بلوچ خواتین کی گرفتاری پر احتجاجاً تربت گوادر شاہراہ بند

ایم ایٹ شاہراہ پر دھرنے کے باعث تربت سے گوادر، پسنی، اورماڑہ اورکراچی جانے والی شاہراہ پرٹریفک معطل ہوگئی ہے۔ پانچ دنوں سے ہوشاب سیکشن بھی بند ہے۔

تربت کو گوادر سے ملانے والی شاہراہ ایم ایٹ دو مقامات سے بند کرکے دو بلوچ خواتین کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے (تصویر: صحافی اسد بلوچ) 

بلوچستان کے ضلع تربت میں ایک شاعرہ حبیبیہ پیر جان کی گرفتاری کے خلاف دھرنا شروع کردیا گیا ہے۔

اس سے قبل بلوچستان کے ضلع کیچ سے 16 مئی کو نور جہاں نامی ایک اور خاتون کی گرفتاری کے خلاف ہوشاب میں سی پیک روڈ پر دھرنا دیا تھا جو تاحال جاری ہے۔

اسی تناظر میں حق دو تحریک نے ہفتے سے پورے مکران میں شٹرڈاؤن ہڑتال کی کال بھی دی ہے۔

ایم ایٹ شاہراہ پر دھرنے کے باعث تربت سے گوادر، پسنی، اورماڑہ اورکراچی جانے والی شاہراہ پرٹریفک معطل ہوگئی ہے۔ پانچ دنوں سے ہوشاب سیکشن بھی بند ہے۔

جمعے کو حبیبہ پیر جان کی فیملی نے حق دو تحریک، سول سوسائٹی کے ہمراہ مل کر تربت میں ایم ایٹ شاہراہ کو دی بلوچ پوائنٹ پر دھرنا دے کر بند کردیا ہے۔ شاہراہ کی بندش سے کئی گاڑیاں پھنس گئی ہیں۔ جس سے شدید گرمی میں مسافروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

دھرنے کے حوالے سے تربت کے صحافی اسد بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہے۔ جبکہ ہوشاب میں بھی دھرنا بدستورجاری ہے۔

دھرنا میں کراچی نیول کالونی سے 19 مئی کو حراست میں لی جانے والی شاعرہ حبیبہ پیر جان کی بہن بھی شریکت تھیں جن کا تعلق نظر آباد کی تحصیل تمپ سے ہے۔

نسیمہ نے اسد بلوچ کو بتایا کہ ’حبیبہ پیر جان کو جب اٹھایا گیا تو اس وقت گھر میں ان کے دو بچے اور میری کی بیٹی موجود تھی۔ تاہم ان کی گرفتاری اور الزامات کے حوالے سے ہمیں ابھی تک کچھ نہیں بتایا گیا۔‘

احتجاج میں شامل حق دو تحریک کے رہنما غلام یاسین نے دھرنے سے خطاب میں کہا کہ ’بلوچ عورتوں کی گرفتاری ایک خطرناک رجحان ہے۔ سکیورٹی ادارے بلوچ قوم کے روایات سے ناواقف ہیں۔ اس لیے انہیں اس کے رد عمل کا اندازہ نہیں ہے۔‘

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’ہوشاب سے گرفتار خاتون نورجہاں کے کیسز واپس لے کر انہیں رہا کیا جائے اور کراچی سے گرفتار کی جانے والی حبیبہ کو بازیاب کرایا جائے۔‘

دوسری جانب حق دو تحریک نے خواتین کی گرفتاریوں کے خلاف کل سے ضلع کیچ سمیت پورے مکران میں غیر معینہ مدت تک شٹرڈاؤن ہڑتال کی کال دی ہے۔

حق دو تحریک کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں تاجر برادری سے کل دکانیں اور مارکیٹ بند کرکے تعاون کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ریاستی اداروں کا رویہ روز بروز شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔‘

انہوں نے سول سوسائٹی، جماعت اسلامی اور نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سے ہڑتال کی حمایت کا مطالبہ کیا ہے۔

ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کرکے موقف لینے کی کوشش کی گئی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

تاہم گذشتہ دنوں حکومت بلوچستان کی خاتون ترجمان فرح عظیم شاہ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیچ کےعلاقے ہوشاب سے گرفتارخاتون نورجہاں سے خود کش جیکٹ اور ہینڈ گرنیڈ برآمد کیا گیا ہے۔

فرح عظیم شاہ نے بتایا کہ ’گرفتار خاتون نورجہاں نے اعتراف کیا کہ وہ کوئی حملہ کرنا چاہتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کالعدم تنظیم مجید بریگیڈ ان خواتین کو خود کش حملوں کےلیے تیار کررہی ہے۔‘

حبیبہ پیرجان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ علاقے میں حالات کی خرابی اور منشیات کےباعث بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے کراچی شفٹ ہوئی تھیں جہاں ان کے شوہر کو منشیات کی لت میں گرفتار کیا گیا تھا۔

دوسری جانب ہوشاب میں شاہراہ پر دھرنا دینے والوں سے ڈپٹی کمشنر کیچ حسین جان بلوچ اورممبرصوبائی اسمبلی ظہور بلیدی نے دو دفعہ جاکر مذاکرات کیے ہیں لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔

مظاہرین  نے جواب  دیا کہ وہ نورجہاں اور حبیبہ پیرجان کی رہائی تک دھرنا جاری رکھیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان