’بیس گھرانے ہیں آباد اور کروڑوں ہیں ناشاد‘

صدر ایوب خان کے دور میں پاکستان کے ایک ماہر اقتصادیات محبوب الحق نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کی قومی دولت کے 60 سے 80 فیصد حصے پر صرف ’22 خاندان‘ قابض ہیں اور اب بھی کچھ یہی صورت حال ہے۔

ڈاکٹر محبوب الحق پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور منصوبہ بندی رہ چکے ہیں (فوٹو پبلک ڈومین)

صدر ایوب خان کا عہد حکومت پاکستان میں صنعتی ترقی کے حوالے سے عہد زریں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے مگر اس ’عہد زریں‘ کے عین زمانہ عروج میں پاکستان کے ایک ماہر اقتصادیات جناب محبوب الحق نے یہ انکشاف کیا کہ پاکستان کی قومی دولت کے 60 سے 80 فیصد حصے پر صرف ’22 خاندان‘ قابض ہیں۔

محبوب الحق، جو ان دنوں قومی اسمبلی کے رکن بھی تھے، نے 15 جون 1964کو بجٹ پر تقریر کرتے ہوئے یہ انکشاف کرکے سب کو حیران کردیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ان 22 خاندانوں نے صنعتی اداروں کے 66 فیصد، بیمہ کمپنیوں کے 79 فیصد اور بینکوں کے 80 فیصد سرمائے پر تصرف کر رکھا ہے۔

محبوب الحق کی اس تقریر کا اخبارات میں بڑا چرچا ہوا۔ حزب اختلاف نے بھی اس حوالے سے حکومت پر کڑی تنقید کی اور حبیب جالب نے اپنی مشہور نظم ’بیس گھرانے‘ تحریر کی۔ جس کا پہلا شعر ایوب خان کی حکومت کے خلاف فرد جرم بن گیا۔ یہ شعر تھا؎

بیس گھرانے ہیں آباد

اور کروڑوں ہیں ناشاد

صدر ایوب زندہ باد

محبوب الحق کے اس انکشاف کی بنیاد وزارت مالیات کے ایک اعلیٰ افسر جناب ظہیر الدین کی کریڈٹ کمپنی کی رپورٹ پر استوار کی گئی تھی۔ انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ جدولی اور تجارتی بینکوں نے عوام کی امانتوں میں سے جو روپیہ کاروباری طبقے کو ادھار دینے کے لیے مخصوص کر رکھا ہے اس میں بڑی بڑی رقوم معدودے چند خاندان کے افراد نکلوا کر لے جاتے ہیں اور نام بدل بدل کر ان سے استفادہ کرتے رہتے ہیں۔

اس کمیٹی نے بتایا کہ 22 دسمبر 1957 کو صرف 23 شخصیات ایسی تھیں، جنہیں 33 کروڑ 83 لاکھ روپے بطور قرض دیا گیا تھا۔ 31 مارچ 1959 تک ان افراد کی تعداد بڑھ کر 31 اور 31 دسمبر 1961 تک41 ہوگئی۔ ان 41 افراد کو جو رقوم بطور قرض دی گئی تھیں وہ 62کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ 1961 میں اسی بات کو منصوبہ بندی کمیشن کے شعبہ تحقیق کے سربراہ مسٹر آر ایچ کھنڈیکر نے آگے بڑھایا اور ان کی تحقیق کی بنیاد پر 64-1963 کے بجٹ میں وزیر خزانہ مسٹر محمد شعیب نے انکشاف کیا کہ بینکوں نے جو رقم ادھار کے لیے علیحدہ کر رکھی ہے اس سے صرف 20 خاندان مستفیض ہورہے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان خاندانوں نے جو شراکتی ادارے اور لمیٹڈ کمپنیاں بنا رکھی ہیں ان کے بیشتر حصص پر ان کی یا ان کے عزیز رشتے داروں کی اجارہ داری قائم ہے۔ اس کے بعد مشرقی پاکستان کے ماہر مالیات ڈاکٹر ایم این ہدیٰ نے کہا کہ پاکستان کی قومی دولت کے 60 سے 80 فیصد حصے پر صرف 22 خانوادے قابض ہیں۔ یہی بات 15 جون 1964 کو ڈاکٹر محبوب الحق نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہی اور یوں یہ انکشاف ان سے ہی منسوب ہوگیا۔

ڈاکٹر محبوب الحق کے اس انکشاف کا ذوالفقار علی بھٹو نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور جب انہوں نے 1968 میں صدر ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تو ڈاکٹر محبوب الحق کی اس تقریر کو اپنی تحریک کا مرکزی نکتہ بنادیا۔

بعد ازاں 22 خانوادوں کے بارے میں ممتاز محقق جناب اے آر شبلی نے ایک کتاب بھی تحریر کی، جس کا نام اگرچہ ’22 خانوادے‘ تھا مگر اس میں پاکستان کے صف اول کے 30 خاندانوں کا کچا چٹھا بیان کیا گیا تھا۔

اے آر شبلی کی تحقیق کے مطابق یہ 30 خاندان حسب ذیل تھے۔ احمد داؤد، آدم جی، باوانی، سہگل، امیر علی فینسی، رنگون والا، اصفہانی، نصیر اے شیخ، قاسم دادا، خٹک فیملی، حبیب، میاں محمد امین محمد بشیر، ولیکا، سید واجد علی شاہ، رستم کاوس جی، ہارون، سی ایم لطیف، رانا خداداد، ریاض خالد، نون، ہوتی ، حاجی دوسہ، حاجی دوست محمد، حاجی اے کریم، منوں خاندان، حئی سنز، ظفر الاحسن، مولا بخش، تاجی محمد خانزادہ اور فقیر فیملی۔

صدر ایوب خان کے عہد حکومت میں پاکستان کے جو 22 خانوادے صنعتی افق پر ابھرے تھے ان میں سے کچھ تو آج موجود ہی نہیں اور کچھ اپنی سابق پوزیشن سے کہیں نیچے جاچکے ہیں۔ اس دوران ایسے بہت سے خاندان ابھر کر سامنے آچکے ہیں جن کے تجارتی ہتھکنڈوں کے آگے اس زمانے کے داؤد، باوانی، ولیکا اور اصفہانی بھی شرماتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو نے 1970 کے عام انتخابات میں نعرہ بلند کیا کہ وہ ملک کے نظام کو بدلنا چاہتے ہیں۔ عوام ان کے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کے دیوانے بن گئے اور انہیں اپنے اعتماد سے نوازا مگر جب وہ برسر اقتدار آئے تو انہوں نے صنعتوں کو قومیا کر یہ فرض کرلیا کہ ہمارے معاشی مسائل حل ہوجائیں گے، مگر ہوا یہ کہ پاکستان میں صنعتی ترقی کا پہیہ رک گیا، ملک کا سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوگیا اور وہ پاکستان جس کی معاشی پالیسیوں کا مطالعہ کرنے کے لیے دوسرے ملک کے ماہرین پاکستان آیا کرتے تھے، آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا غلام بن کر رہ گیا۔

جنرل ضیا الحق کے زمانے میں وہ سرمایہ دار جو جرنیلوں کو نوازنے کا ہنر جانتے تھے اپنی بہت سے صنعتیں واپس لینے میں کامیاب ہوگئے اور ان میں سے بعض نے ایسی ترقی کی، جس کی توقع شاید وہ خود بھی نہیں کرسکتے تھے۔

مثال کے طور پر وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کا اتفاق گروپ جو 1970 میں پاکستان کے 42 بڑے خاندانوں میں بھی شامل نہیں تھا، امارت کے لحاظ سے 1990 میں 25 ویں نمبر پر اور 1997 میں پانچویں نمبر پر پہنچ گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ میمن، بوہرے، خوجے اور اسماعیلی، تجارت جن کی گھر کی لونڈی سمجھی جاتی تھی، چنیوٹیوں کے ہاتھوں مات کھا گئے۔ 1990 میں نجکاری کے نام پر صنعتی اداروں کی بندر بانٹ کا عمل شروع ہوا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں ہی کے عہد میں بھٹو کے دور میں قومیائے گئے ادارے کہیں اونے پونے داموں اور کہیں مفت، پرانے مالکان کو واپس کردیئے گئے، ساتھ میں انہیں کروڑوں روپے کے قرضے دیئے گئے اور اسی پر بس نہ چلا تو کچھ عرصے بعد یہ قرضے معاف کردیئے گئے۔

اس وقت پاکستان کے امیر ترین صنعتی خاندان کون سے ہیں، ان کے بارے میں کوئی مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں ہے، تاہم جو 20 افراد اس وقت پاکستان کے امیر ترین افراد سمجھے جاتے ہیں ان میں شاہد خان، سر انور پرویز، میاں محمد منشا، صدر الدین ہاشوانی، آصف علی زرداری، ملک ریاض، نواز شریف، ایم حبیب اللہ خان، ناصر حسین شون، محمد ظہور، رفیق ایم حبیب، طارق سعید سہگل، دیوان یوسف فاروقی، سلطان علی لاکھانی، سیٹھ عابد حسین، میاں محمد لطیف، حاجی عبدالغفور، شیخانی فیملی، بہرام ڈی آواری اور حسین داؤد کے نام شامل ہیں۔

ڈاکٹر محبوب الحق کون تھے؟

ڈاکٹر محبوب الحق 1934 میں جموں میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے معاشیات میں ایم اے کیا اور پھر کیمبرج یونیورسٹی اور ییل یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

1955 میں وہ پاکستان کے پلاننگ کمیشن سے وابستہ ہوگئے۔ انہوں نے دوسرے اور تیسرے پانچ سالہ منصوبے کے مسودے تیار کیے۔ 1962 میں وہ قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ 1964 میں انہیں اس وقت پاکستان گیر شہرت حاصل ہوئی جب انہوں نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ پاکستان کی قومی دولت کے 60 سے 80 فیصد حصے پر پاکستان کے 22 خاندان قابض ہیں۔

1970 سے 1982 تک ڈاکٹر محبوب الحق عالمی بینک سے وابستہ رہے۔ 1982 میں وہ جنرل ضیا الحق کی دعوت پر پاکستان آئے اور پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین کے منصب پر فائز ہوئے۔ اس حیثیت پر انہوں نے چھٹے پانچ سالہ منصوبے (1983 تا 1988) تدوین میں حصہ لیا۔

1985 میں وہ سینیٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے اور وزیر خزانہ اور منصوبہ بندی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ڈاکٹر محبوب الحق نے معاشیات اور انسانی ترقیات کے موضوع پر بے شمار مقالات لکھے اور کئی کتابیں تصنیف کیں۔ وہ شعر و ادب سے بھی لگاؤ رکھتے تھے اور انہوں نے غالب، اقبال اور فیض کے کلام کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا۔

ڈاکٹر محبوب الحق 16جولائی 1998 کو نیویارک میں وفات پاگئے اور اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد جی سی یونیورسٹی لاہور نے اپنے اکنامکس ڈپارٹمنٹ میں ان کے نام پر ایک چیئر قائم کی جبکہ حکومت پاکستان نے انہیں نشان امتیاز کا اعزاز عطا کیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین