وہ مریضہ جس نے ’خدا کے حکم‘ پر کھانا پینا ترک کر دیا

ایوارڈ یافتہ سائیکائٹرسٹ کی زبانی ایک مریضہ کی کہانی جس کا حقیقت سے رابطہ بالکل ٹوٹ گیا تھا۔

دماغی مریضوں کو توجہ، ہمدردی اور مناسب علاج کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ معاشرے کی طرف سے نفرت کی (پکسا بے)

آئرلینڈ کے شہر ڈبلن کی ایک سرد اور گیلی دوپہر جب میں اپنے ہسپتال میں اس حال میں بیٹھا تھا کہ کام کرنے سے زیادہ چائے پینے کا دل کر رہا تھا، ایک جونیئر ڈاکٹر کے ہاتھ ایک ریفرل موصول ہوا کہ نفسیاتی وارڈ سے 31 سالہ مریضہ میڈیکل وارڈ میں شفٹ ہوئی ہے، جس نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔

میں ان دنوں رابطہ یعنی Liaison کے شعبے میں کام کر رہا تھا اور نفسیاتی وارڈ کے علاوہ پورے ہسپتال کے دوسرے وارڈز اور ایمرجنسی میں موجود نفسیاتی مریضوں کو ہماری ٹیم علاج فراہم کرتی تھی۔ سوچا کوئی اوور ڈوز یا Eating disorder کا کیس ہو گا جو عمومی طور پر ہم دیکھتے تھے۔

معلوم ہوا کہ سوزن نامی یہ مریضہ (فرضی نام) قدرے مختلف ہے اور پہلے ہسپتال اور پھر قانون کے ایوانوں میں ہلچل مچا چکی ہے، کیوں کہ وہ ایک عجیب و غریب دعویٰ کر رہی ہے۔ اس دعوے اور کھانا پینا ترک کرنے کے نتیجے میں ایک طبی اور ایک قانونی بحران پیدا ہو گیا تھا۔

سوزن کچھ روز پہلے رات کے وقت ایمرجنسی میں آئی تھیں اور ڈیوٹی ساکائٹرسٹ نے دوا دے کر صبح اپنی رہائش کی مناسبت سے سرکاری نفسیاتی ٹیم کو دکھانے کی چٹھی دے کر رخصت کر دیا تھا اور اب نتائج بھگت رہا تھا۔

اگلے روز سوزن کی مرضی کے خلاف مینٹل ہیلتھ ایکٹ کے تحت ان کا داخلہ نفسیاتی وارڈ میں کر دیا گیا۔ وہ 10 روز سے بھوکی تھیں اور ان کا دعویٰ تھا کہ خدا ان سے باتیں کرتا ہے اور خدا نے ان کو ہیلتھ سروسز کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے 40 روز بھوکا رہنے کا حکم دیا ہے۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ دماغی امراض کی صحت کے قانون کے تحت ڈاکٹر نفسیاتی علاج کر سکتے ہیں مگر خوراک والی نالی ڈال کر زبردستی کسی کو خوراک نہیں دے سکتے۔

سوزن کی جسمانی حالت کو بنیاد بنا کر ہائی کورٹ سے تحریری اجازت نامہ لیا گیا کہ ان کے حلق میں نلکی ڈال کر زبردستی خوراک دی جائے۔ وطن عزیز ہوتا تو نہ جانے اس خاتون کا کیا انجام ہوتا۔ کچھ نہ بھی ہوتا تو مرضی کے خلاف علاج کے لیے اتنے پاپڑ نہ بیلنے پڑتے کہ قانون کا سہارا لے کر بےشمار فارم پر کر کے داخلہ کرو اور پھر ہائی کورٹ سے خوراک دینے کے آرڈر لو۔

خودمختاری مغربی ملکوں کا بے حد اہم ستون ہے جو طب کے شعبے میں بھی موثر ہے۔ مرضی کے خلاف داخلے کے 24 گھنٹے میں اپنے ہسپتال کے سینیئر ڈاکٹر، 72 گھنٹے میں دوسرے ہسپتال کے اور 15 دن میں مینٹل ہیلتھ کمیشن کا مریض کو دیکھنا ضروری ہے۔

کمیشن میں ایک جج، ایک کسی دوسرے ہسپتال کا سائیکائٹرسٹ اور ایک معاشرے کا معزز فرد شامل ہوتا ہے۔ کسی سطح پر بھی کوئی محسوس کرے کہ نفسیاتی بیماری موجود نہیں یا اتنی شدید اور خطرناک نہیں کہ اس کی خودمختاری پر سمجھوتہ کرنا ضروری ہے تو مریض کو ہسپتال سے فارغ کر دیا جاتا ہے اور یہ تمام عمل سرکاری خرچے پر ہوتا ہے۔

سوزن کو میڈیکل وارڈ میں اس لیے منتقل کیا گیا تھا کہ وہ 10 دن کے فاقے یا روزے کی وجہ سے نمکیات اور شوگر کی کمی کا شکار تھیں اور دل کی رفتار بھی سست تھی۔ جب تک جسمانی بحالی نہ ہوتی انہوں نے وہیں رہنا تھا اور ہماری ٹیم نے نفسیاتی علاج بھی میڈیکل وارڈ ہی میں کرنا تھا۔

مسائل کا انبار تھا اور ہر مسئلہ دوسرے سے زیادہ گمبھیر تھا۔ پہلا مسئلہ درست جانچ اور تشخیص کا تھا کہ نفسیاتی بیماری ہے کس نوعیت کی؟ منہ سے گولی نہ لینے اور دل کی حرکت سست ہونے کی وجہ سے سوزن کو بس گنی چنی ادویات ہی دی جاسکتی تھیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی صحت گر رہی تھی اور زبردستی خوراک دینے کے لیے ہائی کورٹ کا حکم نامہ درکار تھا۔

اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے امراض قلب، جنرل میڈیکل اور نفسیات کی ٹیموں کا اجلاس برپا کیا گیا جس میں یہ بہترین لائحہ عمل طے ہوا کہ سوزن کی مدد کا موثر ترین طریقہ آزمایا جائے۔

دوسری طرف حکومت کی طرف سے سوزن کے لیے مقرر کردہ وکیل مسلسل یہ ثابت کرنے پر تلا تھا کہ میری موکلہ کو کوئی بیماری نہیں اور نفسیاتی ٹیم نے اس کی شخصی آزادی سلب کر کے بڑا ظلم روا کر رکھا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہاں ہم تھوڑا سا رک کر یہ دیکھ لیتے ہیں کہ سوزن کو لاحق مرض کی نوعیت کیا تھی۔ اس کے لیے دماغی امراض کی چند اصطلاحات پر ایک نظر دوڑا لیتے ہیں۔

سائیکوسس کیا ہے؟ حقیقت سے رابطہ کٹ جانا۔ ایسی آوازیں سنائی دینا جو دوسروں کو نہیں سنائی دیتیں یا ایسے منظر دکھائی دینا جو دوسروں کو نہیں نظر آتے۔ انہیں hallucinations کہا جاتا ہے۔  

ان باتوں کا یقین ہونا جو باقیوں کے لیے وجود نہیں رکھتیں انہیں delusions کہا جاتا ہے۔ خود سے رابطہ منقطع ہو جانا۔ اپنا دماغ، سوچیں، جذبات اور حرکات کسی اور کے کنٹرول میں معلوم ہونا۔

اس بیماری کی ایک شکل کو سکزوفرینیا (شیزوفرینیا) بھی کہا جاتا ہے۔ اس بیماری میں مریض کا حقیقی دنیا سے تعلق کٹ جاتا ہے۔

ایک اور دماغی بائی پولر ڈس آرڈر کہلاتی ہے، جس کے مریضوں کا مزاج گھڑی میں تولہ اور گھڑی میں ماشہ کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ کبھی وہ خوشی کے مارے اچھلتے کودتے پھریں گے جیسے ان کی لاٹری نکل آئی ہے۔ کچھ ہی دنوں بعد وہ کسی کونے میں دبک کر بیٹھ جائیں گے اور بول چال بالکل بند کر دیں گے جیسے ان پر کوئی بڑا سانحہ گزرا ہے۔ کبھی وہ بالکل نارمل دکھائی دیں گے اور پھر اچانک ان پر پاگل پن کا دورہ پڑے گا اور وہ تمام حدود پار کر لیں گے۔

دماغ میں یہ گڑبڑ کیوں پیدا ہوتی ہے؟ ان کی وجہ یہ ہے کہ دماغ کے تمام افعال کو چند کیمیائی اجزا کنٹرول کرتے ہیں جنہیں نیورو ٹرانسمٹر کہا جاتا ہے۔ جب ان کیمیائی اجزا میں سے کسی کی مقدار معمول سے بڑھ جائے یا کم ہو جائے تو ان کا توازن بگڑ جاتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو مریض کو ایک اور ہی دنیا میں پہنچا دیتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جو اس کے لیے حقیقی اور دوسروں کے لیے غیر حقیقی ہوتی ہے۔

اس دوران گمان حقیقت بن جاتے ہیں، وہم حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں، خواب کی دنیا اور اصل دنیا آپس میں گڈمڈ ہو جاتی ہیں۔

بعض مریض سمجھتے ہیں کہ لوگ ان کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ اگر محفل میں دو لوگ سرگوشی میں بات کر رہے ہیں تو وہ لازمی طور پر اس کے خلاف کوئی خطرناک منصوبہ تیار کر رہے ہیں۔ حکومت نے اگر کوئی حکم نامہ جاری کیا ہے تو اس کا ہدف صرف انہیں کی ذات ہے، وغیرہ۔

یہ صورتِ حال خطرناک رخ بھی اختیار کر لیتی ہے۔ ایسے کئی کیس رپورٹ ہوئے ہیں جب لوگوں نے اپنے دماغ کے اندر چلنے والے وہم کی بنا پر کسی کو قتل کر دیا۔

اس بات کا یقین کہ آپ کا ہمسایہ آپ کے خلاف ہے اور آپ کو مارنا چاہتا ہے، آپ اس کی جان کے درپے ہو سکتے ہیں۔

پاکستان میں توہین رسالت کے الزام میں، خدائی دعوے کے الزام میں کئی ایسے قیدی جیل کی کال کوٹھڑی میں سزائیں کاٹ رہے ہیں جو دراصل شیزوفرینیا یا بائی پولر ڈس آرڈر کے مریض ہیں اور انہیں سزا کی نہیں علاج کی ضرورت ہے۔  

بعض اوقات لوگ اپنے آپ کو پیغمبر یا ولی سمجھنے لگتے ہیں۔ اس طرح وہ خود خطرے کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ کچھ تو خدائی کا دعویٰ تک کر بیٹھتے ہیں۔ دین کے علم بردار جب تک یہ جان پائیں گے کہ خدائی دعویٰ آپ کا قصور نہیں بلکہ دماغ کے کسی کیمیکل کا ہیر پھیر ہے، قوی امکان ہے کہ مریض زمین سے چھ فٹ نیچے پہنچ چکا ہو گا۔

سوزن بھی شیزوفرینیا کی مریضہ تھیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ خدا ان سے باتیں کرتا ہے اور خدا ہی نے انہیں 40 دن کے فاقے کا حکم دے رکھا ہے۔

جب انہیں معلوم ہوا کہ میں مسلمان ہوں تو وہ مجھ سے کہنے لگیں کہ ’مجھے تو توقع تھی کہ آپ میری بات سمجھ سکیں گے، آپ کو بھی تو آپ کا خدا سال میں 30 روزے رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ پھر آپ کا فاقہ عبادت اور میرا فاقہ بیماری کیسے ہو گیا؟‘

میںDelusions  کو سمجھاتے ہوئے میں اکثر میڈیکل سٹوڈنٹس کو یہ کہتا ہوں کہ تعریف کا حصہ ہے کہ یہ وہ غلط یقین یا اعتقاد ہے جو مذہب اور کلچر سے واضح نہ ہو۔ خدا کو کسی نے نہیں دیکھا مگر اس کے وجود کو بے شمار لوگ مانتے ہیں تو یہ delusion کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ خدا کی آوازوں کا آنا اور فاقہ کر کے احتجاج ریکارڈ کرانا، مقامی کلچر یا مذہب سے واضح نہیں ہوتا، لہٰذا سے دماغی مریض قرار دینا اور اس کی مرضی کے خلاف علاج کرنا ہی مناسب قدم ٹھہرتا ہے۔

 پاکستان میں سرکاری ہسپتال کے تجربے اور جیل سے لائے گئے مبینہ ملزمان کو دیکھ کر یہاں ذہنی صحت کے انفراسٹرکچر کی کمی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔

یہاں توہین رسالت کے الزام میں، خدائی دعوے کے الزام میں کئی ایسے قیدی جیل کی کال کوٹھڑی میں سزائیں کاٹ رہے ہیں جو دراصل شیزوفرینیا یا بائی پولر ڈس آرڈر کے مریض ہیں اور انہیں سزا کی نہیں علاج کی ضرورت ہے۔  

بائی پولر کے تو کئی مریض بیماری کے حملے کے درمیان مکمل صحت مند ہوتے ہیں اور انہیں اپنی بیماری کا بھی مکمل ادراک اور اس کے بارے میں معلومات ہوتی ہیں۔

تصویر کا دوسرا رخ اس سے زیادہ خطرناک ہے کہ ان لوگوں کا جیل میں رہنا ہی شاید ان کی زندگی کی ضمانت ہوتا ہے۔ معاشرے کے نام نہاد نارمل اور مذہبی لوگ ان کے عمل کا محرک جاننے سے پہلے ہی شاید انہیں اگلے جہان میں پہنچا دیں۔

خیر تو ہم بات کر رہے تھے سوزن کی۔ ہفتہ وار اینٹی سائیکوٹک ٹیکوں سے انہیں خدائی آوازیں بھی بند ہو گئیں، فاقے کا کفر بھی خدا خدا کر کے ٹوٹ گیا۔ ان کے حلق سے نلکی باہر نکال لی گئی اور منہ سے خوراک لینا شروع ہو گئی۔

سوزن کی حالت بہتر ہوئی تو پہلے انہیں میڈیکل وارڈ سے نفسیاتی وارڈ منتقل ہوا۔ پھر مزید بہتری آئی تو انہیں ہسپتال سے فارغ کر کے گھر بھیج دیا گیا۔

 خدا کی آوازیں سننے کے یقین پر کھانا بند کرنے سے لے کر ان علامات کو بیماری کا حصہ سمجھنے اور دوائی کھا کر ٹھیک رہنے کے عہد تک، ہم نے ٹیم کے طور پر مریضہ کے ساتھ سفر کیا۔

جب ذات کی سرحدیں گڈمڈ ہو جائیں اور گمان حقیقت بن جائے اور صرف آپ کے لیے ہی بنے تو ایسے لوگوں کو ہمدردی کی اور علاج کی ضرورت ہے۔ تمسخر، قید، الزامات اور امتیازی سلوک چاہے افراد کی طرف سے ہو یا معاشرے کی طرف سے نفسیاتی بیماریوں کے شکار مریضوں کو سوائے معاشرے کا غیر فعال رکن بنانے کے اور کچھ نہیں کرتا۔


ڈاکٹر اسامہ راولپنڈی کی فاؤنڈیشن یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ ہیں اور انہوں نے برطانیہ اور آئرلینڈ سے ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں۔ وہ انڈپینڈنٹ اردو کے لیے نفسیاتی بیماریوں کے موضوع پر لکھا کریں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت