کیا پاکستان کو واقعی کسی چے گویرا کی ضرورت ہے؟

ہمارے موجودہ سیاسی رہنما تو ایک طرف، شاید دنیا میں ایسے انقلابی رہنما انگلیوں پر گنے جا سکیں جن کی انقلاب سے وابستگی اور اپنے مقاصد سے دیوانگی میں چے گویرا جیسی شدت اور خلوص ہو۔

چے گویرا کی تصویر دنیا بھر میں کسی مشہور کمپنی کے لوگو کی طرح جانی پہچانی جاتی ہے (Redthoreau )

گذشتہ صدی میں انقلاب کی تڑپ اور بغاوت کے جذبے نے مجسم ہو کر ارجنٹائن کے ایک شہری چے گویرا کا روپ دھار لیا جو نگری نگری پھرا اور گھر کا رستہ بھول گیا۔ اس دوران اگر وہ نہیں بھولا تو وہ تھی نچلے طبقے سے وابستگی اور ان کی پسماندگی کے خاتمے کی عملی جدوجہد۔

اس چیز نے انہیں انقلاب اور بغاوت کی ایسی علامت بنا دیا جس کا حوالہ دنیا بھر میں دیا جاتا ہے۔ گذشتہ دنوں ایاز امیر کا عمران خان کے سامنے تقریر میں چے گویرا کا ذکر کرنا تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ کچھ لوگ اسے چے گویرا کی بدترین توہین اور کچھ لوگ اسے حقیقت کی ترجمانی کہہ رہے ہیں۔ ہم جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ چے گویرا کون تھا اور کیا پاکستان کو کسی ایسے ہی انقلابی کی ضرورت ہے؟

نوآبادیاتی نظام اور سرمایہ دارانہ بندوست سے گوریلا کارروائیوں کے ذریعے نجات کے خواب دیکھنے والا چے گویرا بنیادی طور پر میڈیکل کا سٹوڈنٹ تھا جسے سیاحت کا شوق انقلاب کے رستے پر لے گیا۔ 22 سالہ نوجوان نے 1950 میں پہلی بار موٹر سائیکل کے ذریعے جنوبی امریکہ کا سفر کیا۔ مجموعی طور پر تین بار چلی، پیرو، کولمبیا، پانامہ، برازیل، بولیویا اور کیوبا جیسے کئی ممالک کی سیر کے دوران تقریباً نو ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرنے والے چے گویرا کی یہ روداد ’دی موٹر سائیکل ڈائریز‘ کے نام سے پبلش ہوئی جو نہ صرف نیویارک ٹائمز کی بیسٹ سیلر کتاب بن گئی بلکہ اس پر اسی نام سے فلم بھی بنائی گئی۔

 دیہی علاقوں میں رہنے والے باشندوں کی بھوک، غربت اور مختلف امراض کا یہ پہلا براہ راست مشاہدہ تھا جس نے چے گویرا کو ہلا کر رکھ دیا۔ مطالعے کا شوقین یہ نوجوان اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کا سبب سرمایہ دارانہ نظام اور امریکی تسلط ہے جس سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر اصلاح ممکن نہیں۔ ان کے ڈائری کے مطابق ’ان لوگوں کی مدد کے جذبے کے تحت‘ میں نے میڈیکل کے شعبے کو خیرآباد کہا اور ہتھیار بند سیاسی جد و جہد کے میدان میں قدم رکھ دیا۔

چے گویرا کا پہلا پڑاؤ گوئٹے مالا تھا جہاں اس وقت جیکوبو آربینز کی جمہوری حکومت زرعی ریفارمز سے جاگیر دارانہ نظام کی بساط لپیٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کی زد پر محض انفرادی شخصیات ہی نہیں بڑی بڑی امریکی کمپنیاں بھی شامل تھیں جیسا کہ یونائیٹڈ فروٹ کمپنی جس سے حکومت نے سوا دو لاکھ ایکٹر زمین واپس لی۔ اس وقت اس کمپنی کا سالانہ منافع 65 ملین ڈالرز تھا جو گوئٹے مالا کے ریوینیو کا تقریباً دگنا بنتا ہے۔  چی گوریلا آربینیز کے اقدامات سے حد درجہ متاثر ہوا اور گوئٹے مالا ٹھہرنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ خود کو ’مکمل بنایا جائے اور سچا انقلابی بننے کے لیے جو کچھ ضروری ہے اس پر گرفت حاصل کی جائے۔‘

جون 1954 میں گوئٹے مالا کی فوج نے ملک پر قبضہ کر لیا اور یہ ایسا واقعہ ہے جس نے چے گویرا کی زندگی پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام سے شدید متنفر ہوا جہاں ایک پرائیویٹ کمپنی (یونائیٹڈ فروٹ کمپنی) اور سی آئی اے کا اشتراک سرعام ایک حکومت کا دھڑن تختہ کر سکتے ہیں۔ انقلابی جد و جہد کے ابتدائی دنوں کی ساتھی اور بعد میں ان کی اہلیہ بننے والی ہلڈا گادیا کے بقول ’یہ گوئٹے مالا ہی تھا جس نے اسے سامراج کے خلاف مسلح جد و جہد اور جارحانہ حکمت عملی پر مائل کیا۔‘

 چے گویرا کمیونسٹ نوجوانوں پر مشتمل مسلح گروہ کا حصہ بن گیا جس کا مقصد آربینیز کی بحالی کی تحریک چلانا تھی۔ گوئٹے مالا میں عوام کے سرد مہری کے عمومی رویے اور اپنی جان کے خطرے کے پیش نظر چے گویرا میکسیکو چلے گئے جہاں ان کی ملاقات راؤل کاسترو اور ان کے بھائی فیدل کاسترو سے ہوئی جو ’دنیا کو تبدیل کر دینے والی انقلابی دوستی‘ کا نقطہ آغاز تھی۔

اب چے گویرا کی نظریں کیوبا میں انقلاب پسند تحریکوں پر تھیں۔ انہوں نے کاسترو کے شانہ بشانہ وہاں کے ڈکٹیٹر بتیستا کے خلاف گوریلا جنگ میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔

کیوبا میں انقلاب کے بعد انہیں نیشنل بینک کی صدارت اور پھر صنعتی شعبے کی وزارت سونپی گئی لیکن انقلابی روح کو سست رو اصلاحاتی منصوبہ سازی کی نسبت جارحانہ حکمت عملی زیادہ پسند تھی۔ کاسترو کو لکھے گئے ایک خط میں وہ کہتے ہیں، ’مجھے لگتا ہے میں نے اپنے فرض کا وہ حصہ ادا کر دیا جس نے مجھے کیوبا کی سرزمین اور انقلاب سے باندھ رکھا تھا۔‘ اب وہ دنیا کے دیگر علاقوں میں انقلابی تحریکوں کا حصہ بننا چاہتے تھے۔

1965 میں چے گویرا انقلاب کے خواب لیے کانگو جا پہنچے جہاں ملک کے پہلے وزیراعظم کا تختہ امریکہ بہادر الٹ چکا تھا۔ چے گویرا متحرک نوجوانوں کو اپنا جذبہ منتقل کرنا چاہتے تھے لیکن گوریلا لیڈروں کی دھیرج پالیسی اور عوام کی انقلاب میں عدم دلچسپی ان کے لیے مایوس کن تھی۔ کاسترو کے کہنے پر وہ دوبارہ کیوبا لوٹ آئے لیکن اس سے پہلے انہوں نے شرط رکھی کہ یہ خفیہ دورہ ہو گا جسے حکومت کسی بھی سطح پر ظاہر نہیں کرے گی۔

سی آئی اے کے مطلوب ترین افراد میں سرفہرست ہونے کے سبب چے گویرا کی تمام حرکت و نقل مکمل طور پر خفیہ ہو چکی تھی۔ امریکی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹ فلپ ایگی کے بقول ’کمپنی (سی آئی اے) چے گویرا سے زیادہ کسی فرد سے خوفزدہ نہ تھی کیونکہ اس میں لاطینی امریکہ کے روایتی اسلوب اقتدار اور سیاسی جبر کو توڑنے کے لیے درکار صلاحیت اور کرشمہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔‘

 کیوبا میں مختصر قیام کے بعد اب ان کی منزل بولیویا تھی جہاں امریکہ نواز حکومت کے خلاف غیر منظم مارکسی نظریات کے حامل مختلف گروہ سرگرم تھے۔ 50 افراد کے مختصر دستے کے ساتھ چے گویرا نے بولیوین آرمی کو اپنی گوریلا کارروائیوں سے کافی تنگ کیا مگر سی آئی اے کا منظم نیٹ ورک کسی بھی بڑی کامیابی کے راستے میں رکاوٹ تھا۔ اس دوران کسی مخبر نے متعلقہ حکام کو چے گویرا کے ٹھکانے کی اطلاع دی جہاں ان کا گھیراؤ کر لیا گیا۔ ان کے پستول کا دہانہ جواب دے چکا تھا۔ زخموں سے نڈھال چے گویرا نے بلند آواز میں بولیوین آرمی سے کہا ’گولی نہ چلاؤ! میں چے گویرا ہوں اور لاش کی نسبت زندہ حالت میں تمہارے لیے زیادہ اہم ہوں۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بگوراز کے ایک سکول میں انہیں لا کر کمر اور ٹانگیں گولیوں سے چھلنی کر دی گئیں۔ خصوصی اہتمام کیا گیا کہ کوئی گولی ایسی جگہ پر نہ لگے جس سے فوری موت واقع ہو جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ دیر وہ اذیت کی سولی پر لٹکتا رہے۔

چے گویرا کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ ’کوئی بھی شخص جو آزادی سے محبت کرتا ہے وہ اس کے لیے انسپائریشن ہیں۔‘ ویت نام کی جنگ ہو یا لاطینی امریکہ سے لے کر جنوبی ایشیا تک تحریکیں، چے گویرا کی تصویر کے بغیر ادھوری رہتی ہیں۔ سارتر کے بقول ’وہ ہمارے عہد کے سب سے مکمل انسان تھے۔‘

چے گویرا نے کہا تھا ’موت آنے تک جاری رہنے والی جد و جہد کی کوئی حد نہیں۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہم اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ سامراج کے خلاف کسی ایک ملک کی فتح ہماری فتح اور کسی ایک ملک کی شکست ہماری شکست ہے۔‘

جب تک دنیا ہے مزاحمت کا سفر جاری رہے گا اور چے گویرا کو ہمیشہ ہیرو کی طرح یاد کیا جائے گا اگرچہ مزاحمت کا طریقہ کار نہ صرف زیر بحث رہے گا بلکہ معروضی حالات کے مطابق تبدیل بھی ہو گا۔ فی الحال پاکستان کے سیاسی کلچر کے پس منظر میں اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

کیا پاکستان کو چے گویرا جیسے انقلابی کی ضرورت ہے؟

اسلام آباد ہاٸی کورٹ بار کے زیر اہتمام ’رجیم چینج‘ اور اس کے پاکستان پر اثرات کے عنوان سے سابق وزیراعظم عمران ‌خان کی سربراہی میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں ایاز امیر صاحب میلہ لوٹتے نظر آئے۔

آرمی چیف کی تقرری کو قانونی شکل میں سات سال کی گنجائش فراہم کرنے پر انہوں نے عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا اصرار تھا کہ جب عدلیہ پارلیمان سے یہ مطالبہ کر رہی تھی تب حکومت کو ڈٹ جانا چاہیے تھا۔ رجیم چینج کو راولپنڈی سے منسلک کرتے ہوئے سینیئر صحافی نے سابق وزیر اعظم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’جب سے آپ کو دھکہ لگا اور لات ماری گٸی تو ماشاء اللہ آپ بھی چے گویرا بن گئے ہیں۔‘ اس کے ساتھ ہی انہوں کہا کہ ’ہماری دعا ہے آپ چے گویرا ہی رہیں۔‘

ہمارے موجودہ سیاسی رہنما تو ایک طرف، شاید دنیا میں ایسے انقلابی رہنما انگلیوں پر گنے جا سکیں جن کی انقلاب سے وابستگی اور اپنے مقاصد سے دیوانگی میں چے گویرا جیسی شدت اور خلوص ہو۔ سو یہ بات قطعاً قرین انصاف نہیں۔ اگر اسے علامتی اظہار قرار دیا جائے تو پھر سوال بنتا ہے کہ کیا پاکستان کا سیاسی کلچر کسی گوریلا فائٹر کا متحمل ہو سکتا ہے؟

ہمارے ہاں جمہوری نظام کے بجائے فرد واحد پر انحصار کی دبی ہوئی خواہش کسی بھی دیومالائی شخصیت کے نام سے اپنا اظہار چاہتی ہے۔ اس کے لیے چے گویرا سے زیادہ مناسب نام کس کا ہو گا؟

ہیرو پرستی جہاں ہماری مذہبی اساطیر کا حصہ ہے وہیں اس کی جڑیں آمروں کے عطا کردہ سیاسی کلچر سے بھی پھوٹتی ہیں۔ ہم نے ایوب کی شکل میں ایشیا کا ڈیگال اور ضیا کی شکل میں صلاح الدین ایوبی دریافت کیا لیکن امریکہ کے بھرپور تعاون کے باوجود ایسی بنیادیں نہ رکھ سکے جو دیرپا سماجی ترقی کی ضامن ہوں۔ دوسری طرف ایسے تجربات کی کوکھ سے سیاسی تفریق، مذہبی انتہا پسندی اور اقتصادی زبوں حالی کے سوا کچھ نہ برآمد ہوا۔ ممکن ہے آپ منتخب جمہوری حکومتیں سے بھی خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہونے کا شکوہ کریں مگر اس سے پہلے یہ ضرور دیکھ لیجیے کہ انتقال اقتدار کے باوجود فیصلہ سازی اور طاقت کے پلڑے کا جھکاؤ کس طرف ہے۔

بھٹو کی پھانسی کے بعد میر مرتضیٰ اور شاہنواز بھٹو نے الذوالفقار نامی تنظیم سے مزاحمت کا ایسا راستہ چنا جس کے اجزائے ترکیبی میں تشدد بنیادی اکائی تھا۔ فاطمہ بھٹو کے بقول انہوں نے اپنے بچپن کے دوران گھر میں ایک تصویر ہمیشہ آویزاں دیکھی جس کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ چے گویرا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میر مرتضیٰ چے گویرا سے کس حد تک متاثر تھے۔ مزید یہ کہ الذوالفقار میں بھی اکثریت بائیں بازو کے انقلاب پسندوں کی تھی جو چے گویرا اور ان کے بائیں بازو کے ساتھیوں کی طرح ہتھیار اٹھائے بغیر مزاحمت کا تصور نہیں کر سکتے تھے۔

دوسری طرف بے نظیر کی مزاحمتی حکمت عملی تھی جو اپنے مزاج میں باچا خان اور گاندھی کی پرامن سیاسی جد و جہد سے زیادہ مماثلت رکھتی ہے۔ بےنظیر بھٹو کا ہتھیار اٹھائے بغیر تحریک چلانے کا فیصلہ اور ’جمہوریت بہترین انتقام‘ کا نعرہ ہماری سیاسی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ جمہوری جد و جہد کا راستہ طویل ہو سکتا ہے مگر انسانیں جانیں ضائع کیے بغیر اس میں کامیابی یقینی ہے۔

چے گویرا نے دنیا بھر کی انقلابی تحریکوں میں روح پھونک دی تھی مگر اس کے نتیجے میں کتنے پائیدار سیاسی انقلاب رونما ہوئے؟ چے گویرا ایک دیوتا ہے جس کا قد کامیابی اور ناکامی سے نہیں ماپا جا سکتا مگر مزاحمتی تحریکوں میں کم سے کم انسانی جانوں کا ضیاع اور زیادہ سے زیادہ نتائج کا حصول کسی بھی انسان دوست انقلابی کی حکمت عملی کا مرکزی نکتہ ہونا چاہیے۔

پاکستان کی تاریخ اور موجودہ سیاسی تناظر میں نجات دہندہ یا انقلابی سے زیادہ جمہوری نظام میں تسلسل کی ضرورت ہے۔ اس نظام میں خامیوں سے انکار نہیں مگر چلے گا تو ادراک اور تصحیح کا مرحلہ آئے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ