عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اپنی حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ گذشتہ چند مہینوں کے دوران انفلوئنزا وائرس عالمی سطح پر تیزی سے پھیل رہا ہے اور متعدد ممالک میں فلو کے مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
تاہم محکمہ صحت پنجاب کا کہنا ہے کہ صوبے میں اب تک انفلوئینزا کا کوئی مصدقہ کیس رپورٹ نہیں ہوا۔
محکمہ صحت کے ترجمان کے مطابق سردیوں کے موسم میں عام فلو، کھانسی اور نزلہ زکام کے مریض معمول کے مطابق ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، جسے انفلوئینزا سے جوڑ کر دیکھنا درست نہیں۔
ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق کئی یورپی ممالک، بالخصوص برطانیہ، انفلوئنزا کی وبا کی لپیٹ میں ہیں، جسے ’سوپر فلو‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔
پاکستانی ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ملک میں صورت حال تاحال کنٹرول میں ہے، تاہم احتیاط نہایت ضروری ہے کیونکہ یہ ایک ایسا وائرس ہے جو جینیاتی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق انفلوئنزا کے کیسز میں اضافے کی بنیادی وجہ انفلوئنزا اے (H3N2) اور اس کا ایک ابھرتا ہوا سب کلیڈ ’کے‘ ہے، جو H3N2 کا ڈرفٹڈ ویرینٹ ہے اور جس میں وائرس کی ساخت میں متعدد جینیاتی تبدیلیاں پائی گئی ہیں۔
محکمہ صحت پنجاب کے ترجمان آغا احتشام نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب میں انفلوئینزا کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ سردیوں کے موسم میں فلو، نزلہ زکام اور کھانسی جیسے مسائل عام ہو جاتے ہیں۔ فلو سے ملتی جلتی علامات کی وجہ سے یہ تاثر پیدا ہو سکتا ہے کہ انفلوئینزا پھیل رہا ہے تاہم محکمہ صحت نے صورتِ حال پر کڑی مانیٹرنگ کر رکھی ہے۔‘
انفلوئینزا کی علامات اور بچاؤ
اکیڈمی آف فیملی فزیشنز پاکستان کے صدر ڈاکٹر طارق محمود میاں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’سردیوں میں فلو، نزلہ زکام، کھانسی اور بخار عام امراض ہیں، مگر انفلوئینزا میں بخار بہت تیز، جسم میں شدید درد اور کمزوری ہوتی ہے۔‘
ان کے بقول: ’ یہ وائرس کرونا کی طرح اچانک اور شدید حملہ آور ہو سکتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب جسم کی قوت مدافعت کمزور ہو۔‘
ڈاکٹر طارق محمود میاں نے مزید بتایا کہ یہ کان، ناک، گلے اور پھیپھڑوں کو متاثر کر سکتا ہے اس لیے اسے معمولی نہیں سمجھنا چاہیے کیوں کہ یہ بھی ایک خطرناک وبا کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح ابتدا میں کرونا کو سنجیدہ نہیں لیا گیا اور بعد میں اس نے لاکھوں جانیں لیں، اسی طرح انفلوئینزا وائرس کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
ان کے بقول: ’سردیوں میں عام فلو اگر شدت اختیار کرے تو انفلوئینزا میں تبدیل ہو سکتا ہے، اس لیے احتیاطی تدابیر پر عمل انتہائی ضروری ہے۔‘
لاہور کی ماہر امراض ناک، کان اور گلہ ڈاکٹر نجمہ شاہین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سردیوں میں فلو، نزلہ، زکام، گلے کی خراش اور بخار عام ہوتے ہیں لیکن اگر بروقت علاج اور احتیاط نہ کی جائے تو یہی بیماریاں انفلوئینزا میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ اس لیے فلو کی ویکسین لگوانا نہایت ضروری ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پروٹین سے بھرپور غذائیں کھانی چاہییں تاکہ قوت مدافعت برقرار رہے، مریض کو ماسک پہننا چاہیے کیونکہ یہ وائرس چھونے کے ذریعے دوسروں میں منتقل ہو سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بار بار ہاتھ دھونے، انڈور کمروں میں مناسب وینٹیلیشن، اچھی ہائیڈریشن اور متوازن غذا صحت یابی میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر نجمہ شاہین کے مطابق چھ ماہ سے زائد عمر کے ہر فرد کو فلو کی ویکسین لگوانی چاہیے تاکہ بیماری کی شدت سے بچا جا سکے۔