عبدالستار ایدھی اس خطے کے بہت بڑے ناخواندہ عالم تھے۔ ایک عالم جس کا علم نصابوں کی کسی فرسودہ زمین میں سکے بو کر نہیں اُگایا گیا تھا۔ محبت کا ایک لافانی صحیفہ ہے جو اُن کے نِہاں خانہ دل پر براہ راست اترا تھا، جس کے پہلے ورق پر درج ہے، انسانیت سے بڑا کوئی مذہب نہیں اور جس کے آخری ورق پر لکھا ہے، سماج کا پہلا کلمہ روٹی ہے۔
عبدالستار ایدھی کا ذکر آتا ہے تو وہ وقت ضرور یاد آتا ہے جب ملالہ یوسفزئی کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ تب ایک بات تکرار کے ساتھ کہی گئی کہ آخر یہ مغربی دنیا عبدالستار ایدھی کو انعام کیوں نہیں دیتی؟
خود اہلِ مغرب کے لیے یہ سوال کافی دلچسپ ہو سکتا ہے مگر اُن کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی تو ہے کہ وہ غور بہت زیادہ کرتے ہیں۔ ہمارا سوال سن کر وہ ضرور اس بات پر غور کرسکتے ہیں کہ ایدھی کے لیے نوبیل انعام کا تقاضا کرنے والوں نے خود ایدھی کو اس کی زندگی میں کیا دیا اور اب جب ایدھی نہیں رہے تو یہ قوم اس کے توشۂ وراثت کو کیسے نبھا رہی ہے؟
اٹلی کے شمالی قصبے سلفرینو میں فرانس اور آسٹریا کی فوجیں ایک دوسرے کی گردنیں مارکر جب ہلکان ہو گئیں تو سوئس تاجر ہنری ڈیونانٹ وہاں سے گزرا۔ سامنے 40 ہزار انسان خون میں لت پت پڑے ہیں۔ بیشتر جان سے گزر گئے ہیں اور کچھ موت کے دروازے پر کراہ رہے ہیں۔ سوالات کی چکی ڈیونانٹ کے دماغ میں چل پڑی۔ کیا اِن مرے ہوؤں کا حق نہیں کہ انہیں احترام کے ساتھ دفنا یاد جائے؟ کیا ان زخمیوں کا حق نہیں کہ ان کے زخموں پر مرہم رکھا جائے؟ جواب آیا، جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتا ہے۔ سلفرینو میں پڑی ان لاشوں سے ہی تحریک پاکر ڈیونانٹ نے ’اے میموری آف سلفرینو‘ نامی یادداشتیں لکھیں۔ اس ضخیم کتاب کا خلاصہ یہ نکلا کہ جنگ اور محبت میں سب جائز نہیں ہوتا۔
کھارادر، کراچی کی ساحلی پٹی پر واقع تنگ گلیوں والا ایک علاقہ ہے جہاں میمن تاجر بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ کراچی میں جب خون ارزاں ہوا تو کھارادر میں بھی لاشیں گریں۔ پڑھے لکھوں کی اس جنگ کا اصول بھی یہی نکلا کہ جنگ کا کوئی اصول نہیں ہوتا۔ مگر بدقسمتی ہی کہہ لیتے ہیں کہ اسی علاقے میں عبدالستار ایدھی نامی ایک شخص رہتا تھا جو لفظ جوڑ کر اپنا نام تک نہیں لکھ سکتا تھا۔ ایک بات، جو بدھا نے انسانوں سے کنارہ کرکے برسوں کی ریاضت سے پائی تھی وہ بات ایدھی نے خلقت میں رہ کر پالی تھی: ’احترام تو جانور کا بھی ہوتا ہے، یہ لاشیں تو پھر انسانوں کی ہیں۔‘
عبدالستار ایدھی نے زندگی سے ہاتھ دھونے والے ایک راہگیر کو غسل دے کر فلاح و بہبود کا کام شروع کیا تھا۔ کسی کے قتل یا زخمی ہونے کی خبر ملتی تو زخمی یا مقتول کو ریڑھی پہ ڈال کر لے جاتے۔ جھاڑیوں، ندی نالوں سے ملنے والی وہ لاشیں جس کی تاب ورثا بھی نہیں لا پاتے، ایدھی صاحب گھر سے پائپ نکال کر اسے غسل دیتے اور تجہیز و تکفین کا انتظام کرتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایدھی صاحب نے ترقی کا پہلا زینہ پوٹھوہار جیپ میں بیٹھ کر عبور کیا تھا۔ یہ جیپ ایدھی صاحب کی کُل کائنات تھی۔ یہ فلاحی دفتر بھی تھا، شبستان بھی تھا، غسلِ میت کا پٹھا بھی تھا، تابوت بھی تھا اور ایمبولینس بھی تھی۔ شہر میں جتنی لاشیں گر رہی تھیں اتنے کندھے میسر نہیں تھے۔ ایدھی صاحب نے کشکول اٹھایا اور ایم اے جناح روڈ پر بیٹھ گئے۔ پیسہ پیسہ جوڑ کر انہوں نے ایک پوری فلاحی سلطنت کھڑی کر دی۔
ایدھی صاحب کی اس فلاحی سلطنت نے درد کا درماں ہی نہیں کیا۔ بہت چھوٹی چھوٹی ایسی باتیں بھی اپنے عمل سے سکھائیں جس کا تصور معاشرے کے باشعور کہلائے جانے والے طبقے کے لیے بھی ابھی اجنبی تھا۔ ایدھی صاحب نے سکھایا کہ دُکھ اور سُکھ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ بھوک کا کوئی مسلک نہیں تھا۔ یتیمی اور مفلسی کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔ زخمی کی کوئی وابستگی نہیں ہوتی اور لاش کبھی مجرم نہیں ہوتی۔ ایک ایسی بات بھی ایدھی صاحب بتا گئے، اِس معاشرے میں جس کے اظہار کے لیے ماں کا دل اور سقراط کا جگر چاہیے۔ انہوں نے بتایا، بچہ کبھی ’ناجائز‘ نہیں ہوتا۔
ایدھی صاحب نے تو بہت کچھ دیا، ہم نے کیا دیا؟ ہم نے ایدھی صاحب کو ایک الزام دیا کہ وہ انسانی اعضا کا غیرقانونی کاروبار کرتے ہیں، اس لیے اعتبار کے لائق نہیں ہیں۔ ہم نے انہیں ایک دھمکی دی کہ شہر چھوڑ دو ورنہ قتل کر دیے جاؤ گے۔ ہم نے ایک فتویٰ دیا کہ ایدھی صاحب قادیانی ہیں اس لیے انہیں چندہ دینا ٹھیک نہیں ہے۔ ہم نے ایک اور فتویٰ دیا کہ وہ بچوں کے لیے پنگھوڑے لگا کر دراصل زنا کو فروغ دے رہے ہیں، اس لیے لوگ بہت سوچ سمجھ کر انہیں عطیہ دیں۔
آخری معرکے میں ہم نے ایدھی صاحب کو اُن کی خواب گاہ میں دھکا دیا۔ یہ دھکا اس عرصے میں دیا جب ایدھی صاحب سہارے سے اٹھتے تھے اور دیوار پکڑ کر چلتے تھے۔ پیرانہ سالی میں بندوق تان کر ہم نے اُنہیں دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑا ہونے کو کہا۔ کھڑا ہونے کو ہی نہیں کہا، ہاتھ اٹھا کر کھڑا ہونے کو کہا۔ ہم لاکر میں رکھی لوگوں کی امانتیں اور ایدھی صاحب کا احترام لُوٹ کر لے گئے۔
یہ تمام تر حشر ٹوٹنے کے بعد بھی ایدھی صاحب کا کیا بگڑنا تھا۔ کچھ بگڑا تو اُن لوگوں کا بگڑا جن کے پیارے ایڑیاں رگڑتے رہے مگر ایمبولینس نہیں پہنچ سکی۔ ان کا بگڑا جنہوں نے درد کی دوا کے لیے چارہ ساز کے مطب پر دستک دی مگر بلقیس ایدھی نے بتایا، بیٹا وہ تو خود اپنی جان بچانے امریکہ چلے گئے ہیں۔ یعنی ’وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔‘ خمیازہ تو ان بچوں نے بھگتا جن کے فیصلے کو اپنی پیدائش میں کوئی دخل نہیں تھا۔ پیدا ہوئے تو وہ گود نہیں تھی جو فتویٰ ساز کارخانوں کی چمنیوں سے اٹھنے والے دھویں سے معصوم بچوں کو بچایا کرتی تھی۔
جون ایلیا نے تو کہا تھا کہ یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی، یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم؟ مگر ایدھی صاحب شاعر نہیں تھے خدائی خدمت گار تھے۔ خدائی خدمات گار، جو اپنے حصے کے چراغ روشن کرتا ہے، ہواؤں سے شکایتیں نہیں کرتا۔ ایدھی صاحب پانچ برس بعد اپنے شہر واپس لوٹے تو بہت کچھ بدل چکا تھا۔ کوئی چیز اگر نہیں بدلی تھی تو وہ فقیہِ شہر کی روِش تھی۔
گرفتاری کے موقع پر چی گویرا کے بازو جس فوجی اہلکار نے کاٹے تھے آخری عمر میں وہ بینائی سے محروم ہو گیا۔ اس کی بینائی کیوبا کے اُسی ہسپتال نے واپس لوٹائی جس کی بنیاد چی گویرا نے رکھی تھی۔ کراچی میں جس ادارے نے عبدالستار ایدھی کے ایمان کا پوسٹ مارٹم کیا تھا اس کے تین اساتذہ قتل کر دیے گئے۔ میں واقعے کو رپورٹ کرنے پہنچا تو تجہیز و تکفین میں مصروف عملے کی شرٹوں پر جلی حروف میں ’ایدھی فاؤنڈیشن‘ لکھا تھا۔ جن صاحب نے فتووں کی بنیاد رکھی، خدا مغفرت کرے ایک دن وہ بھی قتل کر دیے گئے۔ عین جنازے کی نماز کے دوران جو چادر تابوت پہ رکھی تھی اس پر ایدھی کی مہر درج تھی۔ جو گاڑی تابوت اٹھائے قبرستان کی طرف بڑھ رہی تھی وہ انہی پیسوں سے خریدی گئی تھی جو حرام بتائے گئے تھے۔ انسان دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ نہ جہاں کہیں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی؟
جاتے جاتے بھی ایدھی صاحب جرم کے ارتکاب سے باز نہ آئے۔ ان کے بوسیدہ وجود میں دو آنکھیں بچ گئی تھیں وہ بھی دان کر گئے۔ شاید اس لیے کہ بعد رخصتی کے وہ اُن بچوں پر نگاہ رکھ سکیں جن کے ماتھے پر معاشرہ ’ناجائز‘ کی مہر لگانا چاہتا ہے۔ یا پھر اس لیے کہ اُنہیں وہ دن اپنی آنکھ سے دیکھنے کی حسرت ہو جب یہ معاشرہ تسلیم کرلے گا کہ کسی بھی نظریے، خیال اور عقیدے کو حضرتِ انسان کی جان اور عزت پر فضیلت حاصل نہیں ہے۔
ایدھی صاحب کی آنکھیں کچھ ہی دن بعد ایک نابینا خاتون اور ایک نابینا مرد کو لگا دی گئیں۔ اندھیرے میں رہنے والی نظروں کے سامنے دنیا یکلخت روشن ہو گئی۔ اچھے دن دیکھنے کی حسرت رکھنے والی آنکھوں نے اب تک دیکھے بھی تو دو ہی منظر دیکھے ہیں۔ ایک یہ کہ روتھ فاؤ کے ہاتھوں شفا پانے والے معاشرے نے ہی جنت کے دروازوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں کہ کہیں روتھ فاؤ یہاں نہ آ جائیں۔
دوسرا یہ کہ بلڈوزر ایدھی سینٹر کی اُس عمارت کوغیر قانونی کہہ کر ڈھا رہے ہیں جہاں کھارادر کا ایک کھدر پوش زندگی کی خیرات بانٹا کرتا تھا۔ یہ اُس ملک میں ہوا جہاں قاضی نے فیصلہ دیا تھا کہ امیرِ سلطنت کے گھر کے غیر قانونی احاطے کو قانونی شمار کیا جائے۔
عبدالستار ایدھی نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا، تعلیم بڑھ رہی ہے مگر انسانیت ختم ہو رہی ہے۔ ایسے ہی کسی تجربے سے گزر کر شاید احمد فراز نے کہا تھا :
ہم کو اس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں
لوگ معمار کو چُن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ
-------------------------
عبدالستار ایدھی کی تیسری برسی کے موقعے پر خصوصی تحریر