’نوشین کی خودکشی کے بعد اس رات ہاسٹل میں کوئی لڑکی سو نہیں پائی‘

لاڑکانہ کے چانڈکا میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں مردہ پائی گئی طالبہ نوشین کاظمی کے ساتھیوں اور والد کی انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت۔

(تصویر چانڈکا میڈیکل کالج فیس بک پیج)

لاڑکانہ میں 25 نومبر کو چانڈکا میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں مردہ پائی گئی طالبہ نوشین کاظمی کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ان کی موت لٹکنے سے ہوئی۔

پولیس کے مطابق نوشین کی نعش 25 نومبر کی دوپہر چانڈکا میڈیکل کالج کے ہاسٹل نمبر دو کی پہلی منزل پر کمرہ نمبر 47 میں پنکھے سے لٹکی پائی گئی تھی۔ 

متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او سعید احمد کا کہنا ہے کہ نوشین کے موبائل فون کے ساتھ الگ سے ایک سم بھی برآمد ہوئی ہے جسے فرانزکس کے لیے بجوا دیا گیا ہے۔ 
بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے چانڈکا میڈیکل کالج میں چوتھے سال کی طالبہ نوشین کاظمی کو دادو میں ان کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ 
نوشین کے والد سید ہدایت علی شاہ سندھ کے ضلع دادو کے محکمہ سوشل ویلفیئر میں چائلڈ پروٹیکشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں جبکہ نانا استاد بخاری سندھ کے نامور شاعر تھے۔
چانڈکا میڈیکل کالج کی میڈیکل افسر ڈاکٹر رخصار سمو نے نوشین کاظمی کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری کی ہے۔ 
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی اس رپورٹ کی کاپی کے مطابق ان کی موت لٹکنے سے واقع ہوئی۔ ان کی گردن پر رسی کے نشان موجود ہیں جبکہ پھیپھڑوں کے اندر خون کے دھبے پائے گئے۔
رپورٹ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ان کے جسم پر تشدد کے کوئی نشانات نہیں۔
رپورٹ کے مطابق طالبہ کے جسم کے اعضا کیمیائی معائنے کے لیے سرکاری لیبارٹری کو بھجوا دیے گئے ہیں جس کی رپورٹ آنے کے بعد حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری کی جائے گی۔ 
بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کی وائس چانسلر نے بتایا کہ انہوں نے اس معاملے پر پروفیسر صفدر علی شیخ کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو پانچ روز میں رپورٹ کرے گی۔ 
نوشین چانڈکا میڈٰیکل کالج کے 46 ویں بیچ کی طالبہ تھیں۔ ان کے ہم جماعت ڈاکٹرعمران بریرو نے بتایا کہ واقعے کے بعد وائس چانسلر کی جانب سے تمام طلبہ کو مطلع کیا گیا کہ بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی اور اس سے منسلک تمام میڈیکل کالجز اور ہاسٹلز کو سیل کیا جا رہا ہے اس لیے تمام طلبہ فوری طور پر اپنے ہاسٹل خالی کردیں۔ 
’صرف یہ نہیں بلکہ ہمارے امتحانات بھی ملتوی کردیے گئے اور کہا گیا کہ نئی تاریخ جلد ہی بتائی جائے گی۔‘
ڈاکٹر عمران نے نوشین کے حوالے سے بتایا کہ وہ کافی کم گو تھیں۔ 
’میں نے انھیں کبھی کسی سے زیادہ بات چیت کرتے نہیں دیکھا، لڑکوں سے تو بالکل نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ وہ کافی باپردہ رہتی تھیں۔ اکثر اپنے ہاتھ اور پیروں کو ڈھانپے رکھتی تھیں۔‘
’ہاسٹل میں پوری رات خوف سے کوئی لڑکی نہیں سو پائی‘
نوشین کی روم میٹ نے، جن کا تعلق کوئٹہ سے ہے، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’نوشین اس وقت کمرے میں اکیلی تھیں۔ میں نے کمرے کا دورازہ کھولنا چاہا تو دروازہ اندر سے بند تھا۔ 
’دورازہ کھٹکھٹانے کے باوجود نہیں کھلا تو میں نے کمرے کی کھڑکی سے اندر جھانکا۔ میں نے دیکھا کہ نوشین کی باڈی پنکھے سے لٹکی ہوئی تھی۔ 
’اس کے بعد میں نے آس پاس کی لڑکیوں سے مدد مانگی تو انتظامیہ نے تھوڑی دیر میں آکر دروازہ توڑا۔ ہم نے دیکھا کہ وہ پنکھے سے لٹکی ہوئی ہیں اور ان کے پیر ٹیبل ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’سب کچھ اتنا خوف ناک تھا کہ میں نے رات ہاسٹل کی ایک اور لڑکی کے کمرے میں گزاری۔ 
’میں یقین نہیں کرسکتی کہ ایسا کیا ہوا۔ نوشین نے کچھ بتایا بھی نہیں۔ وہ زیادہ بات نہیں کرتی تھیں اور کمرے میں اپنے حصے پر ایک قنات لگائے رکھتی تھیں۔‘
ہاسٹل نمبر دو کے گراؤنڈ فلور کی رہائشی اور نوشین کی ہم جماعت ڈاکٹر سائمہ کا کہنا تھا کہ ’اس دن میں اپنے کمرے میں پڑھ رہی تھی۔ ہمارے پاس ایک سینیئر بیچ کی لڑکی آئی اور بتایا کہ تمہاری کسی بیچ میٹ نے اوپر کے فلور پر خود کشی کر لی ہے۔ 
’میں جب نوشین کے کمرے میں پہنچی تو وہاں پہلی ہی کچھ لڑکیاں موجود تھیں اور کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔‘ 
انہوں نے مزید کہا کہ ’کمرے میں داخل ہو کر میں نے نوشین کاظمی کو اسی حالت میں دیکھا جیسے ابھی تصویروں اور ویڈیوز میں دکھا رہے ہیں۔
’تھوڑی ہی دیر میں انتظامیہ آئی تو انہوں نے ہمیں وہاں سے ہٹا دیا۔ یہ سب دیکھنے کے بعد ہم سب ذہنی طور پریشان اور صدمے کا شکار تھے۔ 
’ہاسٹل میں اس رات کوئی بھی نہیں سو پایا تھا۔ نوشین کاظمی کے حادثے کے بعد ہاسٹل میں پوری رات خوف طاری رہا، کوئی بھی لڑکی نہیں سو پائی۔‘
نوشین کے فون کے ساتھ الگ سے ایک سم بھی ملی: پولیس حکام
ڈی آئی جی لاڑکانہ مظہر نواز شیخ کا کہنا ہے کہ ’پولیس نے اس کیس میں جائے وقوع سے منسلک تمام شواہد حاصل کر کے فرانزکس کے لیے بھجوا دیے ہیں، تاہم ہلاکت کے متعلق کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ خودکشی ہے تو وجوہات کیا تھیں؟ 
ان کا کہنا تھا کہ ایس ایس پی لاڑکانہ عمران قریشی اور ایس ایس پی قمبر شہدادکوٹ ڈاکٹر سمیر نور چنہ خود اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
ایس ایچ او تھانہ رحمان پور سعید احمد کے مطابق نعش کے پاس سے ایک نوٹ بھی ملا جس پر لکھا ہوا ہے کہ ’مجھ پر کسی کا دباؤ نہیں۔ یہ میں اپنی مرضی سے کر رہی ہوں۔‘
انھوں نے بتایا کہ جائے وقوعہ سے اس نوٹ کے علاوہ دوسری نوٹ بکس، یو ایس بیز، موبائل فون اور الگ سے ایک سم بھی ملی۔ 
انہوں نے کہا کہ نوٹ اور دیگر نوٹ بکس میں لکھائی میچ کرنے کا عمل جاری ہے۔ تاہم میڈیکل رپورٹ سامنے آنے کے بعد یہ واضح ہوچکا ہے کہ یہ خودکشی کا کیس ہے۔ 
’اس کے علاوہ جس پنکھے سے لاش لٹکی ہوئی ملی تھی اس پر نوشین کے فنگر پرنٹس ملے ہیں جبکہ ان کی انگلیوں پر مٹی بھی موجود تھی جو پنکھے کی ہو سکتی ہے۔‘
’ہمیں بس یہ جاننا ہے کہ اس نے خودکشی کیوں کی؟‘
 نوشین کے والد سید ہدایت اللہ شاہ نے بتایا کہ انہیں اپنی بیٹی کی ہلاکت کی اطلاع کالج انتظامیہ کی جانب سے فون پر دی گئی۔ 
’جب ہم دادو سے لاڑکانہ پہنچے تو سب سے پہلے ہمیں ہاسٹل روم کی طرف لے جایا گیا جہاں نوشین اسی حالت میں موجود تھیں۔ 
’میری اجازت کے بعد نعش کو اتارا گیا اور پھر پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوایا گیا۔ 
’میرے خیال میں چانڈکا میڈیکل کالج میں خودکشی کے واقعات پہلے بھی ہوئے ہیں۔ میری بیٹی بہت دین دار تھی، مجھے یقین ہے کہ وہ خود کشی نہیں کرے گی، اس لیے مجھے اس واقعہ پر کئی خدشات ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ اس معاملے پر کوئی جے آئی ٹی نہیں چاہتے۔ ’اگر واقعی یہ خود کشی ہے کہ تو ہم بس یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ 
’شاید فرانزکس کے بعد کچھ سامنے آئے۔ ہم نے ابھی تک مقدمہ درج نہیں کیا لیکن اگر ضرورت پڑی تو ہم مقدمہ بھی درج کروائیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایک ہفتہ پہلے میری بڑی بیٹی کی منگنی تھی جس کے لیے نوشین گھر پر آئی ہوئی تھیں۔
’میری جب واقعے سے ایک رات پہلے ان سے بات ہوئی تھی تو انھوں نے کچھ نہیں بتایا، کوئی پریشانی والی بات نہیں کی۔ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتیں۔‘
’تصاویر اور وڈیوز وائرل کرنا غلط‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی بانی ایڈوکیٹ نگہت داد کے مطابق انٹرنیٹ اور بالخصوص سوشل میڈیا پر نوشین کے مرنے کے بعد کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنا ایک انتہائی غیر حساس اور غلط عمل ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ ’رازداری کا حق یعنی رائٹ کو پرائیویسی کسی کا بھی ہو، چاہے کسی زندہ یا کسی متوفی شخص کا، یہ اس کے وقار کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ 
’لوگ جب اس طرح کی تصاویر کو پھیلاتے ہیں، چاہے وہ لوگوں کو باخبر کرنے لیے کیوں نہ ہو، یہ عمل اس مرحوم شخص کی رازداری کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ 
انہوں نے سوال کیا کہ جو شخص اس دنیا سے جاچکا ہے وہ کیسے لوگوں کو اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کے کی اجازت دے سکتا ہے؟
نگہت کے مطابق کوئی بھی چیز انٹرنیٹ پر شیئر ہو تو اس کا ڈیجیٹل فٹ پرنٹ ہمیشہ کے لیے انٹرنیٹ پر رہتا ہے۔ 
’سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی ذمہ داری ہے کہ جب ایسی پوسٹس کو رپورٹ کیا جائے تو وہ انھیں ہٹا دیں۔‘

 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان