سسر کے ساتھ جسمانی تعلقات کے الزام پر سات ماہ کی حاملہ بہو کی خود کشی

سوات میں خواتین گھریلو جھگڑوں، ناخواندگی، طالبانائزیشن اور دیگر مسائل کا حل خود کشی میں ڈھونڈنے لگی ہیں۔ سلمیٰ کا شمار بھی انہی خواتین میں ہوتا ہے۔

سلمیٰ (نام تبدیل کیا گیا ہے) ایک ہونہار طالبہ تھیں، جن کی شادی والدین نے میٹرک کے بعد ہی کر دی۔

سلمیٰ کے خاوند اگرچہ اُن کا بہت خیال رکھتے تھے لیکن ساس نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی تھی۔ سلمیٰ کے خاوند روزگار کے سلسلے میں اکثر کئی ماہ تک بیرون ملک ہوتے تھے اور اس دوران وہ اپنے سسرال والوں کے ساتھ رہتی تھیں۔ شادی کے چند سال بعد سلمیٰ نے اُس وقت اپنی زندگی کا چراغ گل کر دیا جب وہ سات ماہ کی حاملہ تھیں۔ 

مجھے سلمیٰ کے بارے میں اُن کی ایک سہیلی حنا (نام تبدیل کیا گیا ہے) کے توسط سے پتہ چلا، حالانکہ میں نے کئی بار اُن کے خاندان والوں سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار مجھے انکار کا سامنا کرنا پڑا۔

والدین کے خوف سے حنا نے اپنے گھر میں کیمرے کے سامنے بات کرنے سے انکار کر دیا، اس لیے مجبوراً ہمیں ایک دور دراز پہاڑی کا انتخاب کرنا پڑا جہاں وہ بغیر کسی خوف کے کھل کر بات کر سکتی تھیں-

 حنا بتاتی ہیں کہ سلمیٰ اپنی خاوند اور سسر سے بہت خوش تھیں لیکن ساس کے رویے سے بہت تنگ رہتی تھیں۔ گھریلو جھگڑے، تعویز کرنے اور غیر مردوں کے ساتھ ناجائز تعلقات کے الزامات تو سلمیٰ پر بار بار لگائے گئے لیکن بات اس وقت سنگین ہو گئی جب ان پر اپنے سسر کے ساتھ جسمانی تعلقات رکھنے کا الزام لگایا گیا۔

 حنا کے مطابق گھریلو جھگڑے اور دیگر  ناچاقیاں تو سلمیٰ کے لیے ایک معمول بن چکا تھا لیکن سسر کے ساتھ ناجائز تعلقات کا الزام وہ برداشت نہ سکیں اور اس چیز نے  سلمیٰ کی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کے آنے والے بچے کی بھی جان لے لی-

'سلمیٰ پر ساس نے طرح طرح کے الزامات لگائے، اُن کے گھر میں تعویز ملے تو ساس نے الزام لگایا کہ یہ تعویز سلمیٰ نے اُن پر کیے ہیں۔ پھر ان کے گھر پر نامعلوم نمبروں سے کالز آتی تھیں، اس کا الزام بھی سلمیٰ پر لگایا گیا کہ ان مردوں کے تمھارے ساتھ تعلقات ہیں اسی لیے ہمارے گھر فون کرتے ہیں۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

'ایک دن ان پر ساس نے الزام لگایا کہ آپ کے سسر بھی آپ پر اس لیے زیادہ مہربان ہیں کیونکہ آپ دونوں کے درمیان ناجائز تعلقات ہیں۔'

حنا اپنی دوست سلمیٰ کے ساتھ بیتے ہوئے وقت کو یاد کرکے بتاتی ہیں کہ وہ انتہائی خوش مزاج لڑکی تھی، جسے تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔ ‘حنا کی خود کشی کے بعد پولیس نے ابتدائی رپورٹ بھی درج کرلی تھی لیکن بعد میں مقامی جرگے نے سلمیٰ اور اُن کے سسرال کے درمیان فیصلہ کرایا اور پولیس نے وہ کیس ختم کردیا۔’

حنا کے مطابق ‘مقامی جرگے نے فیصلہ کرایا کہ سلمیٰ کے سسرال والے اُن کے والدین کو 20 یا 25 لاکھ روپے دیں گے اور پولیس کی رپورٹ ختم کر دی جائے گی۔’ تاہم مینگورہ پولیس سٹیشن کے انچارج ایس ایچ او انور کہتے ہیں کہ وہ قبائلی جرگوں کے فیصلوں کے بعد معاملہ عدالت پر چھوڑ دیتے ہیں، جو ایسے معاملات کا فیصلہ کرتی ہے۔ 

سوات اور مالاکنڈ ڈویژن میں طالبانائزیشن پر بات کرتے ہوئے ایس ایچ او انور نے بتایا کہ سوات اور آس پاس کے علاقوں میں طالبانائزیشن کے بعد خود کشیوں کے واقعات میں اضافہ ہوا لیکن اُن کے مطابق گذشتہ 10 سال میں آبادی بھی بڑھی ہے۔

 سوات اور مالاکنڈ ڈویژن میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اکثر غیرت کے نام پر قتل کو بھی خودکشی کا نام دیا جاتا ہے لیکن ایس ایچ او انور کہتے ہیں کہ جائے وقوعہ سے ہی پولیس کو خودکشی اور قتل کے واقعے کا پتہ چل جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین