پاکستان میں ایرانی مداخلت؟

جب پاکستانی پالیسی ساز ایران کے معاملے پر غور کرتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں اندرون ملک ردعمل کا خوف بہت زیادہ ہوتا ہے۔

25 فروری، 2020 کو پاکستان کے سکیورٹی اہلکار تافتان میں پاک -ایران سرحد پر پہرہ دے رہے ہیں (اے ایف پی)

ہمارے حکام کی خوش فہمی پر مبنی گفتگو میں کسی ’پڑوسی ملک‘ پر پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام لگایا جاتا ہے تو اس میں چھپا ہوا حوالہ بھارت یا شاید افغانستان کا ہوتا ہے۔

کبھی کبھار ہی، اگر کبھی اٹھے تو انگلی پاکستان کے جنوب مغربی پڑوسی ایران کی طرف اٹھتی ہے۔ اب یہ صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔

12 مئی کو کراچی کے علاقے صدر میں بارودی مواد کا دھماکہ ہوا جس میں ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ اس حملے کی  ذمہ داری فوری طور پر سندھودیش ریولوشنری آرمی نے قبول کی۔

یہ ایک علیحدگی پسند گروپ ہے جو اسی طرح کے بلوچ گروپس جیسے کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچستان ریولوشنری آرمی کی طرز پر وجود میں آیا ہے۔

 اس گروپ کو، جس پر مئی 2020 میں سندھودیش لبریشن آرمی (ایس ایل اے) اور جئے سندھ قومی محاذ ۔ آریسر کے ساتھ پابندی عائد کی گئی تھی، صوبہ سندھ میں پنجابیوں اور پشتونوں کی ٹارگٹ کلنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

اس گروپ نے نومبر 2021 میں ضلع  قمبر شہداد کوٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما رانا سخاوت راجپوت کے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کی۔

اپنے پیغام میں ایس آر اے نے خبردار کیا کہ ’تمام آباد کار سندھ چھوڑ دیں۔‘ یہ عمل ماضی میں بلوچستان لبریشن آرمی کی قتل کرنے کی حکمت عملی کی آئینہ دار ہے۔

دھماکے کے بعد حکام نے اپنی توجہ ایس آر اے کے تین عسکریت پسندوں پر کر لی جو حکام کے بقول حملے کے ذمہ دار تھے اور ان میں سے دو کو ایک مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔

ہلاک ہونے والوں اللہ ڈنو بھی شامل ہیں جن کے بارے میں حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ بم بنانے کے ماہر تھے اور انہوں نے صدر حملے میں استعمال ہونے والا بم تیار کیا تھا۔

 محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا ہے کہ انہیں شبہ ہے کہ اس دہشت گرد گروپ کی تربیت اور مالی امداد بالآخر را کی طرف سے ہوتی ہے، اس کے رہنما اور اڈے ایران میں موجود ہیں جیسا کہ ایس آر اے کے رہنما سید اصغر شاہ جو دھماکے کی کارروائی کے دوران مبینہ طور پر اللہ ڈنو کے ساتھ رابطے میں تھے۔

ایران کا اگر سرپرست کے طور پر نہیں لیا جا رہا تو کم از کم پاکستان مخالف دہشت گرد گروپوں کی میزبان کے طور پر لیا جا رہا ہے۔

یہ اقدام ماضی میں اپریل 2017 کے عمل کا حصہ ہے جب اورماڑہ کے قریب بلوچستان کوسٹل ہائی وے پر ایک حملے میں 14 افراد جان سے گئے تھے۔

حملے کی ذمہ داری بلوچ راجی آجوئی سنگھ (بی آر اے ایس) نے قبول کی جو تین بلوچ علیحدگی پسند گروپس پر مشتمل ایک سرپرست تنظیم ہیں۔

اس حملے کے بعد اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کھل کر کہا کہ ان تنظیموں کے تربیتی اور لاجسٹک کیمپ ایران میں ہیں۔

قریشی نے یہ بھی کہا کہ کیمپس کے مقام کی نشاندہی کرتے ہوئے ایران سے سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ماہ سے بھی کم عرصے بعد ایران نے بھی پاکستان پر جیش العدل کے خلاف ’کارروائی نہ کرنے‘ کا الزام لگایا۔

جیش العدل ایک عسکریت پسند گروپ ہے جس نے اسی مہینے10  ایرانی سرحدی محافظوں کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

قریشی کا یہ بیان ممکنہ طور پر پہلی مرتبہ تھا کہ ان جیسے کسی عہدے دار نے ایران پر براہ راست الزام لگایا ہو کیوں کہ اس سے قبل اس طرح کی کالز بالواسطہ طور پر کی جاتی تھیں۔ مثال کے طور پر 2006 میں جب ’ذرائع‘ کے ذریعے یہ اطلاع ملی کہ پاکستان نے زاہدان میں بھارتی قونصل خانے کے پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں ملوث ہونے کے بارے میں ایران کو تحفظات سے آگاہ کیا تھا۔

یہاں تک کہ جب کلبھوشن یادو کے دہشت گرد نیٹ ورک پوری شدت کے ساتھ سامنے آیا۔ پاکستانی حکام محتاط رہے کہ ایران پر براہ راست الزام نہ لگایا جائے جو یادو کی پاکستان میں کارروائیوں کا اڈہ تھا۔

اس کے بعد اس سال جنوری میں جدید ہتھیاروں اور رات کو دیکھنے کے قابل آلات سے لیس بلوچ لبریشن فرنٹ کے عسکریت پسندوں نے پاکستان ایران سرحد پار کی اور کیچ میں ایک چوکی پر حملہ کیا جس سے 10 پاکستانی فوجی جان سے گئے۔

ایک بار پھر ایران کی طرف انگلی اٹھائی گئی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں بی ایل ایف کو سرگرمیوں کی اجازت ہے۔

کیچ حملے کے صرف تین دن بعد ایک اور انکشاف ہوا۔ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) منی لانڈرنگ کا ایک نیٹ ورک کو منظر عام پر لائی جو مبینہ طور پر ’بھاری رقم‘ ایران منتقل میں ملوث تھا۔

رقم کے ایک وصول کنندہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ابوالفضل بہاؤ الدینی تھے جو ایرانی رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای کے پاکستان میں سابق نمائندے ہیں۔

حکام اس منی ٹریل تک کیسے پہنچے؟ کراچی میں ایران کی سرپرستی میں چلنے والی زینبیون بریگیڈ کے دو ارکان کی گرفتاری اور ان سے تفتیش کے بعد تحقیقات کا آغاز ہوا۔

سی ٹی ڈی عہدے دار عمر شاہد حامد کے مطابق دونوں نے ایران میں تربیت حاصل کی تھی اور تفتیش کے مطابق وہ کراچی میں علما یوسف لدھیانوی اور نظام الدین شامزئی کے قتل میں ملوث تھے۔

 زینبیون بریگیڈ ایک مسلح جتھہ ہے جسے ایران کے پاسداران انقلاب اور قدس فورس کی طرف سے اسلحہ اور تربیت فراہم کی جاتی ہے۔

یہ ملیشیا پاکستانیوں پر مشتمل ہے۔ اس کے ارکان کی تعداد ایک اندازے کے مطابق دو سے پانچ ہزار کے درمیان ہے۔ بعض اوقات فاطمیون بریگیڈ (جو افغانوں پر مشتمل ہے) کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے اس ملیشیا کو

شام بھیجا گیا اور شاید عراق میں بھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شام میں یہ ملیشیا بشار الاسد کی افواج کے ساتھ مل کر لڑی۔ اس تنظیم نے اکثر داعش کے خلاف بھی لڑائیاں لڑیں۔

ان جنگوں کے خاتمے کے بعد خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ جنگی تجربہ رکھنے والی اس ملیشیا کو دوسرے مقاصد کے لیے پاکستان میں دوبارہ بھیجا جا سکتا ہے۔ کیا یہ خطرے کی گھنٹی لگتی ہے؟ ہو سکتا ہے۔

لیکن ایران میں قائم گروپس کی جانب سے حملوں اور ایران سے وابستہ افراد کی گرفتاریاں قابل تشویش ہیں۔ کم خرچ پر طاقت میں اضافے کے لیے فرقہ وارانہ مسلح جتھوں کے استعمال کی مجموعی حکمت عملی پورے مشرق وسطیٰ میں معیاری اور بیان کردہ ایرانی پالیسی ہے۔

لیکن یہاں ایرانی حکومت آگ سے کھیل رہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ جب پاکستانی پالیسی ساز ایران کے معاملے پر غور کرتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں اندرون ملک ردعمل کا خوف بہت زیادہ ہوتا ہے۔

یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز دہشت گردی کے کئی سروں والے خطرے سے نمٹنے کے لیے بہت زیادہ دباؤ میں اور الجھی ہوئی ہیں۔

لیکن صبر کی اپنی حد ہوتی ہے۔ یہ خطے کے لیے بہتر ہو گا اگر نئی شروع ہونے والی پراکسی جنگ واقعی شروع ہو جانے سے پہلے ہی ختم ہو جائے۔

نوٹ: یہ مضمون لکھاری کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ