ایوان صدر اسلام آباد میں اعزازات سے نوازنے کی تقریبات تو اکثر ہوتی رہی ہیں لیکن جمعرات کی شام تقریب مختلف اور تاریخی تھی۔ ایک جمہوری حکومت کی جانب سے بری فوج کے سربراہ کو اعلی ترین عہدے و اعزاز سے نوازانے کی تقریب۔
ایوان صدر کی پانچویں منزل پر ہال میں یہ تقریب ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوئی، اگرچہ مہمانوں کی اکثریت گھنٹہ پہلے پہنچ چکی تھی۔ اس تاخیر کی وجہ نہ ماضی میں کسی نے بتائی نہ آج بتائی۔
خیر تقریب میں سب سے زیادہ غیر متوقع شرکت ملک کے تین مرتبہ وزیر اعظم بننے کا غیر معمولی ریکارڈ رکھنے والے نواز شریف کی تھی۔ وہ سروسز چیفس کے آگے ہال میں تقریب کے آغاز سے چند منٹ پہلے داخل ہوئے۔ نہ چہرے پر اس مرتبہ کوئی ماسک اور نہ تھکاوٹ یا کسی بیماری کے آثار، کافی صحت مند، مطمئن اور ہشاش بشاش دکھائی دے رہے تھے۔ ساری تقریب میں تاہم منہ میں کچھ ہلکا ہلکا پیار سے چباتے رہے۔
انہیں فرنٹ نشست بھی نوجوان بلاول بھٹو زرداری کے بغل میں ملی۔ ان کے ہم عصر آصف زرداری تو سٹیج پر بیٹھے تھے لیکن وہ مہمانوں کے ساتھ براجمان تھے۔
تقریب میں سب سے زیادہ حسب توقع غیر موجودگی وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اور ان کی پوری جماعت کی تھی۔ باقی تین وزرائے اعلی اور گورنرز کے درمیان وہ نہیں دکھائی دیئے۔ جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علما اسلام جیسی جماعتوں کی بھی نمائندگی نہیں دکھائی دی۔ بس بڑا شو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا ہی لگتا تھا۔
اے این پی کے سربراہ ایمل ولی خان جن کے اس روز استعفی کا مطالبہ کر رہے تھے وہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین حفیظ الرحمان بھی موجود تھے اور سینٹ کمیٹی میں جو ہوا اس کی وضاحت دے رہے تھے۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو روایتی چھڑی (بٹان) دیے جانے کی تقریب کے آغاز پر ان کی تعریفی تقریر میں عاصم منیر کے کیڈٹ کے زمانے کی ان کی رپورٹ تفصیل سے پڑھ کر سنائی گئی۔ اس وقت انہیں غیر معمولی حالات میں بہتر فیصلے کرنے والے لیڈر کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔
تقریب کے اختتام پر جنرل عاصم منیر کے گرد مبارک باد دینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ ہر کوئی انہیں ملنے کا خواہاں تھا، کیا صحافی کیا سیاست دان۔ ایک سے مبارک لیتے ہوئے جنرل عاصم منیر نے جواب میں کہا: ’مجھے نہیں، پاکستان کو مبارک ہو۔‘
تقریب کے بعد حکومت کے ایک مشیر سے پوچھا کہ جنرل صاحب کی اب ریٹائرمنٹ کی کیا مدت ہوگی، تو انہوں نے کہا اس عہدے کے دیے جانے کے بارے میں دو دن پہلے تک کسی کو علم نہیں تھا لہذا ’آئندہ کے دو دن کے بارے میں بھی کچھ نہیں معلوم۔ سو بس دیکھتے رہیں۔‘
تقریب میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں اپنے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ ’آج کا دن ہماری مسلح افواج کی قربانیوں کو سلام پیش کرنے کا دن ہے۔ یہ لمحہ قابلِ فخر ہے کہ ایک جری سپوت کو اعلیٰ عسکری اعزاز سے نوازا جا رہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے نہ صرف دشمن کو مؤثر جواب دیا بلکہ ایک تاریخی فتح اپنے نام کی۔ انہوں نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کے حوصلے اور جذبے کو مثالی قرار دیا اور کہا کہ یہ وہی قیادت ہے جس نے کشیدہ حالات میں ملک کا سر فخر سے بلند رکھا۔
وزیراعظم نے کہا کہ فیلڈ مارشل کا کردار صرف ایک منصب نہیں، بلکہ ایک عہد ہے، ایک ذمہ داری ہے جو وطن کی سلامتی، خودمختاری اور غیرت کی علامت ہے۔ آج ہم سب فیلڈ مارشل عاصم منیر کو سلام پیش کرتے ہیں۔
اس ملک میں یہ دوسرے فیلڈ ماشل بننے والے جنرل ہیں۔ اس عہدے پر اس سے قبل جنرل ایوب خان نے خود کو تعینات کیا تھا، جو اس وقت آرمی چیف بھی تھے اور صدر بھی۔ آج کا فیلڈ مارشل ایک جمہوری کہلوانے والی حکومت کی جانب سے تھا۔ اس کی نوعیت، حیت اور مستقبل میں کردار ابھی واضح نہیں لہذا شاید بہتر ہو اس کی قانونی طریقے سے وضاحت ہو جائے۔
تقریب کے بعد بعض صحافی اور سینیئر اینکر ایئر چیف مارشل ظہیر بابر کے گرد جمع ہو گئے اور انڈیا کے ساتھ جنگ کے دوران پاکستان فضائیہ کی دلچسپ کہانیاں سننے لگے۔