سینیئر سیاست دان اور صدر کے سابق ترجمان فرحت اللہ بابر کی کتاب ’دی زرداری پریزیڈنسی‘ کی تقریبِ رونمائی کراچی میں ایک سنجیدہ اور فکری ماحول میں منعقد ہوئی، جہاں ملک کے ممتاز اہلِ دانش اور سیاسی رہنما بھی شریک ہوئے۔
کتاب کے مصنف فرحت اللہ بابر نے، جو صدر آصف علی زرداری کے پانچ سالہ دورِ صدارت میں نہ صرف ان کے قریب رہے بلکہ بطور ترجمان روزانہ ایوانِ صدر کی سیاسی نبض کو محسوس کرتے رہے، کراچی پریس کلب میں منعقدہ ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب کسی شخصیت پر مدح سرائی کے لیے نہیں بلکہ ایک سیاسی و تاریخی دستاویز ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اس کتاب کا مقصد ’ایک زرداری سب پر بھاری‘ جیسے نعروں کی گونج دہرانا نہیں بلکہ وہ حقائق سامنے لانا ہیں جو اس دور میں قومی تاریخ کا حصہ تو بنے لیکن جنہیں قومی شعور میں مکمل اور متوازن طریقے سے جگہ نہیں دی گئی۔
فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ انہوں نے زرداری دور میں روزمرہ کی بنیاد پر ایک ڈائری تحریر کی، جس میں وہ تمام واقعات، فیصلے، ملاقاتیں، ریاستی کشمکش اور بحران شامل کیے گئے جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہوئے۔
کتاب میں ان تمام مشاہدات کو دس تفصیلی ابواب میں ترتیب دیا گیا ہے، جنہیں مصنف نے ذاتی تاثرسے ہٹ کر ’ایک عینی گواہ‘ کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔
بحران در بحران، ’میمو گیٹ‘ کا نازک موڑ
کتاب کے نمایاں ترین ابواب میں ’میمو گیٹ سکینڈل‘ سرفہرست ہے، جسے مصنف نے ’سیاسی خودکش حملہ‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سازش نہ صرف آصف زرداری کی ذات پر حملہ تھی بلکہ اس نے ادارہ جاتی اعتماد کو بھی متاثر کیا۔
اس وقت کے قائد حزب اختلاف میاں نواز شریف کا کردار بھی اس ضمن میں نمایاں کیا گیا ہے، جنہوں نے خود کالا کوٹ پہن کرعدالت میں اس کے خلاف درخواست دائر کی، اور بعد میں اس پورے قضیے کو ایک غلطی کے طور پر تسلیم کیا۔ فرحت اللہ بابر کے بقول اس غلطی کا خمیازہ صرف زرداری نے نہیں بلکہ پوری ریاست نے بھگتا۔
عدلیہ، انتظامیہ اور افتخار چوہدری
کتاب میں اس وقت کی عدلیہ، خاص طور پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ زرداری حکومت کے تعلقات کی پیچیدگیوں کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے۔
فرحت اللہ بابر کے مطابق یہ محض قانونی معاملات نہیں تھے، بلکہ ریاستی طاقت کے مختلف مراکز کے درمیان ایک ’غیر اعلانیہ جنگ‘ تھی، جس کے اثرات آج بھی ملکی سیاست میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
ریمنڈ ڈیوس، امریکی دباؤ
امریکی سی آئی اے اہلکار ریمنڈ ڈیوس کیس کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے بتایا کہ اس معاملے پر امریکی سفیر خاصے مضطرب تھے اور انہوں نے صدر زرداری سے ملاقات کی۔
اس موقعے پر وزیر اعظم نے واضح پیغام دیا کہ ’ریاست کے اندر ریاست‘ کاتصور قبول نہیں کیا جا سکتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ صدر زرداری نے اس کیس سمیت خارجہ پالیسی کے کئی اہم محاذوں پر خود قیادت کی۔ انہوں نے نہ صرف بھارت کے ساتھ جوہری پالیسی پر واضح موقف اپنایا بلکہ سعودی عرب اور ایران جیسے علاقائی حریفوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی بھی کوشش کی۔ اس خارجہ پالیسی کے بعض پہلوؤں پر سخت ردعمل سامنے آیا، مگر زرداری نے اپنی پوزیشن پر استقامت کا مظاہرہ کیا۔
آصف زرداری: رہنما، انسان، اور سیاسی ہدف
مصنف نے تسلیم کیا کہ اگرچہ وہ صدر کے قریبی حلقے میں شامل نہیں تھے، تاہم ترجمان کی حیثیت سے انہیں غیرمعمولی حد تک باخبر رکھا جاتا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدا میں انہیں یقین نہیں تھا کہ آصف زرداری اپنی آئینی مدت پوری کر سکیں گے، لیکن زرداری نے حالات کا سامنا نہایت صبر و تحمل سے کیا۔
فرحت اللہ بابر کے مطابق زرداری اکثر ان سے شکوہ کرتے کہ ’تم بھی مجھے لیڈر نہیں مانتے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ آصف زرداری کو ان گناہوں کی سزا ملی جو انہوں نے کیے ہی نہیں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر زرداری نے انڈیا کو پہلے حملہ نہ کرنے کی پیشکش کی جس کے بعد میں خوف ناک نتائج سامنے آئے۔
ان کے بقول سیاست دانوں کا احتساب شدید اور ریاستی اداروں کا احتساب ناپید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں ایک ’چوہے بلی‘ کا کھیل مسلسل جاری رہا، جس کے اثرات سیاست کی شفافیت اور عوامی اعتماد پر پڑے۔
مستقبل کی سیاست
تقریب میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی سربراہ امینہ سید نے کتاب کی اشاعت کو اہم قدم قرار دیا۔ ان کے مطابق یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار کسی صدر کے دور کی اندرونی کہانی ایک ایسے شخص نے بیان کی ہے جو اس تمام عمل کا حصہ بھی تھا اور جس نے اس کل قریب سے مشاہدہ بھی کیا۔
کتاب میں سردار اختر مینگل اور افرسیاب خٹک جیسے رہنماؤں کے تاثرات بھی شامل کیے گئے ہیں، جو اسے ’پاور پالیٹکس‘ کی حقیقی جھلک اور ایک دستاویزی روایت قرار دیتے ہیں۔
دی زرداری پریزیڈنسی ’اب ملک بھر کے معروف بک سٹورز پر دستیاب ہے اور یہ کتاب ان تمام قارئین کے لیے ایک اہم مطالعہ ہے جو پاکستان کی سیاسی تاریخ کو اس کے اندرونی زاویوں سے سمجھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی کتاب لکھنے کے لیے کہا تھا جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’تب لکھوں گا جب پارٹی میں عہدے پر نہیں رہوں گا۔‘
فرحت اللہ بابر کی پیپلز پارٹی کے اندر صورت حال تو واضح نہیں لیکن حکومتی ادارے ان کے پیچھے ضرور ہیں۔ آج کل بھی ایف آئی اے کی جانب سے ان کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کی تحقیقات جاری ہیں۔
ایف آئی اے کی جانب سے 28 مارچ کو فرحت اللہ بابر کو سوال نامہ بھیجا گیا تھا جس میں ان سے ان کی جائیدادوں، بینک اکاؤنٹس اور گاڑیوں کی مکمل تفصیلات طلب کی تھیں۔
اس کے علاوہ ان سے بطور سینیٹر حاصل ہونے والی غیر ملکی فنڈنگ کا ڈیٹا، ذرائع آمدن اور ٹیکس ریٹرنز کی تفصیلات بھی فراہم کرنے کا کہا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق سوالنامے میں یہ بھی پوچھا گیا کہ فرحت اللہ بابر نے بطور سینیٹر کون کون سے فوائد حاصل کیے؟ اور ان کی بیوی اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادوں کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں۔
کیا یہ ڈال دوں؟ انہوں نے تاہم کسی پارٹی اختلاف کی بات نہیں کہ کہ کیوں آصف علی زرداری آج دوبارہ صدر ہیں لیکن وہ ان کے ترجمان نہیں۔