جماعتِ اسلامی کا ’ملین مارچ‘ جس کے بعد بےنظیر حکومت گر گئی

پاکستان میں لانگ مارچ اور دھرنوں کی تاریخ پرانی ہے لیکن پہلا اہم اور موثر مارچ 1996 میں جماعتِ اسلامی نے کیا جس نے اسلام آباد کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ اس دوران کیا ہوا ؟

قاضی حسین احمد 1996 میں راولپنڈی میں ایک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے (اے ایف پی فائل)

ویسے تو کئی سیاسی جماعتوں نے لانگ مارچ کیے لیکن جماعت اسلامی کو اسلام آباد میں مارچ کرنے کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، جس کے چند ہفتوں کے اندر اندر اس وقت کی حکومت کا تختہ الٹ گیا۔

جماعت اسلامی کے پرجوش کارکنوں اور پولیس کے درمیان تصادم میں ایک دوسرے کی پٹائی اور مظاہروں کو عینی شاہدین آج بھی بھول نہیں پائے۔

جماعت اسلامی نے پہلا مارچ ستمبر 1996 میں قاضی حسین احمد ک قیادت میں ’ملین مارچ‘ کی صورت میں کیا، جس کا مقصد اس وقت کی وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ تھا۔

اسلام آباد پولیس نے مارچ کے شرکا کو تین دن تک آبپارہ کے قریب روکے رکھا۔ یہ وہ پہلا موقع تھا جب اسلام آباد کے مکینوں کا آمنا سامنا پہلی بار آنسو گیس سے ہوا اور اس دھرنے کے دوران آبپارہ مارکیٹ کے قریب گھروں میں شیل گرتے رہے۔

جماعت اسلامی کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا اور دھرنے کے تیسرے دن مظاہرین کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے موجودہ ڈی چوک تک جانے کی اجازت دی گئی۔

جماعت اسلامی کے کارکنان پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچے اور وہیں مغرب کی نماز ادا کی۔ مظاہرین کے سلام پھیرنے کے ساتھ ہی ہوا میں آنسو گیس کے شیل چلنے لگے۔

ملین مارچ کے قافلے میں شامل عینی شاہد اور جماعت اسلامی کے رہنما خالد مرزا نے بتایا کہ قاضی حسین احمد کو گرفتار کر لیا گیا اور پھر جماعت نے ان کی جگہ منور حسن کو قائم مقام امیر مقرر کر دیا تھا۔

اس دھرنے کے ایک ماہ بعد اسی دھرنے کو عوامی ردعمل سمجھتے ہوئے اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے بےنظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کردیا اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔

جماعت اسلامی کے ملین مارچ کے دوران دو کارکنان جان کی بازی ہار گئے اور کئی زخمی ہوئے۔ جماعت اسلامی کے رہنما اس مارچ کو دو وجوہات کی بنیاد پر کامیاب قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول پہلے تو جماعت کے امیر قاضی حسین کی اس کی قیادت اور دوسرا ایک مربوط حکمت عملی ہے۔

ملین مارچ میں شامل جماعت اسلامی کے سینیئر رہنما فرید پراچہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’جب پولیس نے مری روڈ پر قاضی حسین احمد کو گرفتار کرنے کے لیے اپنے حصار میں لیا اور جماعت اسلامی کے نوجوان پولیس پر ٹوٹ پڑے اور کسی بھی بات کی پروا کیے بغیر ہی انہوں نے قاضی حسین احمد کو پولیس کی نفری کی گرفت سے آزاد کروا لیا۔‘

جماعت اسلامی نے اپنے ملین مارچ کی کامیابی کے لیے انوکھی حکمت عملی اپنائی اور اس کے تحت قاضی حسین احمد کے ہم شکلوں کو تلاش کیا گیا اور انہیں وہ کپڑے پہنائے جو جماعت اسلامی کے لباس کا حصہ تھے، اور یوں پولیس کو چکمہ دے دیا گیا۔

جماعت اسلامی کے جنرل سیکریٹری امیر العظیم کے مطابق ملین مارچ میں پہلی مرتبہ کنٹینرز لگا کر قافلے کو روکا گیا اور انتظامیہ نے مارچ کو روکنے کے لیے روایتی انداز سے ہٹ کر نئے طریقے اپنائے۔

فرید پراچہ نے انکشاف کیا کہ جماعت اسلامی نے اپنے ملین مارچ کی کامیابی کے لیے انوکھی حکمت عملی اپنائی اور اس کے تحت امیر جماعت اسلامی کے ہم شکلوں کو تلاش کیا گیا اور انہیں وہ کپڑے پہنائے جو جماعت اسلامی کے لباس کا حصہ تھے۔

اس طرح چکمہ دے کر قاضی حسین احمد کو گرفتاری سے بچا لیا گیا اور پولیس جماعت کے امیر کی جگہ ان کے ہم شکل کو گرفتار کر کے لے گئی۔ انہیں تھانے جا کر پتہ چلا کہ وہ قاضی صاحب نہیں ہیں۔

جماعت اسلامی اسلام آباد کے رہنما خالد مرزا کے بقول ملین مارچ کے دوران ایک موقع پر پولیس نے قاضی حسین احمد کی گاڑی کو روکنے کے لیے فائرنگ کی اور اسی وجہ سے ان کی سرخ رنگ کی پجارو کے ٹائر پنکچر ہو گئے۔

جماعت اسلامی کے رہنما کے مطابق قاضی حسین احمد کے پٹھان ڈرائیور نے گاڑی کو روکنے کے بجائے اسی حالت میں اسے بھگا دیا اور پولیس کے حصار سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔

جماعت اسلامی کے رہنما اور کارکن جہاں آج بھی ملین مارچ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو انہیں اس بات پر شدید دکھ اور رنج ہے کہ پولیس کے درمیان چھڑپوں میں قاضی حسین احمد کی ٹوپی سر سے گر گئی اور ان کا سر ننگا ہو گیا۔

جماعت اسلامی کے رہنما امیر العظیم نے افسوس کا اظہار کیا کہ قاضی حسین احمد سے پولیس نے بدسلوکی کی۔ اس واقعے کی تصویریں بھی اخبارات میں شائع ہوئیں اور لوگوں نے پہلی بار قاضی حسین احمد کو بغیر ٹوپی کے دیکھا۔

جماعت اسلامی کے رہنما فرید پراچہ کے مطابق اس وقت کے صدر مملکت فاروق لغاری نے اس پر افسوس کا اظہار کیا اور یہ بھی بتایا کہ کہ ان کے والد بھی قاضی حسین احمد کی طرح سر پر ٹوپی پہنتے تھے۔

ملین مارچ میں شامل کلیم جاوید ایڈووکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اس وقت طالب علم تھے انہوں نے مارچ میں حصہ لیا تھا۔ گرفتاری سے بچنے کے لیے انہوں نے راولپنڈی تک سفر موٹر سائیکل پر کیا اس میں ڈیڑھ دن لگ گیا۔ ان کے بقول کنٹینر کھڑے کرنے کی وجہ سے جہاں ملین مارچ کا راستہ روکا گیا وہیں کئی براتیں بھی راستے میں پھنس کر رہ گئیں۔

عینی شاہد کلیم جاوید ایڈووکیٹ نے بتایا: ’جب ہم راولپنڈی کے مریڑ چوک پر پہنچے تو وہاں لاٹھی چارج ہوا۔ ’شباب ملی‘ کے سابق رہنما اور سابق صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان نے قاضی حسین احمد کو اپنے حصار میں لے لیا تاکہ وہ لاٹھی کی زد میں نہ آئیں۔

’پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ شروع کر دی۔ گیس بہت زہریلی تھی جس کی شدت سے گلہ تک بند ہو گیا۔ جلن سے آنکھیں سوج گئیں اور کئی افراد بے ہوش ہو گئے۔‘

جماعت اسلامی ایک قافلے کی صورت میں لاہور سے اسلام آباد روانہ ہوئی اور ان کا پولیس سے پہلا سامنا چناب کے پل پر ہوا۔

فرید پراچہ نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے پل پر کنٹینر کھڑے کر کے راستہ بند کر دیا تھا۔ پولیس کی جماعت اسلامی کے کارکنان سے چھڑپ ہوئی اور تمام منظر میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا۔ پولیس نے لاٹھی چارج اور پھر آنسو گیس کا استعمال کیا لیکن جماعت اسلامی کے کارکنوں نے کنٹینر کو دھکیل کر راستہ بحال کر دیا۔

ملین مارچ میں جہاں جماعت اسلامی کے سینیئر ترین رہنماؤں نے شرکت کی تو کئی رہنما گرفتار ہونے کی وجہ سے اس میں شرکت نہیں کر سکے۔

لاہور سے جماعت اسلامی کے رہنما ضیا الدین انصاری نے بتایا کہ لاہور میں مینار پاکستان سے قافلہ روانہ ہونا تھا جس کی قیادت لیاقت بلوچ کر رہے تھے لیکن پولیس نے مینار پاکستان کے اردگرد خار دار تاریں بچھا دیں اور مینار پاکستان کے میدان میں پانی چھوڑ دیا۔

اس مقام پر پولیس نے لاٹھی چارج کے ساتھ آنسو گیس کا استعمال کیا اور لیاقت بلوچ سمیت ایک بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا۔

جماعت اسلامی کے رہنما اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر حافظ عبدالرحمٰن انصاری نے بتایا کہ جب حکومت نے ملین مارچ کو روکنے کے لیے کنٹینر کھڑے کیے تو اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس خلیل الرحمان خان سے رابطہ کیا گیا اور انہیں تمام صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ حافظ عبدالرحمٰن ایڈووکیٹ کے مطابق ان کی بات پر کوئی داد رسی نہیں کی گئی۔

قافلے میں شامل افراد کے مطابق چناب کے پل کے بعد جہلم اور پھر راولپنڈی میں ملین مارچ کے شرکا کا پولیس سے تصادم ہوا جس میں بقول جماعت اسلامی آنسو گیس کا بےدریغ استعمال کیا گیا۔

جماعت کے رہنما بتاتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے سامنے پہنچنے کے لیے حکمت عملی تیار کی گئی تھی جس کے ذریعے کارکنان زیادہ تعداد میں وہاں پہنچے تھے۔

فرید پراچہ نے بتایا: ’کارکنوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ بھیس بدل کر اسلام آباد میں داخل ہوں اور اسی وجہ سے صوبہ سرحد سے جماعت اسلامی کے کارکنان مزدوروں کا سا حلیہ بنا کر شہر میں داخل ہوئے۔ کارکنوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نے چھاپوں سے بچنے کے لیے مسجدوں میں وقت گزرا۔ اس کے علاوہ کچھ نے مارگلہ کی پہاڑیوں کو پناہ کے لیے چنا تو کچھ زیر تعمیر گھروں میں چھپ کر وقت گزارنے لگے۔‘

جماعت اسلامی کے رہنما فرید پراچہ کے بقول ’مری روڈ پر آنسو گیس اتنی زیادہ مقدار میں استعمال کی گئی تھی جس سے میں بھی بے ہوش ہونے قریب پہنچ گیا اور دکان دار نے میری مدد کی۔‘

پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچنے کے لیے جماعت اسلامی کی قیادت نے یہ فیصلہ کیا کہ شہر کے ذیلی راستوں پر سفر کیا جائے اور براہ راست مرکزی سڑک پر نہ آیا جائے۔

جماعت اسلامی کے فرید پراچہ کے مطابق کارکن نے مین روڈ کے بجائے گلیوں کا انتخاب کیا اور ٹولیوں میں بٹ گئے۔

جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما نے بتایا کہ پولیس سے بچنے کے لیے انہوں نے بھی بھیس بدلا اور مری روڈ کے قریب ایک مسجد میں جمعے کی نماز ادا کی جہاں کوئی بھی انہیں پہچان نہیں سکا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قاضی حسین احمد نے ملین مارچ کے بارے میں اس وقت کے وزیر داخلہ جنرل ریٹائرڈ نصیر اللہ بابر سے بھی ملاقات کی تھی۔ امیر جماعت اسلامی کو اپنی گاڑی میں ملاقات کے لیے لے جانے والے جماعت اسلامی کے رہنما خالد مرزا کے مطابق نصیر اللہ بابر اور قاضی حسین احمد دونوں کے درمیان پشتو میں گفتگو ہوئی تھی۔ ان کے بقول صرف گفتگو کے لہجے سے اندازہ ہو رہا تھا کہ دونوں کیا بات کررہے تھے۔

پارلیمنٹ ہاؤس تک پہنچنے کا دعویٰ پورا کرنے کے بعد جماعت اسلامی کے کارکنان شام تک منتشر ہوگئے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مارچ پیپلز پارٹی کے خلاف ہوا مگر اس وقت پیپلز پارٹی کے سب سے بڑے سیاسی حریف نواز شریف اس موقع پر مکمل طور پر لاتعلق رہے اور کنارے پر کھڑے سارے واقعات دیکھتے رہے۔

جماعتِ اسلامی کا یہ دھرنا اس لحاظ سے کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس کے چند ہفتوں کے اندر اندر اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے پانچ نومبر 1996 کو بےنظیر کی حکومت کو آئین کی بد نامِ زمانہ شق 58 ٹو بی کے تحت گھر بھیج دیا تھا۔

اگرچہ فاروق لغاری نے اس کی وجہ کرپشن بتائی تھی لیکن اس میں جماعتِ اسلامی کے دھرنے کا بھی کردار بنتا ہے کیوں کہ اس سے صدر کو یہ اعتماد ہو گیا کہ حکومت عوامی حمایت کھو چکی ہے۔

اس کے بعد فروری 1997 میں انتخابات ہوئے ان میں میں نواز شریف کی مسلم لیگ نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور وہ دو تہائی اکثریت حاصل کر کے وزیرِ اعظم بننے میں کامیاب ہو گئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ