کیا بچے قریبی رشتوں سے بھی محفوظ نہیں؟

تیسری ملاقات میں یہ عقدہ کھلا کہ معاملہ پسندیدگی یا لگاوٹ کا نہیں بلکہ شدید نوعیت کا ہے اور 16 سالہ پھوپھی کا لڑکا مریضہ کو جنسی طور پر ہراساں کر رہا ہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

کیا مائیں بھی رشتوں کے تانوں بانوں میں پھنس کر اولاد کو بھیانک ترین بھنور سے نہیں نکال سکتی بلکہ اور دھنسا دیتی ہیں؟(فائل تصویر: اے ایف پی)

شہر کے معروف ہسپتال کے بچوں کے شعبے میں نفسیاتی علاج کے لیے مختص کمرے کا دروازہ کھلا اور دو خواتین اندر داخل ہوئیں۔

میں ذرا چونک گیا کیوں کہ دونوں خواتین 30 کے لگ بھگ لگ رہی تھیں اور یہ بچوں کا کلینک تھا۔ میں نے سوچا شاید اگلی دفعہ بچہ ساتھ لانا ہو گا اور آج معلومات کے لیے آئی ہوں گی۔ دونوں میں سے قد میں لمبی اور وزن میں کافی کم خاتون نے شہر کے مشہور پرائیویٹ سائیکائٹرسٹ کی فائل میز پر رکھی اور فائل رکھتے ہیں رونا شروع کر دیا۔

میں نے اسے ٹشو پیپر دیا اور آنے کی وجہ دریافت کی۔ دوسری خاتون جو قد میں قدرے کم مگر وزن میں کافی زیادہ تھی، غور سے دیکھنے پر کم عمر ہی لگیں اور اپنے آپ میں گم محسوس ہوئیں۔

خاتون نے آنسو پونچھنے کے بعد بتایا کہ ان کے ساتھ اس وقت ان کی 12 سالہ بیٹی ہے جس کو دورے پڑتے ہیں اور دوائی استعمال کر کے اس کا وزن بے تحاشا بڑھ گیا ہے۔ چہرے پر بال بھی اگ آئے ہیں اور وہ اپنی عمر سے کئی گنا زیادہ دکھائی دیتی ہے۔

میں نے حیرت زدہ ہو کر ماں سے تفصیل پوچھی جس کی بیٹی اس کی ہم عمر دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ اس کی بیٹی مرگی کی دوائی اور اینٹی سائیکاٹک ادویات اپنی عمر سے کئی زیادہ خوراک میں چھ ماہ سے لے رہی تھی۔ چلتے چلتے گر جانا اور جسم کو کئی منٹ تک جھٹکے لگنا، اس کیفیت میں وہ بچی تقریباً دو ماہ سے مبتلا تھی۔ ابتدا دم سے ہوئی جو محلے کی مسجد کے مولوی نے کیا پھر کسی بابا جی سے تعویذ لکھوائے گئے اور اس کے بعد باری آئی ڈاکٹر کی۔

ڈاکٹر نے بھی زیادہ بات چیت کرنا مناسب نہ سمجھا اور دماغ کی لہروں کی جانچ سمیت ہزاروں روپے کے ٹیسٹ کرا کروا دوائی شروع کر دی۔ خاطر خواہ فائدہ نہ ہونے اور دوروں کی کیفیت بڑھنے پر دوائی کی مقدار بڑھتی گئی، بچی کا وزن بھی بڑھتا گیا اور چہرے پر بال اگتے گئے۔ دورے کم نہ ہوئے اور کسی عزیز کے مشورے پر عمل کر کے آج وہ میرے دفتر میں موجود تھے۔

 دورے عموماً دو طرح کے ہوتے ہیں، دماغی اور نفسیاتی۔ دونوں کا علاج یکسر مختلف ہوتا ہے۔ دماغی دورے دوائی سے ٹھیک ہوتے ہیں اور عرف عام میں انہیں مرگی کے دورے کہا جاتا ہے۔ نفسیاتی دوروں کی وجہ عموماً لاشعور کی کوئی گتھی یا شعوری پریشانی کا صحیح راستے سے اظہار نہ ہنا ہوتی ہے۔ عموماً ساتھ ڈپریشن (بلاوجہ اداسی) یا اینگزائٹی (بےچینی) کی علامات بھی ہوتی ہیں۔

پاکستان کی عوام خاص کر خواتین میں یہ بیماری عام ہے اور علاج میں دوائیوں کا کردار کم اور نفسیاتی گتھیوں کو سلجھانے کا زیادہ ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے معالجین پاس وقت کم ہی ہوتا ہے۔

میں نے پہلی ملاقات میں یہ تعین کر لیا کہ دورے نفسیاتی ہیں اور دوائی کم کرنا شروع کی۔ کچھ ڈپریشن اور بےچینی پر کام کیا اور کوشش کی کہ ڈاکٹر مریض کا رشتہ استوار کیا جائے تاکہ شعوری اور لاشعوری طور پر وہ آسانی سے مجھے اپنے ذہن کی گتھیوں اور گرہوں تک رسائی دے سکے۔

دوسری ملاقات میں کچھ چیزیں واضح ہوئیں۔ اس نے اپنی پھوپھی کے لڑکے کا ذکر کیا، مگر جب بھی وہ بات کرنے کی کوشش کرتی، اس کی ماں بیچ میں ٹوک دیتی تھی۔ ماں کا اصرار تھا کہ میں نفسیاتی گرہوں وغیرہ کے چکر میں نہ پڑوں، صرف ادویات بدل کر اس کی بیٹی کے موٹاپے پر قابو پانے کی کوشش کروں اور نئے دورے روکنے کے لیے دوائیں بدل کر دوں۔

اس کی پوری کوشش رہتی تھی کہ میں لڑکی سے خود بات کر کے اس کا احوال جاننے کی کوشش نہ کروں۔ بصد اصرار ہی کچھ بات چیت کی اجازت دی جاتی تھی۔

لیکن میں نے بھی ہمت نہیں ہاری اور کسی نہ کسی طرح لڑکی سے اصل مسئلہ اگلوانے میں کامیاب ہو گیا۔ تیسری ملاقات میں یہ عقدہ کھلا کہ معاملہ پسندیدگی یا لگاوٹ کا نہیں بلکہ شدید نوعیت کا ہے اور پھوپھی کا 16 سالہ لڑکا مریضہ کو جنسی طور پر ہراساں کر رہا ہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

بچی کے آنسوؤں نے اس ملاقات میں بات آگے نہ بڑھنے دی۔ چار ہفتوں میں دوروں کی شدت اور تعداد کم ہو گئی تھی مگر بچی گم سم سی ہونے لگی۔

تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ ہر چھ میں سے ایک بچی کسی نہ کسی طور جنسی بدسلوکی کا شکار ہوتی ہے۔ غلط العام تاثر یہ ہے کہ مکمل طور پر جنسی عمل کا ہونا ہی جنسی بدسلوکی یا sexual abuse کے زمرے میں آتے ہیں، مگر نابالغ بچے سے کسی اور کے جنسی اعضا کو چھونا، جنسی کھیل کھیلنا، مختلف اشیا کے استعمال سے جنسی تلذذ لینا، یہ سب جنسی بدسلوکی کے زمرے میں آتا ہے۔ بچوں کو پورنوگرافی دکھانا، جنسی اعضا دیکھنا یا دکھانا، جنسی عمل دکھانا اور برہنہ کر کے تصاویر لینا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔

اس تناظر میں دیکھیں تو ہمارے اردگرد کتنے بچے اور بچیاں اس کا شکار ہوں گے۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ زیادہ تر بدسلوکی کرنے والے خاندان سے ہی ہوتے ہیں، رشتے دار ہوتے ہیں اور اسی گھر میں رہتے ہی ۔ عالیہ بھٹ کی فلم ہائی وے بھی اس ضمن میں قابل ذکر ہے۔

 جنسی ہراسانی کا شکار بچے، بچپن اور جوانی میں کئی نفسی جنسی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے حوالے سے ہائی رسک ہوتے ہیں۔ ڈپریشن، انزائٹی، نفسیاتی دورے یا ,dissociation نشہ آور اشیا کا استعمال، شخصیت کے عارضے، sexual dysfunction اور جنسی بیماریاں وغیرہ ان بچوں میں عام طور پر دیکھی گئی ہیں۔

جو بچے مسلسل اس عمل کا شکار رہتے ہیں ان کے اندر دماغی اور کیمیائی تبدیلیاں بھی دیکھی گئی ہیں۔ نفسیاتی گتھیاں ان سب کے سوا ہیں۔ قریبی عزیز کے ذہن میں اس عمل کا خیال آنے سے لے کر متاثرہ انسان کی زندگی کے آخری سانس تک اس گتھی کا کوئی سرا ہاتھ آتا ہے اور کوئی نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تیسری دفعہ کے بعد اس بچی نے اپنی والدہ کو جب یہ بات بتائی تو اس خاتون نے اسے بری طرح ڈانٹ دیا اور اسے بچی کے ذہن کا فتور قرار دے دیا۔ چوتھی دفعہ جب یہی ہوا اور والدہ کو بتایا تو والدہ نے پھر جھاڑ پلائی اور سمجھایا کہ پھوپھی کے اس لڑکے سے اس بچی کا رشتہ ہونا ہے لہٰذا اس بات کو یہیں دیا دو۔

میں نے مشورہ دیا کہ بچی پھوپھی کے گھر آنا جانا ترک کر دے یا بہت کم کر دے۔ مگر ماں اس پر بھی راضی نہ ہوئی۔ میں بےبسی اور حیرت کے مارے یہ سب دیکھتا رہا مگر میرے بس میں کچھ نہ تھا۔ ملک میں بچوں کی حفاظت کے لیے قوانین کے عدم نفاذ کی بنا پر بچی کی حفاظت کے لیے صرف وہ بچی یا اس کے والدین ہی کوئی انتظام کر سکتے تھے۔

مجھے پتہ تھا کہ ماں کچھ نہیں کرے گی اس لیے میں نے اس سے کہا کہ میں لڑکی کے باپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ وہ خاتون ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں سمجھ چکی تھی کہ میں معاملے کی جڑ تک پہنچ گیا ہوں۔ معاملہ چونکہ انتہائی حساس نوعیت کا تھا اور بچی نابالغ تھی لہٰذا والدین کی مدد کے بغیر کوئی بھی قدم اٹھانا ناممکن تھا۔

باپ سے ملنے والی بات سنتے ماں کے آنسو چھلک پڑے۔ ٹشو پیپر دینے پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ’ڈاکٹر صاحب میں بےبس ہوں ہو ایسی بات پر بیٹی کی طرفداری کروں تو بری بنوں اور طرفداری نہ کروں تو بھی بری بنوں۔‘

میں نے کہا، ’بات طرفداری کی نہیں، آپ کی بیٹی کے تحفظ اور صحت کی بات ہے اور معاملہ نہایت گمبھیر ہے۔‘

سمجھانے بجھانے پر والد کو لانے اور فیملی میٹنگ پر رضامند ہو گئیں، لیکن والد کو صرف اتنا بتایا کہ دوروں کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔

 جس طرح والدہ کو معاملہ سمجھایا تھا، والد کے گوش گزار بھی کیا تو پہلے تو وہ بھڑک اٹھے اور غصے میں اپنی بیوی کو موردِ الزام ٹھہرانے لگے۔ کچھ وقت کے بعد انہیں بھی معاملے کی سنگینی اور حساس نوعیت کا احساس ہوا تو معاملے کے حل کی طرف بات بڑھی۔

عارضی طور پر بچی کے اکیلے رہنے اور پھوپھی کے گھر آنے جانے پر پابندی لگائی گئی اور اس کے بعد ان کے دفتر میں دوسرے شہر میں تبادلے کے معاملے پر بات ہوئی۔ بچی کا تحفظ، جو کہ پہلی ترجیح تھی اور والد کے ان اقدام سے یقینی ہو رہی تھی، لہٰذا اس ملاقات کا اختتام میری توقع سے بڑھ کر ہوا۔

مرگی کی دوائی مکمل بند کرنے اور اینٹی ڈپریسنٹ ادویات شروع کرنے پر باہمی اتفاق بھی اس نشست کے اہم فیصلوں میں سے ایک تھا۔ چونکہ ان کا ارادہ دوسرے شہر منتقل ہونے کا تھا لہٰذا قریبی سائیکائٹرسٹ سے رجوع اور جنسی بدسلوکی کے اثرات سے نمٹنے اور مستقبل میں بچی کی مدد کا منصوبہ دے کر فائل بند کر دی۔

اس کیس نے کئی سوالات اٹھائے، جن کا جواب چار سال گزرنے کے بعد بھی مبہم ہے۔ کیا بچے قریبی رشتوں کے ہاتھوں بھی محفوظ نہیں؟ کیا مائیں بھی رشتوں کے تانوں بانوں میں پھنس کر اولاد کو بھیانک ترین بھنور سے نہیں نکال سکتی بلکہ اور دھنسا دیتی ہیں؟

جدید طب کا بنیادی اصول ’نو ہارم‘ (no harm) ہے، یعنی اگر ڈاکٹر مریض کو فائدہ نہ پہنچا سکے تو کم از کم نقصان بھی نہ دے۔ مگر افسوس کہ وہ ڈاکٹر جن کے پاس مریض سے بات کرنے کا بھی وقت نہیں، وہ یہ بنیادی اصول پامال کر رہے ہیں۔


ڈاکٹر اسامہ راولپنڈی کی فاؤنڈیشن یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ ہیں اور انہوں نے برطانیہ اور آئرلینڈ سے ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں۔ وہ انڈپینڈنٹ اردو کے لیے نفسیاتی بیماریوں کے موضوع پر لکھا کریں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت