بھٹو مخالف تحریک چلانے والی جماعتیں کہاں کھڑی ہیں؟

ایسی کئی جماعتوں اور سیاسی شخصیات کی باقیات آج بھی ہماری سیاست کا اہم حصہ ہے جس نے آج سے 45 سال قبل بھٹو کے خلاف ہنگامہ خیز تحریک چلائی تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے 43 سال بعد بھی ’بھٹو زندہ ہے‘ کا نعرہ لگایا جاتا ہے (اے ایف پی)

(ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقعے پر خصوصی تحریر)

سات جنوری 1977 کو وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے اچانک قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر کے بھونچال برپا کر دیا۔

الیکشن کا جلد سے جلد انعقاد حزب اختلاف کی خواہش ہوتی ہے لیکن یہاں معاملہ الٹ تھا۔ منتخب وزیراعظم دو ماہ کے اندر اندر نئے الیکشن کی بات کر رہے تھے اور حزب اختلاف کا یہ حال تھا جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔

ایسا نہیں کہ اپوزیشن سو رہی تھی بلکہ تقریباً گذشتہ چار برس سے یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ نامی اتحاد کے ذریعے بھٹو کا مقابلہ کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کر رہی تھی۔ لیکن بھٹو کی طرف سے ڈیڑھ سال قبل نئے انتخابات کا اعلان اس کے لیے غیر متوقع تھا۔

جواب میں اپوزیشن نے بھی بھٹو کو حیرت میں ڈال دیا۔ صدر پاکستان فضل الٰہی نے 10 جنوری 1977 کو وزیراعظم کی سفارش پر اسمبلی تحلیل کی اور اسی روز اپوزیشن کا ایک نیا اتحاد پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) کے نام سے سامنے آ گیا۔

یہ اتحاد یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کی ہی توسیعی شکل تھا جس میں اصغر خان اور شاہ احمد نورانی کی شمولیت کے بعد اسے پاکستان نیشنل الائنس کا نام دیا گیا۔ اس کے صدر مفتی محمود، نائب صدر نوابزادہ نصراللہ اور جنرل سیکریٹری رفیق احمد باجوہ تھے۔

یہ کنبہ نو جماعتوں پر مشتمل تھا: تحریک استقلال، پاکستان مسلم لیگ، جماعت اسلامی، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی، خاکسار تحریک، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس۔

نو ستاروں کے نام سے مشہور ہونے والے اس اتحاد نے 23 جنوری 1977 کے دن کراچی کے نشتر پارک سے انتخابی مہم کا آغاز کیا۔ عوام کی حاضری بھٹو ہی نہیں اپوزیشن کی توقعات سے بھی زیادہ تھی۔ ہمیشہ ضرورت سے زیادہ پراعتماد بھٹو اب بھی پرامید تھے کہ وہ دو تہائی اکثریت لے جائیں گے۔

سات مارچ کو بھٹو کی تلوار اپنی چمک سے نو ستاروں کو گہنا دینا چاہتی تھی۔ دوسری طرف اے این پی کا ہل بھٹو کی سیاست جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کو تیار تھا۔

 بھٹو کے خلاف قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 660 نشستوں پر پی این اے کے مشترکہ امیدوار مقابلہ کر رہے۔ بھٹو 155 جبکہ اپوزیشن اتحاد قومی اسمبلی کی محض 36 نشستیں حاصل کر سکا۔ دھاندلی کا شور بلند ہوا اور پی این اے نے 10 مارچ کو ہونے والے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔

 بھٹو اپوزیشن کو مذاکرات کی میز پر لے آئے۔ تقریباً چار ماہ بعد مذاکرات کامیاب ہو چکے تھے کہ فوجی بوٹوں کی چاپ سنائی دی۔ بھٹو کے’فرمان بردار‘ چیف آف آرمی سٹاف نے مارشل لا نافذ کر دیا۔ 90 روز میں شفاف انتخابات کی بات کرنے والے ضیا الحق 11 سال بعد ’جہاز‘ سے اترے۔

بھٹو پھانسی کا پھندا چوم کر امر ہو گئے۔ ان کی وراثت ورثے میں تبدیل ہوئی اور بعد میں پاکستان پیپلز پارٹی تین بار مرکزی حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ پی این اے کا اتحاد محض بھٹو مخالف جذبات پر کھڑا تھا، سو مارشل لا لگتے ہی دھڑام سے جا گرا۔

نومبر 1977 میں اصغر خان اور 1978 کے اوائل میں شاہ احمد نورانی اور شیرباز مزاری اتحاد سے الگ ہو گئے۔ جماعت اسلامی نے ’اقامت دین‘ کی خاطر جبکہ مسلم لیگ نے ’نظریہ پاکستان‘ کی سربلندی کے لیے ضیاء الحق کی کابینہ میں شمولیت کا ’اصولی فیصلہ‘ کیا۔ مفتی محمود اور نواب زادہ نصراللہ 80 کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر تحریک بحالی جمہوریت میں نظر آئے۔

اتحاد ٹوٹ گیا لیکن اس میں شامل سیاسی جماعتوں کا سفر جا رہا۔ کچھ محض چار قدم چلیں اور ہانپ کر رہ گئیں۔ کچھ آج بھی فعال سیاسی کردار ادا کررہی ہیں۔ آئیے پاکستان نیشنل الائنس میں شامل تمام جماعتوں کے اگلے سیاسی سفر کا جائزہ لیتے ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام

جمعیت علمائے ہند کی کوکھ سے جنم لینے والی اس جماعت کے سربراہ مفتی محمود یکم مارچ 1972 کو خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ ابھی ایک ہی سال گزرا تھا کہ بھٹو نے بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم کر کے گورنر راج نافذ کر دیا۔ اپنی اتحادی جماعت سے اظہار یک جہتی کے لیے مفتی محمود نے اپنی کابینہ سمیت استعفیٰ دے دیا۔ مفتی صاحب بعد میں پی این اے اور اس کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ رہے۔

مفتی محمود کی وفات کے بعد ان کے بیٹے مولانا فضل الرحمٰن جمعیت علمائے اسلام کے جنرل سیکریٹری اور پھر امیر بنے۔ 1988 کے انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف بننے والے اتحاد کا حصہ نہیں بنی اور اپنے طور پر سات نشستیں حاصل کیں۔ 90 کی دہائی میں مولانا کا سیاسی سفر کچھ زیادہ قابل ذکر نہیں رہا۔ لیکن اکیسویں صدی شروع ہوتے ہی ان کا آفتاب نصف النہار پر آن کھڑا ہوا۔

 2004 سے لے کر 2007 تک مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے مولانا فضل الرحمٰن اپوزیشن لیڈر جبکہ 2008 سے 2018 تک کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے۔

مولانا فضل الرحمٰن عمران خان کے سخت ترین ناقدین میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ آج کل پاکستان تحریک انصاف کے خلاف 2020 میں بننے والے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ ہیں جن کی سیاسی بصیرت کا اقرار ان کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔

تحریک استقلال

ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان کی جماعت پاکستان تحریک استقلال 1970 کی ہنگامہ خیز دہائی میں بعض حلقوں کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی کا توڑ سمجھی جاتی تھی۔ اصغر خان کو بھی ابھی خاصی خوش فہمی تھی کہ وہ بھٹو سے کہیں زیادہ سیانے سیاستدان ہیں۔

1977 کے انتخابات میں دھاندلی کے بعد اصغر خان بھٹو سے مذاکرات کے حامی نہیں تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ فوج اقتدار سنبھال لے، تب ہی شفاف الیکشن ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے عسکری قیادت کو بدنام زمانہ خط لکھ کر بھٹو کے ’غیر آئینی‘ اقدامات تسلیم کرنے سے انکار پر اکسایا۔

 جب ضیاء الحق 90 روز میں شفاف انتخابات کے وعدے سے مکرے تو اصغر خان کو اپنی متوقع وزارت عظمیٰ کا معاملہ کھٹائی میں پڑتا دکھائی دیا۔ اس کے بعد وہ ضیاء الحق کے مخالف ہو گئے۔

 تحریک استقلال کے سربراہ نے 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا جس سے تحریک استقلال کے بہت سے اہم لوگ پاکستان مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں میں چلے گئے۔ 77 کے الیکشن کے بعد فوج سے توقعات وابستہ کرنے کے علاؤہ یہ ان کی بدترین سیاسی غلطی تھی۔

بعد ازاں اصغر خان اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ بن کر طبع آزمائی کرتے رہے لیکن حالات موزوں نہ ہو سکے۔ وزارت عظمیٰ تک نہ پہنچ سکنے کا یقین ہوتے ہی وہ 1993 میں سپریم کورٹ چلے گئے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف بننے والے اتحاد میں غیر جمہوری عناصر کی فنڈنگ کا معاملہ اٹھایا۔

اصغر خان کو مبینہ طور پر طاقتور حلقوں نے بھٹو اور ان کی جماعت کے خلاف ’تیار‘ کیا تھا۔ جب اس کام کے لیے تازہ دم مسلم لیگ میدان میں اتری تو اصغر خان کی موجودگی بے معنی ہو کر رہ گئی۔ اس بات کا انہیں بہت دکھ رہا۔ 2012 میں یہ جماعت پی ٹی آئی میں ضم ہو گئی۔

جماعت اسلامی

معروف عالمِ دین مولانا مودودی نے 1941 میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی جو انتخابی سیاست میں معمولی کارکردگی کے باوجود ماضی میں بہترین پریشر گروپ رہا۔ 1970 میں 151 امیدوار کھڑے کرنے والی جماعت اسلامی قومی اور صوبائی اسمبلی کی کل ملا کر آٹھ سیٹیں جیت سکی تھی۔ اگر یہ نتائج بھیانک لگیں تو بعد کے انتخابی معرکے اٹھا کر دیکھ لیجیے، یہ اچھے خاصے غنیمت معلوم ہوں گے۔

 ضیاء الحق کے مارشل لا میں جماعت اسلامی کی خوب چاندنی ہوئی۔ یہ فوجی حکومت کی ’نظریاتی و سیاسی‘ حلیف بن گئی۔ پروفیسر غفور احمد، پروفیسر خورشید احمد اور محمد اعظم فاروقی وزارتوں پر فائز ہوئے۔ بطور وزیر اطلاعات و نشریات محمد اعظم فاروقی کی ذمہ داری ملکی اور غیر ملکی میڈیا کو یقین دلانا تھا کہ ہماری عدالتیں ’آزاد‘ ہیں۔

ضیاء الحق اور جماعت اسلامی کے درمیان کچھ ہی عرصے میں اختلافات ہو گئے۔ اپنی کرسی مضبوط کرنے کے بعد ضیاء الحق جماعت کی بیساکھیوں سے بے نیاز ہو چکے تھے۔ دوسری طرف جماعت مزید اختیارات چاہتی تھی۔

1972 سے لے کر اگلے 15 برس تک میاں محمد طفیل جماعت اسلامی کے امیر رہے۔ 1987 میں قاضی حسین احمد نے قیادت سنبھالی جنہیں 1996 میں بے نظیر کے خلاف دھرنے سے شہرت حاصل ہوئی۔ مشرف دور میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے جماعت اسلامی کو نئی زندگی ملی لیکن یہ نمائش بھی سراب سی تھی۔

90 کی دہائی تک جماعت اسلامی مشرف دور کے بعد مسلسل غیر موثر چلی آتی ہے۔ سید منور حسن کی واضح (اسٹیبلشمنٹ کو کھری کھری سنانے اور جہاد کی ڈٹ کر حمایت وغیرہ) اور سراج الحق کی غیر واضح حکمت عملی اونٹ کی کمر پر آخری تنکہ ثابت ہو رہی ہے۔

جمعیت علمائے پاکستان

جمعیت علمائے پاکستان کی بنیاد 1948 میں پڑی۔ 1970 کے انتخابات میں سات نشستیں جیتنے والی جمعیت شاہ احمد نورانی کے زیر قیادت پی این اے کی اہم اتحادی جماعت تھی۔ ضیاء الحق وہابی اسلام کا پرچار کرتے رہے، اس لیے سنی بریلوی مکتبہ فکر کی نمائندہ سیاسی جماعت اور فوجی ڈکٹیٹر کی کبھی آپس میں نہ بن سکی۔ صوفی سنی جماعت ہونے کے ناطے جمعیت علمائے پاکستان اسلام کا سخت گیر روپ قبول کرنے کو تیار نہ تھی۔

1980 کی دہائی میں جمعیت علمائے پاکستان تقسیم کا شکار ہو گئی جس کے بعد ایک گروہ کی قیادت شاہ احمد نورانی اور دوسرے کی عبد الستار نیازی کرتے رہے۔ سیاسی طور پر یہ جماعت سندھ تک محدود تھی جو کبھی بھی پورے ملک میں موجود بریلوی مکتبہ فکر کو اپنی جانب متوجہ نہ کر سکی۔

پہلے طاہر القادری اور بعد میں خادم رضوی اور ان کی جماعت کے سیاسی میدان میں اترنے کے بعد جمعیت علمائے پاکستان کی علامتی اہمیت بھی باقی نہیں رہی۔ آج کل شاہ احمد نورانی کے بیٹے شاہ اویس نورانی پی ڈی ایم کا حصہ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی

 1975 میں بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی لگائی تو یہ جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے نئے نام سے سامنے آ گئی جس کے سربراہ ولی خان بھٹو کے خلاف اپوزیشن لیڈر تھے۔

ولی خان کی قیادت میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی نیپ بھٹو کے مسلسل اعتاب کا شکار رہی۔

بھٹو نے بلوچستان میں نہ صرف نیپ کی حکومت ختم کی بلکہ 1975 میں حیات خان شیرپاؤ کے قتل کے بعد ولی خان سمیت اہم قائدین کو ’ریاست مخالف سرگرمیوں‘ کا الزام لگا کر گرفتار کر لیا۔ بعد میں یہ مقدمہ حیدرآباد ٹربیونل کے نام سے مشہور ہوا۔

پاکستان نیشنل الائنس کے وقت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی باگ ڈور شیرباز خان مزاری کے ہاتھ میں تھی۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی سے تعاون کرنے اور نہ کرنے کے معاملے پر مزاری اور ولی خان میں اختلاف پیدا ہوا۔

1986 میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بلوچستان اور سندھ سے تعلق رکھنے والی قوم پرست جماعتوں میں ضم کر دی گئی اور اس طرح عوامی نیشنل پارٹی وجود میں آئی جس کے صدر ولی خان اور جنرل سیکریٹری رسول بخش پلیجو تھے۔

ضیا دور کے بعد پی پی پی اور مسلم لیگ کے ساتھ مل کر عوامی نیشنل پارٹی انتخابی سیاست میں متحرک رہی لیکن صیحیح معنوں میں اس نے 2008 کے الیکشن میں دوبارہ انگڑائی لی اور خیبر پختونخوا میں اپنا وزیر اعلیٰ منتخب کروانے میں کامیاب ہوئی۔ امیر حیدر خان ہوتی کی حکومت خراب کارکردگی کی وجہ سے مسلسل تنقید کی زد میں رہی اور اگلے انتخابات میں عوام نے بری طرح مسترد کر دیا۔

2018 میں بھی عوامی نیشنل پارٹی لوگوں کا اعتماد حاصل نہ کر سکی اور پی ٹی آئی خیبر پختونخوا سے جیت گئی۔ طالبان کے خلاف بہادرانہ موقف اور بے شمار قربانیوں کے سبب جمہوریت پسند طبقے اس جماعت کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ آج کل یہ جماعت بھی پی ڈی ایم کا حصہ ہے۔

پاکستان مسلم لیگ

یہ فنکشنل مسلم لیگ اور کونسل مسلم لیگ کا ملغوبہ تھی جس کی قائدین میں پیر پگاڑہ، خواجہ محمد صفدر اور چودھری ظہور الہٰی جیسے لوگ شامل تھے۔ بھٹو کے شدید ترین مخالفین میں شامل پیر پگارا فطری طور پر ضیاء الحق کے قریبی ساتھی بن گئے۔ 1985 میں اسٹیبلشمنٹ نے محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا تو پیر پگارا نے اپنی ڈیڑھ اینٹ الگ رکھ لی۔ اپنے مریدوں کی وجہ سے پیر پگارا کی جماعت دو چار اور کبھی کبھار چھ سات سیٹیں نکال ہی لیتی ہے۔

مسلم لیگ کے متحرک رہنما خواجہ محمد صفدر 1962 میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اسٹیبلشمنٹ سے اپنے ہموار تعلقات کے سبب بہت تیزی سے مرکزی سیاسی دھارے میں اپنی جگہ بنا لی۔ ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کے چیئرمن رہنے والے خواجہ محمد صفدر 1985 میں قومی اسمبلی کے سپیکر بنتے بنتے رہ گئے۔ ضیاء الحق کے دست شفقت کے باوجود 22 مارچ کو ہونے والے مقابلے میں وہ 111 ووٹ حاصل کر سکے جب سید فخر امام 119 ووٹ لے کر منتخب ہو گئے۔ خواجہ صفدر کی سیاست ان کے بیٹے خواجہ آصف سنبھالے ہوئے ہیں جو نواز شریف کے قریبی ساتھی اور مسلم لیگ کے موجودہ پارلیمانی لیڈر ہیں۔

مسلم لیگ میں شامل بھٹو کے ایک اور کٹر مخالف اور اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والے فرد چودھری ظہور الٰہی تھے۔

 ایوب دور میں گورنر شپ کے لیے ایڑیاں رگڑنے والے چوہدری ظہور الٰہی کی مراد جولائی 1978 میں برآئی۔ بھٹو دور میں ’حقیقی جمہوریت‘ کی بحالی کا نعرہ لگانے والے چودھری صاحب نے حقیقی مارشل لا میں وزرات سنبھالتے ہوئے دیر نہ لگائی۔

25 ستمبر 1981 کو لاہور میں ان کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی۔ گاڑی میں موجود بدنام زمانہ جسٹس مولوی مشتاق اور بھٹو مقدمے کے سپیشل پبلک پراسیکیوٹر ایم اے رحمٰن بھی موجود تھے۔ چودھری صاحب کی سانسیں ہمیشہ کے لیے رک گئیں لیکن ان کا سیاسی سفر چودھری پرویز الہٰی اور چودھری شجاعت کی صورت میں آج بھی جاری ہے۔

پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی

پاکستانی سیاست میں انتہائی اہم تانگہ پارٹی اپنے سربراہ اور اکلوتے اسمبلی رکن نوابزادہ نصراللہ کی وجہ سے مشہور رہی۔ نوابزادہ نصراللہ پی این اے کے نائب صدر اور مذاکراتی کمیٹی کے رکن تھے۔ اگرچہ ضیاء الحق کی پہلی کابینہ میں پاکستان ڈہیموکریٹک پارٹی کے جنرل سیکریٹری ارشد چودھری بھی شامل تھے، لیکن بہت جلد نوابزادہ نصراللہ اے آر ڈی میں متحرک نظر آئے۔ 1970 سے لے کر 2008 تک اس پارٹی کے کل دو رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور دونوں بار یہ نوابزادہ نصراللہ خود تھے۔

2012 میں یہ پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی پی ٹی آئی میں شامل ہو گئی۔

کل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس

آزاد جموں و کشمیر کے 1971 میں صدر منتخب ہونے والے سردار محمد عبدالقیوم خان بھٹو کے اس وقت شدید مخالف بن گئے جب 1974 میں تحریک عدم اعتماد سے انہیں برطرف کیا گیا۔ پی این اے میں شامل سردار قیوم خان کل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے بیس سال سے زیادہ سربراہ رہے۔

1991 اور 1996 میں آزاد کشمیر کے وزیر اعظم منتخب ہونے والے سردار قیوم کے بیٹے سردار عتیق احمد بھی دو مرتبہ اسی عہدے پر سرفراز رہے۔ کل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس آزاد کشمیر میں بھرپور متحرک اور موثر جماعت ہے۔

خاکسار تحریک

علامہ مشرقی کی مشہور زمانہ تحریک ان کی وفات کے بعد سیاسی جماعت کا روپ دھارنے کی ناکام کوشش کرتی ہے۔ تانگہ پارٹی کی تعریف پر بھی پورا نہ اترے والی یہ سیاسی جماعت تاریخ میں محض اس لیے زندہ رہ گئی کہ پی این اے کا حصہ تھی۔ بطور سیاسی جماعت خاکسار تحریک کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست