نئے پاکستان میں ایدھی کی میراث بھی محفوظ نہیں: بلاول

سندھ میں حکومتی پارٹی کے چیرمین کا کراچی میں ایدھی کے مراکز کے کچھ حصے اور دس ایمبولینس بوتھ گرانے پر افسوس۔

بلاول نے کہا: ’جنہیں ہمارے حقوق کا تحفظ اور انصاف دینا ہے وہ بدقسمتی سے اس ظلم میں شریک ہیں‘(اے پی)

تجاوزات کے خلاف کراچی میں جاری آپریشن میں ایدھی فاؤنڈیشن کے تین مراکز کے کچھ حصے اور 10 ایمبولینس بوتھ گرانے پر ردعمل میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس کا ذمہ دار پی ٹی آئی حکومت کو ٹھہرایا ہے۔

ایدھی ایمبولینس سروس کے ممکنہ طور پر بند ہوجانے کی خبر کے جواب میں ٹوئٹر پر ردعمل دیتے ہوئے بلاول نے لکھا: ’نئے پاکستان میں عبدالستار ایدھی کی میراث بھی محفوظ نہیں۔۔۔ جنہیں ہمارے حقوق کا تحفظ اور انصاف دینا ہے وہ بدقسمتی سے اس ظلم میں شریک ہیں۔‘

گذشتہ روز بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ انسداد تجاوزات نے ملک کے سب سے بڑے فلاحی ادرے ایدھی فاؤنڈیشن کے تین مراکز کے کچھ حصے اور شہر کی 10 مختلف جگہوں پر موجود حادثے کی صورت میں زخمیوں کو ہسپتال لے جانے کے لیے کھڑی ایمبولینس کے شیڈ کو گرا دیا تھا جس کے بعد  فیصل ایدھی نے کہا تھا اب کراچی میں کسی بڑے حادثے یا قدرتی آفت کی صورت میں ایدھی ایمبولینس شہریوں کی مدد کے لیے نہیں بھیجی جاسکتی ہے۔

اس بارے میں اپنے افسوس کا ہفتے کو اظہار کرتے ہوئے بلاول نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے دیے گیے پیغام میں کہا: ’میرے پاس اس صوبے کے عوام کا مینڈیٹ ہے۔ میرا سرشرم سے جھک گیا ہے کہ ہم اس نام نہاد اینٹی انکروچمنٹ آپریشن سے غریبوں کو نہیں بچا سکے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جنہیں ہمارے حقوق کا تحفظ اور انصاف دینا ہے وہ بدقسمتی سے اس ظلم میں شریک ہیں۔‘

بلاول نے مزید کہا کہ وہ سندھ حکومت کو اس حوالے سے فوری طور پر قانون سازی کرنے کی ہدایت کرتے ہیں کہ متاثرہ افراد کے مکانات کی بحالی اور ان کی مکمل تلافی کی جائے گی، یہی نہیں بلکہ کراچی کے غریب اور کمزور افراد، ثقافتی اور تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیے بھی قانون سازی ہوگی۔

بلاول کی طرف سے پیغام صوبائی اور شہری حکومت کے درمیان تناو کی نشان دہی کرتا ہے کیونکہ سندھ میں حکومت تو پیپلز پارٹی کی ہے، لیکن کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلے پر تجاوزات کے خلاف آپریشن کر رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلاول بھٹو کی سوشل میڈیا پر دیے گئے ردعمل پر ٹوئٹر صارفین میں سیاسی بحث شروع ہونے کے ساتھ اکثر صارفیں نے ایدھی کے مراکز کے کچھ حصے اور ایمبولینس بوتھ کے مسمار ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس کا ازالہ کیا جائے۔

مُحسِن میر نامی صارف نے کہا کہ تجاوزات ہٹانے کا حکم سپریم کورٹ نے دیا ہے۔ انہوں نے بلاول بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ’اس صوبے میں آپ کا مینڈیٹ ہے تو آپ نے ان کو قانونی حق کیوں نہیں دیا۔‘

 

اسی طرح صارف اے آر محمد نے کہا کہ پی پی پی کی حکومت کراچی کو ایمرجنسی سروسز دینے میں ناکمام ہوگئی لیکن وفاقی حکومت پر الزام لگا رہی ہے۔

 

بلدیہ عظمیٰ کس کے زیر انتظام؟

بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ انسداد تجاوزات کے ڈائریکٹر بشیر صدیقی نے رابطہ کرنے پر کہا کہ انہوں نے یہ تجاوزات سپریم کورٹ کے حکم پر ہٹائے ہیں۔ ’ہم نے رمضان سے پہلے بھی سب کو نوٹس دیے تھے پھر دو اور بھی نوٹس دیے، آخر میں ہم نے آپریشن کرکے ہٹا دیے۔ ہم نے کراچی کے پانچ اضلاع سے تجاوزات ہٹائے ہیں اب چھٹے ضلع سے بھی ہٹائیں گے۔‘

ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا محکمہ وفاق کے زیر انتظام آتا ہے جس کا ذکر بلاول بھٹو نے کیا تو بشیر صدیقی نے کہا کہ وہ تو کراچی میونسپل کارپورشن (کے ایم سی) اور میئر کراچی کے زیر انتظام ہیں۔

اس سلسلے میں جب سندھ کے وزیر بلدیات سعید غنی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ وزیر بلدیات ہیں اور صرف ان محکموں میں موجود افسران کی تعیناتی کرتے ہیں۔

ان کے مطابق قانون کے تحت کے ایم سی کے زیز انتظام آنے والے محکموں کے سربراہ میئر کراچی ہیں جو خود مختیار ہیں۔ ’میئر کراچی نہ تو سندھ حکومت کے ماتحت ہے نہ ہی وفاقی حکومت کے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ بلاول بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ انسداد تجاوزات کی طرف سے مسمار کیے گئے ایدھی بوتھ اور ایدھی مراکز کے لیے پی ٹی آئی حکومت کو ذمہ دار کیوں قرار دے رہیں ہیں، تو انہوں نے کہا: ’ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی وفاق میں اتحادی ہیں تو اس لیے بلاول نے پی ٹی آئی حکومت  کو ذمہ دار ٹھہرایا۔‘

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت، پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور کراچی کی حکومتیں اکثر ایک دوسرے کی تنقید میں آگے رہتی ہیں جن میں بڑا مسئلہ فنڈز کا ہی رہا ہے۔

 وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاق کے رویے کو انتہائی افسوس ناک اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وفاق نے سندھ حکومت کو 30 مئی کو بتایا گیا کہ سندھ کو 666 ارب روپے دیں گے، پھر 4 جون ایک خط  لکھا کہ 662 ارب روپے دیں گے اور پھر وفاقی  بجٹ میں 631 ارب روپے کا اعلان کیا۔

اسی طرح جمعے کو میئر کراچی وسیم اختر نے اپنے دفتر میں ضلع غربی کے منتخب نمائندوں کے ساتھ اجلاس کرتے کہا کہ حکومت سندھ کی جانب سے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے فنڈز روکنے سے 65 سے زائد ترقیاتی منصوبوں پر کام بند ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے یہ رقم جان بوجھ کر روکی تاکہ ترقیاتی منصوبوں کو مکمل ہونے سے روکا جائے۔ انہوں نے کہا: ’سندھ حکومت سے آئندہ بھی وسائل مہیا کرنے کی توقع نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ان کو شہر کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں اور یہ سب کچھ ہمیں ناکام کرنے کے لیے کیا جا رہا مگر منتخب نمائندوں سمیت کراچی کے عوام سمجھتے ہیں کہ ان کے میئر کو وسائل اور اختیارات سے محروم کیا ہوا ہے اس کے باوجود ہم شہریوں کے اہم ترین مسائل کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

ان تینوں حکومتوں کی لڑائی کا خمیازہ کراچی  اور اس کے شہری بھگتتے ہیں۔ یہی کراچی سرکولر ریلوے کے منصوبے اور تجاوزات ہٹانے والی کارروائی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ سرکولر ریلوے کا منصوبہ وفاقی حکومت کا ہے۔ منصوبے کے لیے زمین شہری حکومت خالی کروارہی ہے، سپریم کورٹ کے حکم پر تجاوزات بھی شہری حکومت ہٹارہی ہے جبکہ متاثرین کے معاوضے کا مطالبہ سندھ حکومت کر رہی ہے۔ اب کراچی کے شہری پریشان ہیں کہ کوں ان سے زیادتی کر رہا ہے اور کون ان کے حق میں ہے۔ نقصان کون کر رہا ہے اور معاوضہ کہاں سے ملے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست