابقت پیدا ہونے کا امکان رہے گا۔
بھارت کے نائب سفیر رویندرا راگٹہلی نے کہا کہ سلامتی کونسل میں جمود کی حمایت کرنے والوں کی ایک اقلیت نے اصلاحات کی کوششوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
برازیل کے سفیر رونالڈو کوسٹا فلہو نے جنرل اسمبلی میں كہا كہ ایک نمائندہ کونسل جو موجودہ بین الاقوامی نظام کی عکاسی کرتی ہے، بین الاقوامی امن اور سلامتی کی بحالی اور اس تنظیم کے مستقبل کے لیے مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔
افریقی ملک گبون نے گلہ كیا کہ افریقی ممالک كی اقوام متحدہ كے امن مشنز میں سب سے زیادہ تعداد ہے لیکن سلامتی کونسل میں اس کی کوئی مستقل نشست نہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سکریٹری جنرل اگنیس کالمارڈ نے كہا كہ اس قرارداد سے ویٹو پاور استعمال كرنے والے ممالک پر ذمہ داری بڑھ جائے گی۔
ویٹو پاور كیا ہے؟
اقوام متحدہ کے چارٹر کے تخلیق کاروں كے خیال میں بین الاقوامی تنظیم كے پانچ تخلیق كار ممالک اس كے قیام میں كلیدی كردار ادا كرنے كے باعث مستقبل میں بھی دنیا میں امن اور سلامتی کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرتے رہے گے۔
اسی وجہ سے پانچ ممالک كو اقوام متحدہ كی سلامتی کونسل میں مستقل رکن ممالک کی خصوصی حیثیت اور ووٹنگ کی ایک خصوصی طاقت جسے ’ویٹو کا حق‘ کہا جاتا ہے دی گئیں۔
اقوام متحدہ كی 15 ركنی سلامتی كونسل میں چین، فرانس، برطانیہ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ (یو ایس اے) اور روس كو مستقل اراكین كی حیثیت حاصل ہے۔
ابتدا میں سابق سوویت یونین یا یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک (یو ایس ایس آر) مستقل ركن تھا، تاہم 90 كی دہائی كے شروع میں اس كے ٹوٹنے كے بعد روس یا رشین فیڈریشن نے اس كی جگہ سنبھال لی۔
اقوام متحدہ چارٹر كے مسودہ سازوں كے درمیان اتفاق طے پایا كہ 15 رکنی سلامتی کونسل كے پانچ مستقل ارکان میں سے کسی ایک نے بھی منفی ووٹ دیا تو قرارداد یا فیصلہ منظور نہیں کیا جائے گا۔
سلامتی كونسل كا ایک یا ایک سے زیادہ مستقل رکن یا اراكین كسی مجوزہ قرارداد یا فیصلے سے پوری طرح متفق نہ ہونے كی صورت میں اسے ویٹو كیے بغیر لاتعلق (abstain) رہنے كا انتخاب كر سكتا ہے۔
مستقل ركن یا اراكین كے لاتعلق رہنے كے باوجود كوئی قرارداد یا فیصلہ مطلوبہ نو ووٹ ملنے كی صورت میں منظور ہو سكتا ہے۔
اقوام متحدہ كی سلامتی كونسل كے پانچوں مستقل ارکان نے کسی نہ کسی وقت ویٹو کا حق استعمال کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ریكارڈ كے مطابق 1945 میں بین الاقوامی تنظیم كی پیدائش كے وقت سے سلامتی كونسل میں آنے والی 200 سے زیادہ تجاویز پر ویٹو كا حق استعمال کیا گیا ہے۔
بعض قراردادوں یا تجاویز كو تو سلامتی كونسل كے ایک سے زیادہ مستقل اراكین نے ویٹو كیا۔
ویٹو ہونے والی قراردادوں یا تجاویز میں کوریا کی جنگ، شام، عراق، كشمیر اور اسرائیل-فلسطین تنازعے سے لے کر موسمیاتی تبدیلی، ہتھیاروں کے ذخیرے کی رپورٹنگ اور بحر ہند کے ملک کوموروس کے ایک حصے کی حکمرانی كے موضوعات سر فہرست رہے۔
سابق سوویت یونین اور اس کے بعد آنے والے روس نے اب تک سب سے زیادہ ویٹو پاور كا استعمال کیا ہے جبكہ امریکہ اس سلسلے میں دوسرے نمبر پر ہے۔ برطانیہ، چین اور فرانس سلامتی كونسل كے ان مستقل اراكین میں شامل ہیں جنہوں نے بہت کم ویٹو پاور كے ووٹ کاسٹ کیے ہیں۔