یوکرین پر روسی حملے کے 100 دن: اب تک کیا کچھ بدلا؟

اگرچہ اس تمام عرصے میں دنیا نے یورپ کو غیر مستحکم اور عالمی معیشت کو کمزور دیکھا لیکن اس سب کے باوجود روسی صدر ولادی میر پوتن اقتدار میں ہیں اور روسی فوجی مہم کی ناکامیوں کے باوجود ان کے پیچھے ہٹنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

29 مارچ 2022 کی اس تصویر میں ایک یوکرین فوجی کو تباہ شدہ روسی ٹینک کے اوپر دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

روس کے یوکرین پر حملے کو 100 دن ہوچکے ہیں اور سارے عرصے میں جہاں دنیا نے یورپ کو غیر مستحکم اور عالمی معیشت کو کمزور دیکھا وہیں عالمی نظام بھی کچھ درہم برہم نظر آتا ہے۔

لیکن اس سب کے باوجود روسی صدر ولادی میر پوتن اقتدار میں ہیں اور روسی فوجی مہم کی ناکامیوں کے باوجود ان کے پیچھے ہٹنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

ذیل میں اس سب پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ رواں برس 24 فروری کو یوکرین پر حملے کے آغاز سے لے کر اب تک کیا کچھ بدلا ہے اور ایسا کیا ہے، جسے ہونا چاہیے تھا، لیکن نہیں ہوا۔

پوتن کے مغرب سے تعلقات

یوکرین پر حملے سے قبل صدر ولادی میر پوتن اکثر مغربی ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے 2019 کے موسم گرما میں اپنی ذاتی رہائش گاہ پر پوتن کی میزبانی کی تھی۔

لیکن اب مغربی رہنما بغیر کسی ہچکچاہٹ کے پوتن کو ایک ’ڈکٹیٹر‘ اور ’جنگی مجرم‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں اور انہیں الگ تھلگ کر دیا گیا ہے جبکہ ان کے حواریوں جیسے وزیر خارجہ سرگئے لاوروف، جو اکثر اوقات مغربی ممالک کے دورے کیا کرتے تھے، پر پابندی لگادی گئی ہے۔

تاہم اپنی صحت کے بارے میں مسلسل غیر مصدقہ افواہوں اور قریبی حلقوں میں عدم اطمینان کے باوجود، پوتن اپنے ملک کے اندر ابھی تک معاملات پر کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہیں اور انہیں یوکرین کے خلاف جنگ کی حمایت بھی حاصل ہے۔

توقع سے زیادہ یوکرینی مزاحمت

ایک بات تو طے ہے کہ روس اپنے ابتدائی مقصد یعنی یوکرین کے دارالحکومت کیئف کو اپنے کنٹرول میں لینے میں ناکام ہوگیا ہے اور اسے توقع سے کہیں زیادہ یوکرینی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

لیکن اس وقت بھی روسی افواج یوکرین میں کافی اندر تک داخل ہوچکی ہیں اور ماسکو نے بڑے پیمانے پر روسی بولنے والے مشرقی دونبیس کے تمام علاقے پر قبضہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔

اس سے قبل 2014 میں بھی جزیرہ نما کرائمیا کے روس سے الحاق کے وقت مسائل کھڑے ہوئے تھے، جسے بین الاقوامی برادری نے کبھی تسلیم نہیں کیا اور پوتن کو اب بھی پیچھے ہٹنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اس کے حتمی مقاصد کیا ہو سکتے ہیں۔

جغرافیہ دان اور سابق سفارت کار مشیل فوچر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اگر دونبیس روس کے قبضے میں چلا جاتا ہے تو مغرب میں یوکرین کی سٹریٹجک بندرگاہ اوڈیسا ’لائن آف فائر‘ میں آسکتی ہے۔

انہوں نے کہا: ’جو دور شروع ہو رہا ہے وہ یوکرینیوں کے لیے سازگار نہیں ہے۔‘

ادھر امریکہ اور جرمنی یوکرین کو روس کے خلاف مزاحمت کے لیے جدید ہتھیار بھی فراہم کر رہے ہیں۔

بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے فراہم کردہ ان ہتھیاروں میں ایم 142 ہائی موبلیٹی آرٹلری راکٹ سسٹم (ہمارز) بھی شامل ہے، جس کے بارے میں یوکرین کی مسلح افواج کے سربراہ نے ایک ماہ قبل کہا تھا کہ روسی میزائل حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ ’اہم‘ ہے۔

کس نے روس کی مخالفت کی، کون خاموش رہا؟

اگرچہ یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ، حکمت عملی میں اختلافات کے باوجود نسبتاً متحد ثابت ہوئے ہیں تاہم روس پر دباؤ ڈالنے کے موقف کو دنیا بھر میں اس طرح سے نہیں پھیلایا گیا، جیسا اسے ہونا چاہیے تھا۔

چین نے کبھی بھی واضح طور پر روسی جارحیت کی مذمت نہیں کی ہے اور ماسکو نے مغرب کی جانب سے تنہائی پر قابو پانے کے لیے بیجنگ سے روابط استوار کیے ہیں۔

دوسری جانب روسی ہتھیاروں پر انحصار کرنے والا بھارت بھی اتنا ہی محتاط رہا ہے۔

نیٹو کے رکن ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے بھی احتیاط کا دامن تھام رکھا ہے کہ ماسکو کے ساتھ تعلقات خراب نہ ہوں جبکہ یوکرین جو ڈرون استعمال کرتا ہے، وہ ترکی کے ہیں۔

جنوبی افریقہ کے انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز میں افریقی گورننس اینڈ ڈپلومیسی پروگرام کے سربراہ سٹیون گرزڈ کہتے ہیں کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کے برکس گروپوں میں شامل زیادہ تر ممالک اس حملے کی مذمت کرنے میں ’بہت ہچکچاہٹ‘ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’میرے خیال میں افریقہ میں کچھ ایسے ممالک ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ جنوبی افریقہ کی طرح غیر جانبدار رہنا چاہتے ہیں لیکن اسے اس صورت حال میں روس کی حمایت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔‘

مزید پڑھیے: کیا یوکرین کے لیے امریکی راکٹ گیم چینجر ثابت ہوں گے؟

نیٹو کی رکنیت کا معاملہ

24 فروری سے پہلے، یورپی یونین کے ارکان فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو کی رکنیت کا سوال نورڈک ممالک کے سیاسی ایجنڈے میں سرفہرست نہیں تھا، لیکن اب فن لینڈ، جس کی روس کے ساتھ زمینی سرحد ہے اور سویڈن، جس کی روس کے ساتھ صدیوں پرانی سمندری دشمنی ہے، دونوں نے نیٹو میں شمولیت کے لیے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔

دوسری جانب امریکہ اور یورپی اتحادیوں نے پولینڈ اور بالٹک ریاستوں میں روس کے ساتھ نیٹو کی سرحدوں کی حفاظت میں مدد کے لیے مزید ہزاروں فوجی دستے بھیجے ہیں۔

یہ سب پوتن کے بیان کردہ جنگی مقصد کے خلاف ہے، جس کا مقصد روس کو نیٹو کی پہنچ سے بچانا ہے۔ اس نے فرانسیسی صدر میکروں کے اس ایجنڈے کو ایک بار پھر تقویت دی ہے کہ یورپی یونین کو اپنے تحفظ کی ذمہ داری خود لینی چاہیے۔

سخت پابندیاں

مغربی طاقتوں نے روس کے خلاف اب تک کی سب سے سخت پابندیاں عائد کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے، جس کا مقصد اسے عالمی معیشت سے الگ کرنے کے ساتھ ساتھ ولادی میر پوتن کو سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔

ان پابندیوں سے روس سے باہر صارفین کو بھی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ روس دنیا کے بہت سے ممالک کو اناج فراہم کرنے والا ملک ہے اور یورپی ممالک اب بھی ماسکو کی جانب سے فراہم کیے جانے والے تیل پر انحصار کرتے ہیں۔ اگرچہ یورپی یونین نے روسی تیل پر محدود پابندی پر اتفاق کیا ہے، لیکن گیس پر پابندی ایک اور قدم کی نشاندہی کرے گی۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق حال ہی میں یوکرین کی حمایت میں یورپی یونین کے ممالک نے روس سے درآمد کیے جانے والے تیل پر رواں سال کے آخر تک پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اطلاق صرف سمندر کے راستے درآمد ہونے والے 90 فیصد تیل پر ہو گا لیکن پائپ لائن سے تیل کی ترسیل ہنگری کو جاری رہے گی۔

واضح رہے کہ روس سے بذریعہ پائپ لائن تیل کی فراہمی ہنگری، سلوواکیہ اور چیک جمہوریہ کو ہوتی ہے جو یوکرین سے ہو کر گزرتی ہے۔

اس جنگ کے اثرات دنیا بھر میں محسوس کیے جا رہے ہیں، جس سے اقتصادی ترقی، سپلائی چین اور خوراک اور توانائی کے شعبوں پر اثر پڑ رہا ہے۔

افریقی گورننس اینڈ ڈپلومیسی پروگرام کے سربراہ سٹیون گرزڈ کہتے ہیں کہ اس جنگ نے خوراک کے بحران کا خدشہ پیدا کر دیا ہے، خاص طور پر شمالی افریقی ممالک میں، جو روسی درآمدات پر انحصار کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’کون جانتا ہے کہ اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟ بغاوت ہو سکتی ہے، احتجاج ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اگرچہ یہ جنگ بہت دور لڑی جارہی ہے لیکن اس باہم جڑی ہوئی دنیا کے جنوبی حصے میں اسے یقینی طور پر بہت محسوس کیا جا رہا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا