ایک نئی تحقیق کے مطابق ٹیٹوز جسم کے مدافعتی نظام میں عمر بھر کے لیے تبدیلیاں پیدا کر سکتے ہیں اور ویکسین کے اثرات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
بین الاقوامی محققین کی ایک ٹیم نے انکشاف کیا ہے کہ ٹیٹو بنانے کے لیے استعمال ہونے والی سیاہی لمف نوڈز میں جمع ہو جاتی ہے، جس سے بیماریوں کے خلاف جسم کی مزاحمت متاثر ہوتی ہے۔ یہ نتائج پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز نامی جریدے میں شائع ہوئے ہیں۔
اگرچہ پہلے بھی ٹیٹو کی سیاہی کے زہریلا ہونے پر تحقیق ہو چکی ہے، لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مدافعتی نظام کے ردعمل پر اس کے اثرات پہلی مرتبہ سامنے آئے ہیں۔
چوہوں پر کیے گئے تجربات میں محققین نے دیکھا کہ ان کے لمف نوڈز میں ’شدید اور دیرپا‘ سوزش پائی گئی، میکروفیجز (سفید خون کے خلیوں کی ایک قسم) کو نقصان پہنچا اور ویکسین کے مقابلے میں جسم کا ردعمل بھی بدل گیا۔
تحقیقی ٹیم نے کہا کہ ’یہ مدافعتی ردعمل پر ٹیٹو کی سیاہی کے اثرات کے بارے میں اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے اور ٹیٹو بنانے کے عمل سے جڑی سنگین صحت کے خدشات کو بھی اجاگر کرتی ہے۔‘ ٹیم نے یہ بھی بتایا کہ دنیا بھر میں ہر پانچ میں سے کم از کم ایک شخص کے جسم پر ٹیٹو موجود ہے۔
’ہمارا کام اس بات کی ضرورت نمایاں کرتا ہے کہ ٹیٹو کی سیاہی کے محفوظ کے بارے میں عوامی صحت کی پالیسیوں اور قواعد و ضوابط کو بہتر بنانے کے لیے مزید تحقیق کی جائے۔‘
سائنس دانوں کی دلچسپی اس وقت بڑھی جب انہوں نے دیکھا کہ دوسرے تجربات کے لیے ٹیٹو والے چوہوں میں سوزش پائی گئی، جس کے بعد انہوں نے اس معاملے کی مزید تحقیق کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے چوہوں کے پچھلے پیروں کی جلد پر ٹیٹو بنانے کے لیے عام کمرشل سیاہیاں استعمال کیں جن میں سیاہ، سرخ اور سبز رنگ شامل تھے۔ خصوصی امیجنگ آلات کی مدد سے سائنس دانوں نے دیکھا کہ سیاہی لمف کی نالیوں کے ساتھ بہہ کر چند منٹوں میں قریب ترین لمف نوڈز تک پہنچ گئی، جہاں وہ جمع ہوتی رہی۔
محققین نے یہ بھی دیکھا کہ سیاہی ویکسین کے ردعمل پر اثر انداز ہوتی دکھائی دی۔ کووڈ 19 ویکسین کے مقابلے میں مدافعتی ردعمل کمزور رہا جب کہ الٹرا وائلٹ شعاعوں کی مدد سے غیر فعال کی گئی انفلوئنزا ویکسین پر ردعمل زیادہ مضبوط نظر آیا۔ محققین کے مطابق ’یہ فرق ان دونوں اقسام کی ویکسین کے عمل کے طریقۂ کار میں موجود اختلافات کو ظاہر کرتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محققین نے اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’ٹیٹو کے محفوظ ہونے کے حوالے فوری خدشات میں سے ایک کا تعلق نہ جذب ہونے والی سیاہی کا ٹیٹو کی جگہ سے جلد کے علاوہ دیگر اعضا تک ممکنہ طور پر پھیل جانا اور وہ زہریلا اثر ہے جو ان غیر حل پذیر رنگوں کے پورے نظام میں جمع ہونے سے ہو سکتا ہے۔‘
اہم بات یہ ہے کہ رپورٹ کے مطابق سیاہی لمف نوڈز میں عمر بھر موجود رہتی ہے، چاہے ٹیٹو بعد میں ہٹا ہی کیوں نہ دیا جائے۔
محققین نے اپنی تحقیق میں لکھا کہ ’آج کل لوگوں میں ٹیٹو بنوانے کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے، اس صورت میں ہمارے نتائج زہریلا پن جانچنے والے پروگراموں، پالیسی بنانے والوں اور عام لوگوں کو اس ممکنہ خطرے کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے نہایت اہم ہیں کہ ٹیٹو بنوانے سے مدافعتی ردعمل بدل سکتا ہے۔‘
حالیہ برسوں میں ہونے والی وسیع تحقیق نے ٹیٹوز کو لمفوما نامی کینسر کی ایک قسم سے بھی جوڑا ہے۔ بی ایم سی پبلک ہیلتھ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ جن لوگوں کے جسم پر بڑے ٹیٹو ہوتے ہیں، ان میں خون کے سرطان کا خطرہ ان افراد کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہو سکتا ہے جن کے جسم پر کوئی ٹیٹو نہیں ہوتا۔
© The Independent