امریکہ: بھارتی نژاد بچے ہی سپیلنگ بی مقابلے کیوں جیتتے ہیں؟

گذشتہ 20 برس سے بھارتی نژاد امریکی ہی سکرپس نیشنل سپیلنگ بی میں چھائے ہوئے ہیں، گذشتہ 23 فاتحین میں سے 21 کا تعلق جنوبی ایشیا کی نسلوں سے تھا۔

دو جون 2022 کو 14 سالہ ہارینی لوگن نے امریکی ریاست میری لینڈ میں سپیلنگ مقابلے کے فائنل میں فتح حاصل کی (اے ایف پی) 

امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر سان انتونیو سے تعلق رکھنے والی خوش مزاج 14 سالہ لڑکی ہارینی لوگن نے رواں برس دو جون کو تاریخ رقم کر دی۔ وہ باہر ہونے اور بعد میں بحال کیے جانے کے بعد سکرپس نیشنل سپیلنگ بی جیتنے والی پہلی چمپئن بن گئیں۔ وہ لائٹنگ راؤنڈ کے ٹائی بریکر میں بھی رنر اپ کے ساتھ سبقت حاصل کرنے والی پہلی فاتح بنیں۔

لیکن یہ حقیقت کہ وہ بھارتی نژاد امریکی شہری ہیں، ایک ایسا گروہ جو امریکہ کی مجموعی آبادی کا 1.3 فیصد بنتا ہے، حیرانگی میں کوئی اضافہ نہیں کرتی۔ گذشتہ 20 برس سے بھارتی نژاد امریکی ہی سکرپس نیشنل سپیلنگ بی میں چھائے ہوئے ہیں، گذشتہ 23 فاتحین میں سے 21 کا تعلق جنوبی ایشیا کی نسلوں سے تھا۔ دو استثنائی مثالوں میں ایک 14 سالہ  زالیہ آواں گارد بھی ہیں۔ 2021 میں یہ مقابلہ جیتنے پر وہ امریکہ کی پہلی سیاہ فام سکرپس نیشنل سپیلنگ بی چمپیئن بنی تھیں۔ 

سپیلنگ بی ہوتا کیا ہے؟

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ سپیلنگ یا ہجوں کا مقابلہ ہوتا ہے جس میں شرکا کو کہا جاتا ہے کہ وہ انگریزی الفاظ کے درست ہجے بتائیں۔ سپیلنگ بی میں حصہ لینے والوں کو ہزاروں الفاظ کے ہجے یاد رکھنا پڑتے ہیں، جنہیں وہ مقابلے کے دوران ججوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

جوں جوں مقابلہ آگے بڑھتا ہے، الفاظ مشکل سے مشکل تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔

آخر میں جس لفظ پر ہارینی نے میدان مارا، وہ Moorhen تھا، جو ایک پرندے کا نام ہے۔

آخر میں انتہائی مشکل الفاظ کے ہجے پوچھے جاتے ہیں جو کبھی عام گفتگو میں استعمال نہیں ہوتے بلکہ صرف ڈکشنروں میں زندہ رہتے ہیں۔

سپیلنگ بی کے مقابلوں کا آغاز 1808 میں امریکہ سے ہوا لیکن اس کے بعد یہ دوسرے ملکوں میں بھی شروع ہو گئے۔

پاکستان میں بھی سپیلنگ بی کے مقابلے کروائے جاتے ہیں، لیکن وہ سرکاری سطح پر نہیں بلکہ انگریزی کے ایک اخبار کے زیرِ اہتمام ہوتے ہیں۔

 

تعلیمی ٹریک  

2020 میں کرونا وائرس کی وبا کے باعث سپیلنگ بی مقابلہ منسوخ کر دیا گیا تھا لیکن 2019 کے مشترکہ طور پر چمپئین قرار پانے والے آٹھ لوگوں میں سات بھارتی نژاد امریکی تھے۔ 

یہاں تک کہ اس دلچسپ قصے پر ایک دستاویزی فلم بھی بنی ہے ’سپیلنگ دا ڈریم‘ (Spelling the Dream) لیکن میرا دعویٰ ہے کہ ان مقابلوں سے بھارتی نژاد امریکیوں کی وابستگی کا جزوی سبب اعلیٰ تعلیم میں درپیش رکاوٹیں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی کامیابیاں نادانستہ طور پر تعلیم کے شعبے میں عدم مساوات کی خلیج مزید گہری کر رہی ہیں۔ 

میں نے اپنی کتاب ’ہائپر ایجوکیشن: کیوں اچھے سکول، اچھے گریڈز اور اچھا طرز عمل کافی نہیں‘ (Hyper Education: Why Good Schools, Good Grades, and Good Behavior Are Not Enough) کی تحقیق کے دوران سپیلنگ بی، ریاضی اور سکول کے بعد کے دیگر مقابلوں میں حصہ لینے والے بھارتی نژاد امریکیوں، سفید فام اور دیگر خاندانوں کے ساتھ کئی سال گزارے۔

میں نے ایک باب میں یہی چیز واضح کرنے کی کوشش کی کہ بھارتی نژاد امریک ہی مقابلوں میں کیوں سبقت لے جاتے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان بچوں کی کامیابی میں ان کے خاندان کا مکمل تیاری کے لیے درکار وقت اور پیسہ ثابت قدمی کے ساتھ خرچ کرنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ بچے محض سپیلنگ بیز میں ہی نہیں بلکہ جغرافیہ، ریاضی اور دیگر تعلیمی مقابلوں میں بھی دوسروں سے آگے نکل جاتے ہیں۔ 

میری کتاب کا بیشتر حصہ ایک اور چشم کشا سوال کو زیر بحث لاتا ہے کہ بالآخر خاندان والے ایسے مقابلوں، اعلیٰ تعلیم اور اس سے جڑے مضمرات کو اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں۔

زیادہ تر امریکی بچے سکول سے باہر کھیل، فنون لطیفہ، مذہبی یا شہری سرگرمیاں میں فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ بھارتی تارکین وطن بچے بھی ان میں حصہ لیتے ہیں لیکن ان میں سے بہت سوں کے والدین غیر نصابی تعلیمی اقدامات بالخصوص مسابقتی سرگرمیوں میں بھی کم از کم قسمت آزمانے پر مجبور کرتے ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2011 اور 2018 کے درمیان میری جن 100 سے زیادہ بھارتی نژاد امریکی والدین سے بات ہوئی ان کا خیال تھا کہ ایک ممتاز یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے ان کے بچوں کا تعلیمی ریکارڈ ناقابلِ ترید حد تک مضبوط ہونا چاہیے تاکہ وہ کمزور تعلقات اور والدین کی کالج کی تعلیم نہ ہونے کے نقصان کی تلافی کر سکے۔

والدین کو یہ فکر بھی ہوتی ہے کہ کالج ایڈمشن افسران ان کے بچوں سے ایشیائی امریکی ہونے کے ناطے ٹیسٹ میں متوقع نمبروں کی نسبت زیادہ غیر معمولی کارکردگی کی توقع رکھتے ہیں۔

سپیلنگ مقابلے میں شرکت کرنے والے ایک بچے کے والد نے کالج میں داخلے کے مخصوص ایس اے ٹی (SAT) ٹیسٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا، ’ہمیں دوسرے گروہوں کی نسبت 130 پوائنٹس زیادہ حاصل کرنا ہوں گے۔‘

انہوں نے مجھے یقین دہانی کروائی کہ ٹیوشن سنٹرز اور سپیلنگ بیز ان کی بیٹی کو زیادہ نمبر حاصل کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔ اس رویے کا اظہار دیگر والدین اور بچوں کی جانب سے بھی اسی طرح ملتا ہے۔ 

سکول کے بعد کے تعلیمی مراحل میں بالآخر کالج کے مزید کڑے مسابقتی امتحانات کے لیے اپنے بچوں کو تیار کرنا ان تارکین وطن والدین کے لیے یوں قابل فہم ہے کہ اپنے بچپن میں وہ ایسی ہی تیاریوں سے گزرے ہوتے ہیں۔

میرا خیال ہے یہ بالکل فطری بات ہے کہ والدین اسی چیز کو فروغ دیں جس سے وہ خود زیادہ بہتر طریقے سے واقف ہوں اور ان میں سے اکثر والدین نے اعلیٰ درجے کی ڈگریوں اور انتہائی سخت تعلیمی توقعات کے ساتھ پرورش پائی ہوتی ہے۔ 

کامیابی کی قیمت 

چونکہ بھارتی امریکی بچے امتحانات میں اپنی کارکردگی اور دیگر تعلیمی ریکارڈز بہتر بنانے کے لیے الفاظ کے مطالعے، الجبرا اور دیگر ذہنی مقابلوں میں مہارت کا سہارا لیتے ہیں سو اس طرح وہ نادانستہ طور پر اس رجحان میں حصہ ڈالتے ہیں جسے میں تشویش ناک سمجھتی ہوں، یعنی زیادہ اور کم آمدنی والے خاندانوں کے درمیان تعلیمی تفاوت میں اضافہ۔ 

ان مقابلوں میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اکثر اوقات سینکڑوں یا ہزاروں ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ مقابلے کی تیاری میں مہارت رکھنے والے ایک پبلشر ہیکسکو (Hexco) آٹھ کوچنگ سیشنز کے ورڈ گائیڈز اور پیکیجز ایک ہزار 725 ڈالر کے فروخت کرتے ہیں۔ 

ان کی ویب سائٹ کے مطابق 2019 میں ’سکرپس کے آخری مراحل میں پہنچنے والے‘ بچوں میں 94 فیصد ’ہیکسکو کے صارفین تھے۔‘ 

بھارتی امریکیوں کی اوسط گھریلو آمدنی ایک لاکھ 19 ہزار ڈالر ہے جو قوم کی بحیثیت مجموعی اوسط آمدن 85 ہزار 800 ڈالرز سے اچھی خاصی زیادہ ہے۔ ان میں سے بیشتر اس معاشی برتری کو اپنے بچوں کے گریڈز اور نمبرز میں اضافے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ 

لہٰذا بھارتی امریکی جب تعلیمی مقابلوں کی طرف اس فکرمندی کے سبب رخ کرتے ہیں کہ بصورت دیگر ان کے بچے مساوی مواقع حاصل نہیں کر سکیں گے تو اس عمل کے دوران وہ عدم مساوات کی اس خلیج کو مزید گہرا کر رہے ہوتے ہیں۔ 

اس کا تعلق عام طور پر زیادہ آمدنی والے خاندانوں میں اضافی تعلیم کے بڑھتے ہوئے رجحان سے ہے جس کا میں نے بھی مشاہدہ کیا ہے۔

 سکول کے بعد کی تعلیم کا حصول، چاہے مقابلوں کے ذریعے ہو یا ٹیوشن سنٹرز کے ذریعے، متوسط طبقے کے خاندانوں میں تیزی سے عام ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ مزید بڑھے گا۔ 2025 تک دنیا بھر میں محض آن لائن ٹیوشن کی صنعت تقریباً تین ارب ڈالر تک پھیلنے کا امکان ہے۔ 

جن وجوہات کے سبب والدین اتنی بھاری رقم خرچ کرتے اور اس عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ان کا تعلق ان کے نسلی پس منظر سے ہو سکتا ہے لیکن اس کا ایک نتیجہ ہوبہو برآمد ہوتا ہے: تعلیمی شعبے کے اندر عدم مساوات میں اضافہ۔ 


یہ تحریر پہلے ’دا کنورسیشن‘ پر چھپی تھی۔ یہاں اس کا اردو ترجمہ اجازت سے چھاپا جا رہا ہے۔ اس کے مصنف پون ڈھنگڑا امریکی ریاست نیویارک میں واقع ایمہرسٹ کالج میں سوشیالوجی اور امیریکن سٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس