شوکت خانم: جنہوں نے عمران خان کی شخصیت کی تشکیل کی

عمران خان کہتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ کے سائے میں ہمیشہ یہی سیکھا تھا کہ زندگی بے خوفی سے بسر کرنی ہے۔

عمران خان نے ماؤں کے دن پر اپنی والدہ کی یہ تصویر شیئر کی تھی (فوٹو: عمران خان)

مولانا راشد محمود سومرو کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گذشتہ دنوں وائرل ہوئی جس میں انہوں نے عمران خان کی والدہ کے بارے میں نازیبا اور غیر اخلاقی گفتگو کی۔ مولانا راشد محمود سومرو کا تعلق لاڑکانہ سے ہے اور وہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی سندھ شاخ کے سیکریٹری جنرل ہیں۔

ایک تاثر تو یہ جاتا ہے کہ عمران خان جس طرح کی زبان مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں بولتے ہیں، مولانا راشد سومرو نے اسی زبان میں جواب دیا ہے لیکن معاملہ چونکہ عمران خان کا نہیں بلکہ ان کی والدہ کا تھا، اس لیے مولانا راشد سومرو کے الزامات کی ہر طبقہ فکر نے بھرپور الفاظ میں مذمت کی۔

پاکستان میں گذشتہ کچھ سالوں سے مخالفین کی کردار کشی اور ان پر بے ہودہ الزامات لگانا ایک عام چلن بن گیا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ روش عمران خان نے ہی متعارف کروائی ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے خالق شیخ رشید ہیں جو اپنے جلسوں میں محترمہ بےنظیر بھٹو کے بارے میں غیر اخلاقی گفتگو کیا کرتے تھے۔

لیکن پاکستانی تاریخ کے ورق اٹھا کر دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ چلن نیا نہیں بلکہ شروع ہی سے ہماری سیاست کا حصہ رہا ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح کے بارے میں گھٹیا الزامات آج بھی اس زمانے کے اخباروں میں محفوظ ہیں۔

شوکت خانم پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی والدہ ہیں۔ عوام میں ان کا تعارف ان کے بیٹے کی وجہ سے ہے جنہوں نے ان کے نام پر1994 میں لاہور میں پاکستان کا پہلا کینسر ہسپتال بنایا۔ شوکت خانم کی وفات فروری 1985 میں کینسر کی وجہ سے ہوئی تھی۔

عمران خان نے 1988 میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کا منصوبہ شروع کر کے اس کے لیے عطیات جمع کرنے کی مہم شروع کر دی گئی تھی۔ اسی مہم کے دوران ان کا عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ استوار ہوا جو بالآخر انہیں سیاست میں لے آیا۔

اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ ان کی والدہ کے نام پر بننے والے ہسپتال نے ان کے لیے اس ماحول کی بنیاد فراہم کر دی تھی جس میں آگے چل کر وہ پاکستان کے وزیراعظم بن گئے۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق

شوکت خانم کا تعلق پٹھانوں کے برکی قبیلے سے ہے جو ایک جنگجو قبیلہ مانا جاتا ہے اور اپنی اس روش کی بدولت کئی بار نقل مکانی اور خانہ بدری سے گزرا ہے۔ یہ لوگ محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان پر حملوں میں شریک رہے جس کے صلے کے طور پر انہیں جنوبی وزیرستان میں کنی گرام کا علاقہ تحفے میں ملا تھا۔ برکی خود کو ترک النسل بتاتے ہیں اور ان کی زبان پشتو نہیں بلکہ اورمڑی ہے جو الگ زبان ہے اور اسے صرف اسی علاقے کے لوگ بولتے ہیں۔

بھارتی مصنف، شاعر اور صحافی فرینک حضور کی کتاب جس کا اردو ترجمہ جمہوری پبلیکیشنز لاہور نے ’عمران خان فسانہ یا حقیقت‘ کے نام سے چھاپا ہے، اس میں لکھا ہے کہ چودھویں صدی کے اوّلین حصے تک جنوبی وزیرستان کا خوبصورت علاقہ کنی گرام برکیوں کا وطن تھا۔ جب یہ خوبصورت وادی بدترین قحط کا شکار ہوئی تو شوکت خانم کے اجداد وہاں سے ہجرت کر کے جالندھر میں پناہ گزین ہو گئے۔ کچھ برکی قبائل آج بھی کنی گرام میں آباد ہیں جو خود کو عمران خان کے رشتہ دار بتاتے ہیں۔

شوکت خانم اور جالندھر کی بستی

شوکت خانم کا خاندان جالندھر کی بستی نو میں آباد تھا ان کے والد احمد حسن خان تقسیم سے پہلے بیوروکریٹ تھے، جنہوں نے برٹش انڈیا میں 30 سال تک بطور ڈپٹی کمشنر، سیٹلمنٹ کمشنر اور مجسٹریٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ شوکت خانم کی والدہ امیر بانو بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ مگر مکمل گھریلو خاتون تھیں۔ شوکت خانم کی پیدائش جالندھر کی بستی نو میں 1927 کو ہوئی۔ ان کے تین بہن بھائی نعیمہ خانم، اقبال جان اور احمد رضا خان بھی وہیں پیدا ہوئے۔ احمد حسن خان 1937 سے 1940 تک میانوالی کے ڈپٹی کمشنر بھی رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے جالندھر سے 194 کلومیٹر دور ایک سیاحتی مقام ڈلہوزی میں خوبصورت مینشن خریدا جہاں سے ہمالیہ کا انتہائی دلکش نظارہ ملتا تھا۔

پانچ سال کے بعد ہی انہیں دل کا شدید دورہ پڑا اور وہ اپنے چھوٹے بھائی محمد زمان خان کے گھر لاہور منتقل ہو گئے جو اس زمانے میں لاہور کے کنارے ایک وسیع و عریض گھر تعمیر کر چکے تھے۔ اس زمانے میں اس علاقے میں کھیت ہوا کرتے تھے اور علاقے کا واحد گھر ایک فارم ہاؤس کا منظر پیش کرتا تھا۔

بعد میں جب ارد گرد اور بھی گھر بن گئے تو یہ علاقہ زمان خان کی نسبت سے زمان پارک کہلایا۔ زمان خان 1940 میں لاہور منتقل ہوئے تھے اور وہ لاہور کے پوسٹ ماسٹر جنرل تھے۔ اس علاقے میں گھر بنانے کا مقصد یہاں سے ایچی سن کالج، جو اس زمانے میں چیفس کالج کہلاتا تھا، کے نزدیک ہونا تھا جہاں زمان خان کے بچے پڑھتے تھے۔ شوکت خانم بھی اپنے بیمار والد کی دیکھ بھال کے لیے جالندھر سے لاہور آ گئیں۔

اکرام اللہ نیازی سے شادی

شوکت خانم کی ایک بہن نعیمہ خان کی شادی گورنمنٹ لدھیانہ کالج کے پرنسپل اور مشہور کرکٹر ڈاکٹر جہانگیر خان سے 1942 میں ہو چکی تھی۔ چھ فٹ سے لمبے جہانگیر خان نے 1930 میں لارڈز میں ہونے والے ہندوستان کے پہلے ٹیسٹ میچ میں ہندوستان کی طرف سے حصہ لیا تھا۔

تاہم کرکٹ کی دنیا میں وہ اس بال کی وجہ سے یاد رکھے گئے جو انہوں نے 1936 میں لارڈز میں میرل بون کرکٹ کلب کے ٹام پیئرس کو کرائی تھی جس نے راستے میں آنے والی ایک چڑیا کو نشانہ بنایا تھا۔ چڑیا مر کر وکٹوں کے سامنے گر گئی تھی۔ یہ مردہ چڑیا آج بھی لارڈز میں ایم سی سی کے میوزیم میں محفوظ ہے۔

ڈاکٹر جہانگیر خان بھی تقسیم کے وقت پاکستان منتقل ہو گئے تھے۔ 1949 میں جب ان کا تقرر ساہیوال میں ہوا تو اکرام اللہ نیازی کے بہنوئی بطور پولیس انسپکٹر ساہیوال میں ہی تعینات تھے۔ اکرام اللہ کی بہن نے نعیمہ سے اس کی بہن کا رشتہ مانگا۔ انہوں نے اپنے والد احسن خان سے رابطہ کیا جو زمان پارک میں مقیم تھے۔ اکرام اللہ ان دنوں سول انجینیئر کی حیثیت سے حکومت پنجاب میں ملازم تھے۔ دونوں خاندانوں میں صلاح مشورے سے یہ شادی طے ہو گئی اور نومبر 1949 میں شوکت خانم اور اکرام اللہ خان نیازی رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔

اکرام اللہ نیازی نے شروع میں زمان پارک میں ہی ایک گھر کرائے پر لے کر رہنا شروع کیا جہاں پانچ ستمبر 1950 کو ان کے پانچ بچوں میں سب سے پہلی بیٹی روبینہ پیدا ہوئی۔ دوسا ل بعد 25 اکتوبر1952 کو لیڈی ولنگٹن ہسپتال میں ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ان کی والدہ نے عمران احمد خان نیازی رکھا۔ تاہم بعض ناقابل فہم وجوہات کی بنیاد پر انہوں نے کیتھڈرل سکول میں داخل کراتے وقت عمران خان کی تاریخ پیدائش 25 نومبر لکھی ہے۔

عمران کے نظریات کی تشکیل اور شوکت خانم

فرینک حضور لکھتے ہیں کہ شوکت خانم فطرتاً ایک پٹھان عورت تھیں۔ ان کا قد لمبا تھا اور وہ ہر اعتبار سے خوب صورت تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہر کے زیر سایہ محبت اور پیار سے زندگی بسر کی۔ وہ ان کے طنز اور تعریف پر ہنس دیتیں۔ ان کے گلے شکوے سنتیں لیکن وہ ان کی باتوں پر ہمیشہ بے چوں و چرا عمل نہیں کرتی تھیں بلکہ کبھی کبھی بحث بھی کرتی تھیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کی بامقصد تربیت کی اور ان کے معصوم ذہنوں میں اپنی نسل کا فخر اور نیک خوئی کا احساس نقش کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے اصولوں پر ڈٹ جانے کی ہمت و جرات بھی پیدا کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمران خان اپنی خود نوشت ’میں اور میرا پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ میری والدہ ہر روز رات کو ہمیں ایک کہانی سنایا کرتی تھیں جو مذہبی ہوتی تھی، جن میں ایک اخلاقی سبق ہوتا تھا۔ حضرت موسیٰ، فرعون، حضرت یوسف اور رحمت العالمین کے بارے میں۔ ہر شب والدہ ہمیں دعا مانگنے کی یاد دہانی کراتیں۔

وہ ایک واقعہ کثرت کے ساتھ اور بہت ذوق شوق کے ساتھ سنایا کرتیں۔ مکہ میں ایک بوڑھا آدمی آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا، ’میں قبیلے کا آخری آدمی ہوں جس نے اسلام قبول نہیں کیا۔ میں اسلام لانا چاہتا ہوں لیکن اس بڑھاپے میں کیونکر اپنی عادت بد ل پاؤں گا۔ کوئی ایک بات بتا دیجیے کہ جس پر عمل سے نجات ہو جائے۔‘

آپ نے فرمایا، ’سچ بولا کر ہمیشہ سچ، تمہارے مسلمان رہنے کو اتنی سی بات کافی ہو گی۔‘ میرے والدین مذہب کے بارے میں نرم خو تھے، کشادہ مزاج، وہ ہم سے کہا کرتے کہ اللہ بڑا ہی رحمٰن اور رحیم ہے۔ نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کے معاملے میں ہم پر کبھی سختی نہ کی جاتی۔ میری والدہ کا تعلق برکی قبیلے سے تھا۔ وہ بہت فخر سے کہا کرتیں کہ ہمارے اجداد نے انگریزوں کی غلامی کبھی قبول نہ کی۔

’ہوش سنبھالنے پر میں دو قسم کے احساسات میں مبتلا ہوا۔ سب سے زیادہ استعمار کے خلاف۔ بچپن سے ہی مجھے سکھلایا گیا کہ غلامی وہ بد ترین چیز ہے، بنی نوع انسان جس کا شکار ہو سکتا ہے۔ آدمی کی اس سے زیادہ توہین ممکن نہیں۔ اماں جان مجھے شیر میسور ٹیپو سلطان کی داستانیں سنایا کرتیں۔ 1799 میں جس پر تین افواج نے حملہ کیا، انگریز، نظام حیدر آباد اور مرہٹوں نے۔ پھر وہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی کہانی سنایا کرتیں جو 1862 میں بے بسی کی موت مارا گیا۔ وہ ٹیپو سلطان کا قول دہراتیں شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔‘

شوکت خانم کی موت اور عمران خان میں تبدیلی

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے بعد ہی ان کے دوستوں نے انہیں سیاست میں آنے کا مشورہ دیا۔ ہسپتال کی تعمیر ایک ایسا کارنامہ تھا جس نے ان میں خود اعتمادی میں مزید اضافہ کر دیا تھا اور وہ یہ سمجھنے لگے تھے کہ پاکستان میں تبدیلی کا جو خواب وہ لے کر نکلے ہیں ایک دن وہ ضرور کامیاب ہو گا۔ شوکت خانم میں کینسر کی تشخیص 1984 کے اوائل میں ہو چکی تھی۔ لاہور میں علاج کی سہولتیں نہیں تھیں اور لندن جا کر علاج کے لیے وہ تیار نہیں تھیں، تاہم بیٹے کے اصرار پر وہ لندن چلی گئیں جہاں ان کا انتقال ہو گیا۔

اس سے قبل جب لاہور میں شوکت خانم شدید تکلیف میں مبتلا تھیں اور ڈاکٹر بے بس تھے تو ہسپتال میں ہی عمران خان نے چیخ کر کہنا شروع کر دیا تھا کہ میں یہاں کینسر ہسپتال بناؤں گا۔

عمران خان اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ ’جب دس فروری کو میں اپنی والدہ کی میت لے کر پاکستان آ رہے تھے تو میرا اپنی قوم کو کینسر ہسپتال کا تحفہ دینے کا عزم مزید پختہ ہو گیا۔ یہ میری والدہ کے لیے میرا حقیر سا نذرانہ ہوتا۔ میں نے اپنی والدہ کے سائے میں ہمیشہ یہی سیکھا تھا کہ زندگی بے خوفی سے بسر کرنی ہے۔ میں اپنا عزم مسلسل دہرا رہا تھا: میدان کبھی نہیں چھوڑنا ہے۔ آنے والے کل سے نہیں ڈرنا ہے کیونکہ اللہ میرے ساتھ ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ