سینیٹ کا بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے احتجاج کا فیصلہ

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے بیان میں کہا ہے کہ ’یہ افسوس ناک عمل مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‘

بی جے پی کی خاتون ترجمان نوپور شرما نے ٹی وی پر جبکہ نوین کمار نے سوشل میڈیا ویب سائٹ پر اسلام مخالف بیان دیا تھا (تصویر: نوپور شرما/نوین کمار/ ٹوئٹر)

بھارت میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو رہنماؤں کی جانب سے پیغمبر اسلام سے متعلق ’توہین آمیز بیانات‘ پر پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف سے شدید ردعمل دیکھا جا رہا رہے۔

اس حوالے سے بھارت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس سے معافی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جبکہ ’بائیکاٹ انڈیا‘ کے ساتھ ساتھ بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔

اس تناظر میں کویت سمیت بعض ممالک نے پہلے ہی بھارتی مصنوعات پر پابندی عائد کر دی ہے۔

بھارت پر تنقید کا سلسلہ تو گذشتہ روز سے ہی شروع ہو گیا تھا، جب پاکستان اور سعودی عرب سمیت متعدد اسلامی ممالک کی جانب سے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے بی جے پی کے رہنماؤں کے بیانات کو ’اسلاموفوبیا‘ قرار دیا گیا تھا۔

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو رہنماؤں کی جانب سے پیغمبر اسلام کے بارے میں گستاخانہ بیان پر اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت پیر کو ہونے والے اجلاس میں خود چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ ’ہم اس مسئلے پر خود جاکر بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے احتجاج کریں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جمعہ کو سینیٹ اراکین نماز کے بعد پارلیمنٹ سے بھارتی ہائی کمیشن تک واک کریں گے اور وہاں جا کر احتجاج کریں گے۔

اس حوالے سے پیر کو پاکستان فوج کی جانب سے بھی ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں پیغمبر اسلام سے متعلق ’توہین آمیز‘ بیانات کی مذمت کی گئی ہے۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے بیان میں کہا ہے کہ ’یہ افسوس ناک عمل مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’بھارت میں مسلمانوں اوراقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔‘

اس سے قبل وزیراعظم پاکستان اور دفتر خارجہ کی جانب سے بھی مذمتی بیانات دیے گئے تھے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’میں ہمارے پیارے پیغمبر کے بارے میں بیان کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ مودی کے اقتدار میں بھارت مذہبی آزادی کو ختم کر رہے اور مسلمانوں سے برا رویہ رکھ رہا ہے۔‘

پاکستانی وزارت خارجہ نے بھی مذمتی پیغام میں کہا کہ بی جے پی کے اراکین کے الفاظ سے پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔

وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت میں ’مسلمانوں کو منظم طریقے سے بدنام کیا جا رہا ہے۔‘

بھارت کا ردعمل

دیگر ممالک کی جانب سے تنقید اور مذمت پر تو بھارت کا کوئی بیان یا ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم پاکستان کے وزیراعظم اور وزارت خارجہ کے بیانات پر بھارت نے اظہار خیال ضرور کیا ہے۔

اس حوالے سے بھارت کی وزارت برائے خارجہ امور نے اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان میں پاکستان کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کا جواب دیا ہے۔

بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے پاکستانی وزیر اعظم اور وزارت خارجہ کے بیانات کے بارے میں سوالات کے جواب میں کہا کہ ’ہم نے بیانات اور تبصرے نوٹ کر لیے ہیں۔‘

ترجمان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اقلتیوں کے حقوق کی خلاف ورزی کے کئی واقعات میں ملوث ہے اور دوسرے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک پر اس کے بیان کا مضحکہ خیز ہونا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔‘

بھارتی ترجمان کے مطابق ’دنیا پاکستان میں ہندوؤں، سکھوں، احمدیوں اور مسیحی برداری سمیت اقلیتوں پر ہونے والے منظم جبر سے آگاہ ہے۔‘

ترجمان کا کہنا ہے کہ ’بھارتی حکومت تمام مذاہب کا اعلیٰ ترین سطح پر احترام کرتی ہے۔ یہاں صورت حال پاکستان جیسی نہیں جہاں انتہاپسندوں کی تعریف کی جاتی اور یادگاریں تعمیر کی جاتی ہیں۔‘

’ہم پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ خطرے کی گھنٹی بجانے والے پروپیگنڈے اور بھارت میں برادریوں کے درمیان انتشار کو ہوا دینے کی کوشش کرنے کی بجائے اپنی اقلیتی برادریوں کی حفاظت، سلامتی اور بہبود پر توجہ دے۔‘

ہوا کیا تھا؟

بھارتی ٹی وی چینل ’ٹائمز ناؤ‘ نے چند روز قبل بنارس کی گیان واپی مسجد کے وضو خانے سے ملنے والی مبینہ شیو لنگ پر ایک مباحثہ منعقد کیا تھا۔

اس مباحثے کے دوران جب بی جے پی کی قومی ترجمان نوپور شرما اور مسلم پولیٹیکل کونسل آف انڈیا نامی تنظیم کے صدر ڈاکٹر تسلیم رحمانی کے درمیان سخت لفظوں کا تبادلہ ہوا تو نوپور شرما نے پیغمبر اسلام اور ان کی اہلیہ حضرت عائشہ کے لیے ’توہین آمیز الفاظ‘ استعمال کیے۔

نوپور شرما کے الفاظ سن کر ڈاکٹر تسلیم رحمانی بطور احتجاج یہ مباحثہ چھوڑ کر چلے گئے۔

ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے بعد ازاں بی جے پی، نوپور شرما، ٹائمز ناؤ اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کو ایک قانونی نوٹس بھیجا، جس کا ابھی کسی نے بھی جواب نہیں دیا ہے۔

دوسری طرف نوپور شرما اپنے بیان پر ڈٹی نظر آئیں اور دعویٰ کرتی رہیں کہ انہیں ریپ اور قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔

انہوں نے ایک ٹی وی چینل کو بتایا کہ ’ٹی وی مباحثے کے دوران میں نے جو کچھ کہا وہ میں نے ایک مذہب کی کتابوں کے حوالے سے کہا ہے۔ اگر میں نے کچھ غلط کہا ہے تو کوئی عالم سامنے آ کر مجھے غلط ثابت کریں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا