ستائیس سالہ شمع اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہیں، کبھی روتی ہیں، کبھی چپ چاپ زندہ لاش بنی پھرتی ہیں۔ اکثر انہیں ایک ہی فقرہ بڑبڑاتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، ’میں نے خودکشی نہیں کی، مجھے بجلی کا جھٹکا لگا تھا۔‘
یہ کہانی ہے کہ گلگت بلتستان کے ضلع غذر کی تحصیل اشکومن کے گاؤں غوٹولتی کی رہائشی نیک زرین کی جنہیں گھر والے پیار سے شمع کہہ کر پکارتے ہیں۔
انہوں نے 2012 میں خودکشی کی کوشش کی مگر خوش قسمتی سے گھر والوں نے انہیں بروقت دیکھ لیا اور پھانسی کے پھندے سے اتار دیا۔ مگر یہ اب اپنا ہوش و حواس کھو چکی ہیں اور اب بہت کچھ بھول چکی ہیں، اور اب ان کی طبعیت ہر وقت ناساز رہتی ہے۔
شمع کا واقعہ منفرد نہیں ہے۔ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق ضلع غذر میں خودکشیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے غذر کو خودکشیوں کا گڑھ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں نہ صرف شمع بلکہ کئی شمعیں خودکشی کی آندھی کی نذر ہو کر ہمیشہ کے لیے بجھ گئی ہیں۔
اتوار 19 جون کو غذر کے نوجوانوں نے ضلعے کے مرکزی قصبے گاہکوچ میں ’گرینڈ یوتھ معرکہ‘ کے نام سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا جس میں اس مسئلے سے نمٹنے کے طریقوں پر غور کیا گیا اور مستقبل میں ان کی روک تھام کے لیے ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا۔
معرکے میں طے پایا کہ کمیٹی میں موجود ماہرین غذر کے مختلف علاقوں کا دورہ کریں گے اور گھر گھر جا کر والدین اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے آگاہی فراہم کریں گے۔ مقامی زبان میں معرکہ جرگے کو کہتے ہیں۔
اس جرگے میں شمع جیسے دوسرے نوجوانوں کے بارے میں غور کیا گیا جن کے اندر اپنی جان لینے کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ ہم نے اسی موقعے پر شمع کی بڑی بہن آسیہ سے بات کی جو فطری طور پر اپنی بہن کے بارے میں بہت پریشان ہیں اور انہیں علاج کے سلسلے میں گلگت لے کر آئی ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’شمع کا خواب تھا کہ وہ ڈاکٹر بنے، وہ بہت قابل اور محنتی تھی اس لیے گھر والوں نے کالج کی تعلیم کے سلسلے میں غذر کے مرکزی قصبے گاہکوچ کے کالج میں داخل کروا دیا جہاں شمع اپنی پھوپی کے گھر رہتی تھی، اور کلاس میں ہیڈ گرل تھی۔
’پھر آج سے 10 سال پہلے کا وہ دن آیا جب پھوپی اور گھر والے اپنے کاموں میں مصروف تھے، شمع کے کالج کے ساتھی پکنک پر جا رہے تھے۔ شمع کو گھر سے بھائی نے پکنک پر جانے کی اجازت نہیں دی۔ اس سے شمع کو اتنا صدمہ پہنچا کہ اسی روز اس نے خودکشی کرنے کی کوشش کی۔‘
گاہکوچ میں گذشتہ روز منعقد ہونے والے جرگے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں مقامی نوجوانوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا اور ان سے ان کے مسائل کے بارے میں سنا گیا اور خودکشیوں کی روک تھام کے لیے ان سے آرا اور تجاویز مانگی گئیں۔
پروگرام کی منتظم فاطمہ جبین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس جرگے کا بنیادی مقصد غذر میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کے حوالے سے نوجوانوں کو جمع کرنا اور ان کے مسائل سننا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور انہیں پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے کہ وہ اپنے مسائل شیئر کر سکیں۔
اسی یوتھ موومنٹ کے ایک اور آرگنائزر عنایت نے بتایا: ’اس سے قبل بھی جب گلگت بلتستان میں خودکشیوں کی لہر میں اضافہ ہوا تو حکومت اور دیگر اداروں نے پروگرام اور سیشن منعقد کیے مگر مستقل بنیادوں پر کوئی حکمت عملی ترتیب نہیں دی لیکن مقامی کمیونٹی کو بھی کسی معاملے میں شریک نہیں کیا جس کی وجہ سے مسئلہ جوں کا توں ہے۔‘
اگر کوئی فرد غیر معمولی حالات کا شکار ہو کر افسردہ، پریشان اور ناامید ہو جاتا ہے اور اگر کسی کے سامنے اظہار کرتا ہے کہ میں خودکشی کروں گا تو اسے سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔
غذر میں خودکشیوں کی وجہ کیا ہے؟
ماہر نفسیات آیت الحق نے اپنی ایک سروے رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ غذر میں سب سے پہلی خودکشی 1987 میں ریکارڈ کی گئی، اور اس کے بعد اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ سروے، نفسیاتی کونسلنگ اور ایک دن کے سیشن سے کسی بھی مسئلے کا حل ممکن نہیں بلکہ ہر ضلعے میں مینٹل ہیلتھ ہسپتال بنانے کی ضرورت ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بچوں کی نہیں بلکہ والدین کی کونسلنگ بہت ضروری ہے تاکہ والدین اپنے بچوں کی تربیت بہتر طریقے سے کر سکیں۔
گاہکوچ پولیس سٹیشن کی رپورٹ کے مطابق 2010 سے 2022 تک ڈھائی سو کے قریب لوگ اپنی زندگی کا چراغ اپنے ہاتھوں گل کر چکے ہیں۔
حیرت انگیز طور پر ماہرین کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں خودکشیوں کی کوئی واضح وجہ ابھی تک سامنے نہیں آ سکی، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں وہاں کوئی باقاعدہ تحقیق ابھی تک نہیں کی گئی۔
خودکشی کا رحجان ایک قابلِ علاج بیماری
ماہر نفسیات ڈاکٹر جان عالم کے مطابق: ’خودکشی کے خیالات پیدا ہونا ایک بیماری ہے جس کا علاج ممکن ہے۔ اگر کوئی فرد غیر معمولی حالات کا شکار ہو کر افسردہ، پریشان اور ناامید ہو جاتا ہے اور اگر کسی کے سامنے اظہار کرتا ہے کہ میں خودکشی کروں گا تو اسے سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے اور اس کا بروقت علاج کرایا جائے۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں۔‘
غذر کی خواتین کیوں اتنے بڑے پیمانے پر خودکشیاں کر رہی ہیں، اس بارے میں انہوں نے کہا: ’غذر میں خودکشیوں کی وجوہات میں سب سے اہم یہ ہے کہ غذر کی خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ان کی شادیاں کسی ڈرائیور اور فوج کے سپاہی سے بغیر پوچھے کر دی جاتی ہیں۔ بعد میں یہ شادیاں کامیاب نہیں ہوتیں یا پھر گھریلو تشدد اور مایوسی کے باعث یہ خواتین خودکشیاں کر لیتی ہیں۔ البتہ کچھ کیسز میں خواتین کو قتل کر کے اسے خودکشی کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر جان عالم نے ایک اور وجہ بتائی کہ والدین اپنے بچوں میں موازنہ یا مقابلہ کرتے ہیں۔ امتحان میں کم نمبر آنے یا دوسرے بچوں سے موازنے کی وجہ سے بچے احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں۔‘
ڈاکٹر جان عالم نے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ بچوں کے ساتھ میانہ روی سے پیش آئیں، نہ بے جا لاڈ پیار کریں اور نہ ضرورت سے زیادہ سختی۔ اس کے علاوہ بچوں کی زندگی کے ایسے فیصلوں میں بچوں کو ضرور شریک کریں جن کا تعلق ان کے مستقبل سے ہے، مثلاً اعلیٰ تعلیم اور شادی وغیرہ۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی بات کو اہمیت دیں، بچہ سمجھ کر انہیں ٹال نہ دیں۔‘
ہمارا گھرانہ پڑھا لکھا ہے، ایسی کوئی بات ہی نہیں تھی جس سے بیٹی کو کوئی مسئلہ ہوتا، کسی قسم کی پریشانی نہیں تھی۔ اگر بیٹی کو کوئی بھی مسئلہ ہوتا ایک بار ہم سے ذکر ضرور کرتی۔
اذیت میں ہیں کہ ہماری بیٹی نے خودکشی کیوں کی؟
غذر میں خودکشی کے بہت سے واقعات ایسے ہیں جن کی وجہ یا تو نامعلوم رہتی ہے یا پھر کوئی بےحد معمولی سا واقعہ جو نوجوانوں کو یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مائل کر دیتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ دنوں ضلع غذر کے علاقے یاسین سے تعلق رکھنے والے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے بی ایس کمپیوٹر سائنس کے ایک طالب علم نے اپنی موٹر سائیکل گلگت کے ذوالفقار آباد پل پر کھڑی کر کے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ ان کی خودکشی کی کوئی وجہ ابھی تک سامنے نہیں آ سکی۔
اسی طرح سارہ انور ساکن سنگل جماعت دہم کی طالبہ تھیں۔ پرچہ اچھا نہیں ہونے کی وجہ سے انہوں نے پنکھے میں پھندا ڈال کر خودکشی کر لی۔
سارہ انور کے والد نے بتایا کہ بیٹی کا پیپر اچھا نہیں ہوا تھا، جس کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو کر اس نے اپنی جان لے لی۔ انہوں نے کہا: ’ہمارا گھرانہ پڑھا لکھا ہے، ایسی کوئی بات ہی نہیں تھی جس سے بیٹی کو کوئی مسئلہ ہوتا، کسی قسم کی پریشانی نہیں تھی۔ اگر بیٹی کو کوئی بھی مسئلہ ہوتا ایک بار ہم سے ذکر کرتی مگر خاموشی سے خود کو ختم کرنا ہمارے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں۔ اب ہمارا ہر دن اور رات اسی سوچ میں قیامت کی طرح گزرتا ہے کہ آخر ہماری بیٹی کی خودکشی کی وجہ کیا تھی۔‘
ڈاکٹر جان عالم نے مزید بتایا: ’ہمارے پاس ہسپتال میں غذر سے آنے والے مریضوں کی تعداد زیادہ ہے، جو ڈپریشن کا شکار ہیں۔ یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے، ہم سب کو اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔‘
گلگت بلتستان کی حکومت کیا کر رہی ہے؟
سیکریٹری سوشل ویلفیئر، ویمن ڈیویلپمنٹ، پاپولیشن ویلفیئر، ہیومن اینڈ چائلڈ رائٹس اینڈ یوتھ افیئرز نجیب عالم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گلگت بلتستان میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کے حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ میٹنگ ہو چکی ہے، اس مسئلے کے حل کے لیے سب سے پہلے ٹیمیں تشکیل دے کر ان کے وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کریں گے اور ان کے حل کے لیے کوشش کی جائے گی۔
انہوں نے کہا: ’یہ بہت سنگین مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے فوری اقدامات اٹھا رہے ہیں۔‘
غذر کے معرکے میں کیا طے پایا؟
غذر یوتھ فورم کی جانب سے جرگہ / معرکہ میں مندرجہ ذیل اعلامیہ جاری کر دیا گیا:
- غذر میں ذہنی صحت کی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔
- یہ معرکہ نوجوانوں کے ذرٸعے اپنی مدد آپ کے تحت کونسلنگ کی حمایت کرتا ہے۔
- غذر میں ذہنی صحت سے متعلق مقامی کونسلروں کی ایسی کھیپ تیار کرنے کی ضرورت ہے جو مقامی سطح پر لوگوں کی مدد کر سکیں۔
- غذر کی تمام تحصیلوں میں ذہنی صحت کے ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے ہاٹ لاٸن قاٸم کی جائے اور وہاں کونسلنگ کے لیے تربیت یافتہ عملے کو تعنات کیا جائے۔
- تمام حساس نوعیت کے کیسز کو ان تمام اداروں کو ریفر کیا جائے جو ذہنی صحت کے حوالے سے کام کر رہے ہیں، مثال کے طور پر سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ۔
- ذہنی صحت سے متعلق کیسز کو نمٹانے کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر غذر میں ایک فوکل پواٸنٹ بنایا جاٸے۔
- تعلیمی اداروں میں ذہنی صحت سے متعلق معاملات کی نشاندہی کے لیے وقتاً فوقتاً سکریننگ کی جائے۔
- گلگت بلتستان میں فورینسک لیب کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ خودکشی کے کیسز کی تصدیق کی جا سکے، اور قتل اور خودکشی میں تفریق کی جا سکے۔
- پولیس کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ ساٸنسی اور نفسیاتی بنیادوں پر خودکشی یا قتل کی تحقیقات کر سکے۔
- خودکشی اور ذہنی صحت کی تحقیق صرف متعلقہ شعبے میں مصدقہ اداروں اور ماہرین کے ذریعے کیا جائے۔
- ذہنی صحت کے معاملات کو مقامی سطع پر لوگوں کے ذرٸعے سے ہی نمٹایا جاٸے اور ان کی رہنماٸی متعلقہ شعبے کے ماہرین کریں۔
- جذباتی صحت (Emotional Intelligence) اور زندگی کی مہارتوں کو نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ فی الوقت نوجوانوں کو زندگی کی مہارتوں کی تربیت دی جاٸے۔
- ذہنی صحت کے حوالے سے پیرنٹ ٹیچر ایسوسی ایشن کے درمیان باقاعدگی سے میٹنگز ہونی چاہیے۔
- ذہنی صحت سے مطلق کیسز کی نشاندہی کے لیے Early warning system متعارف کروایا جائے۔
- ذہنی صحت کے حوالے سے نوجوانوں اور لوگوں میں آگاہی کے لیے ویڈیو اور اینی میٹڈ پیغامات تیار کیے جائیں۔
- پولیس، میڈیا، والدین اور مذہبی اداروں کو ذہنی صحت کے بارے میں مفصل آگاہی دی جائے۔
- جنسی ہراسانی اور منشیات کے استعمال کو روکنے کے حوالے قانون سازی کی جائے۔
- گھریلو تشدد اور کم عمر کی شادی کو قانون سازی کے ذریعے روکا جائے۔
- نوجوانوں کو تفریح اور محفوظ ماحول فراہم کیا جائے۔
’لوگ جھوٹ بولتے ہیں، میں نے خودکشی نہیں کی‘
یہ نکات یقیناً خوش آئند ہیں مگر اصل امتحان یہ ہو گا کہ ان پر عمل درآمد کب تک اور کتنا ہوتا ہے۔ شمع کو بھی کونسلنگ کی ضرورت ہے، جس کے لیے تجربہ کار اور ہمدرد ماہرِ نفسیات مقامی طور پر درکار ہیں۔
وہ ابھی تک ذہنی صدمے کی حالت میں ہیں۔ ہم سے بات کرتے وقت ان کی آواز میں کپکپاہٹ تھی۔ شاید وہ گھر والوں سے ملنے والے طعنوں کو برداشت نہ کر پاتے ہوئے بار بار کہہ رہی تھیں، ’یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں کہ میں نے خودکشی کی کوشش نہیں کی، بجلی کے کرنٹ لگنے کی وجہ سے میرے گلے میں بھی پھندا لگ گیا۔‘
ان کی بہن آسیہ نے بتایا کہ گھر والوں نے اسے دیکھ کر اس کے گلے سے پھندا اتار دیا۔ شمع نے ایک سانس لی اور بےہوش ہو گئی۔ گھر والے سمجھے کہ شاید وہ مر گئی ہے مگر اسے مصنوعی سانسیں دی گئی تو ہوش میں آ گئی۔
’پھوپھی کے گھر والوں نے ہمیں کال کی کہ شمع کی طبیعت خراب ہے، جب ہم گھر پہنچے تو پولیس بھی تحقیقات کے لیے پہنچ گئی تھی۔ انہوں نے شمع کو نیم بےہوشی کے عالم میں ہسپتال منتقل کر دیا۔‘
شمع کی بہن نے مزید کہا: ’باپ اور بھائی کی اتنی مالی استطاعت نہیں تھی، مال مویشی اور زمین کا ٹکڑا بھیچ کر اس کا علاج کروایا مگر یہ اب تک مکمل صحت یاب نہیں ہو سکی۔‘