لاہور: دماغی بیماری کے لیے 30 لاکھ کا علاج پہلی بار مفت

یہی امپلانٹ پاکستان میں پرائیویٹ طور پر 30 لاکھ میں ہوتا ہے جب کہ اگر امریکہ سے کروایا جائے تو اس پر ایک کروڑ کی لاگت آتی ہے۔

پارکسنز ایک اعصابی بیماری ہے جس کے مریض اپنے پٹھوں پر کنٹرول کھو بیٹھتے ہیں (پیکسلز: فائل فوٹو)

پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز پارکنسنز بیماری میں مبتلا 40 مریضوں کا ڈیپ برین سٹیمیولیشن (ڈی بی ایس) امپلانٹ کرے گا۔ کسی بھی سرکاری سطح پر اتنے بڑے پیمانے پر پہلی مرتبہ یہ امپلانٹ مفت کیے جائیں گے۔ 

یہی امپلانٹ پاکستان میں پرائیویٹ طور پر 30 لاکھ میں ہوتا ہے جب کہ اگر امریکہ سے کروایا جائے تو اس پر ایک کروڑ کی لاگت آتی ہے۔

پی آئی این ایس کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ امپلانٹس ایک ڈیڑھ ماہ بعد شروع ہو جائیں گے۔

پارکسنز ایک اعصابی بیماری ہے جس کے مریض اپنے پٹھوں پر کنٹرول کھو بیٹھتے ہیں۔ بی ڈی ایس امپلانٹ ایک آلہ ہے جو مریض کے دماغ کے اندر نصب کیا جاتا ہے جس سے وہ اعصاب پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیتے ہیں۔

ڈاکٹر خالد محمود نے بتایا کہ سرکاری سطح پر پارکنسنز کے مریضوں کا ڈی بی ایس پہلی مرتبہ  انہوں نے 2014 میں جنرل ہسپتال میں کیا تھا۔

انہوں نے کہا، ’جب میں نے یہ آپریشن کیا تھا اس وقت اسلامی ممالک میں یہ آپریشن صرف سعودی عرب میں ہوتا تھا۔ اس وقت صاحب حیثیت مریض اس آپریشن کے لیے امریکہ یا برطانیہ جاتے تھے، جو ذرا درمیانے طبقے کے مریض تھے وہ بھارت جایا کرتے تھے۔ لیکن ان مریضوں کو بھارت جانے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا تھا کہ جب وہ وہاں جاتے تھے تو انہیں ڈیوائس اور اس کی بیٹری کی ایڈجسٹمنٹ یا کرنٹ کی سپیڈ وغیرہ کا مسئلہ درپیش ہوتا تھا۔ جس کے لیے انہیں پھر بھارت جانا پڑتا تھا جس میں اکثر ویزے کے حصول میں دقت پیش آتی تھی، جس کی وجہ سے یہ ایک بہت مہنگا طریقہ علاج بن جاتا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ چھ برس قبل جب انہوں نے یہ امپلانٹس پاکستان میں کرنے شروع کیے تب سے اب تک وہ 50 سے زائد ڈی بی ایس امپلانٹس آپریشنز کر  چکے ہیں۔ ڈاکٹر خالد کے خیال میں ’یہ ایک ریکارڈ ہے کیونکہ دنیا بھر میں جو میڈیکل سینٹر سال بھر کے دس ڈی بی ایس امپلانٹس کرتا ہے وہ ایک اچھا سینٹر کہلاتا ہے۔ ہمارے بعد آغا خان کراچی میں بھی یہ آپریشن شروع کیے گئے اور لاہور میں بھی ایک دو نجی ہسپتالوں میں یہ آپریشن کیے جا رہے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ یہ ایک مہنگا آپریشن ہے اگر آپ اسے امریکہ سے کروائیں تو کم سے کم ایک کروڑ روپے کا خرچہ ہو گا لیکن یہی امپلانٹ اگر پاکستان میں کروایا جائے تو 30 لاکھ روپے لاگت آئے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ چار سال پہلے ڈی بی ایس ڈیوائس امریکہ کی دو کمپنیاں تیار کرتی تھیں اور ان کی اجارہ داری ہوتی تھی۔ ابھی بھی امریکی ڈیوائس 28 لاکھ میں پڑتی ہے۔ جبکہ چار سال پہلے چین نے ڈی بی ایس بنانا شروع کیا ہے جس کی قیمت ساڑھے آٹھ ہزار ڈالر ہے جو پاکستانی 13 لاکھ روپے بنتی ہے۔ مزید یہ کہ چینی ڈیوائس کا معیار بھی بہت اچھا ہے۔  اس لیے ہم نے چینی کمپنی کے ساتھ 40 ڈیوائسز کا ٹینڈر کیا ہے اور اس کام کے لیے ہم نے ساڑھے پانچ کروڑ روپے کی رقم مختص کی ہے جو ادارے کو حکومت کی طرف سے دیے جانے والے سالانہ بجٹ سے ہی استعمال کی جائے گی۔ امید یہ ہے کہ یہ ڈیوائسز ہمارے پاس اگلے مہینے پہنچ جائیں گی اور ہم آپریشنز شروع کر دیں گے۔‘

ڈاکٹر خالد نے بتایا کہ یہ ڈیوائسز کن مریضوں کو لگیں گی اس کے لیے ہمارا ایک بورڈ بیٹھے گا جو پارکنسز کے مریضوں کا جائزہ لے گا کہ کون سے مریض ایسے ہیں جنہیں اس کی سخت ضرورت ہے اور جو اپنے خرچے سے یہ آپریشن کروانے کے قابل نہیں ہیں۔ پہلے بھی جو امیر مریض تھے وہ ڈی بی ایس امپلانٹ خود خریدتے تھے یا جو غریب تھے وہ سی ایم سے درخواست منظور کروا کر لاتے تھے یا زکوۃ فنڈ سے مالی مدد حاصل کرتے تھے۔ ہم ان مریضوں سے آپریشن کرنے کے کوئی پیسے وصول نہیں کرتے۔‘

ان کا کہنا تھا ان 40 ڈی بی ایس امپلانٹس سے غریب مریضوں کو کافی سہولت ہوجائے گی۔ 

پارکنسنز کی بیماری کیا ہے؟

ڈاکٹر خالد کا کہنا ہے کہ پارکنسنز کی بیماری کی وجوہات معلوم نہیں ہو سکیں کہ یہ کیوں ہوتی ہے، لیکن پاکستان میں یہ بیماری مغربی ممالک کی نسبت کم عمر میں لاحق ہو جاتی ہے۔ ’میرا سب سے کم عمر مریض جن کا ڈی بی ایس امپلانٹ میں نے کیا ان کی عمر 23 برس تھی۔‘

ڈاکٹر خالد محمود نے بتایا کہ پارکنسنز ایک اعصابی بیماری ہے جس میں سب سے پہلے رعشہ شروع ہوتا ہے۔ یعنی آپ اپنے ہاتھ کو حرکت نہیں دیتے بلکہ انگلیاں خود سے ہلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد مریض میں کھنچاؤ پیدا ہو جاتا ہے، جسم کے مختلف حصے اکڑنا شروع ہو جاتے ہیں، مریض کے جسم کے مختلف حصوں کی حرکت سست ہو جاتی ہے، وہ آہستہ آہستہ چھوٹے چھوٹے قدم لے کر چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی یادداشت بھی کمزور ہو جاتی ہے۔ اس بیماری کے علاج کے لیے مختلف ادویات استعمال کی جاتی ہیں لیکن اگر ان ادویات کے ساتھ ڈی بی ایس امپلانٹ کروا لیا جائے تو مریض کا معیار زندگی کافی حد تک بہتر ہو جاتا ہے۔‘

بی ڈی ایس کیا ہے اور اسے دماغ میں کیسے لگایا جاتا ہے؟

ڈاکٹر خالد نے بتایا کہ ’ڈی بی ایس کا آپریشن پانچ گھنٹے طویل ہوتا ہے۔ یہ ایک بیٹری سے چلنے والی ڈیوائس ہوتی ہے جسے نیورو سٹیمیولیٹر بھی کہا جاتا ہے جو بالکل دل کے پیس میکر کی طرح ہے۔ اس کا سائز ایک سٹاپ واچ جتنا ہوتا ہے۔ اس میں آپریشن کے دوران مریض کے سر میں ایک سوراخ کے ذریعے الیکٹروڈز دماغ کے اندر داخل کیے جاتے ہیں۔ انسانی جسم کی حرکت کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ دماغ کے کچھ ٹارگیٹڈ حصوں کو ایک خاص مقدار میں کرنٹ پہنچاتے ہیں اور ان اعصابی سگنلز کو روکتے ہیں  جس سے رعشہ یا پارکنسنز بیماری کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ مریض کی کالر بون یا چھاتی کے نچلے حصے میں بھی ایک ڈیوائس لگائی جاتی ہے جسے IPG یا امپلس جنریٹر بیٹری کہتے ہیں جو دل کے پیش میکر کی مانند ہوتی ہے۔ یہ دماغ کے اندر پہنچائے جانے والے کرنٹ کو کنٹرول کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جن مریضوں کا ڈی بی ایس امپلانٹ کیا جاتا ہے انہیں اس ڈیوائس کا کنٹرول بھی سکھایا جاتا ہے۔ وہ چاہیں تو اسے بند کر دیں یا چلا لیں یا کرنٹ کی مقدار کم یا زیادہ کر لیں۔ یہ مریض کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔

ڈاکٹر خالد کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس آپریشن کے اثرات آپریشن کے فوری بعد ظاہر ہو جاتے ہیں کہ ان کے رعشے میں کافی حد تک کمی آ گئی ہے اور وہ خود کو بہتر محسوس کرتے ہیں۔

2019  میں ایک سائنسی جریدےکارگر میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں پارکنسنز کے مریضوں کی تعداد تقریباً دس لاکھ ہے جو 2030 میں بڑھ کر 12 لاکھ ہو جائے گی۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت