سارے ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے جیسے مفروضوں کی حقیقت؟

تقسیم کو ہوئے 75 سال گزر گئے، سو اب وقت آ گیا ہے کہ کچھ قائم شدہ تاریخی باتوں کا دوبارہ سے جائزہ لیا جائے۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی ہندوستانی رہنماؤں سے 1947 میں تقسیم کے بارے میں ملاقات (پبلک ڈومین)

برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کو 75 برس مکمل ہو چکے ہیں۔ اس خطے سے برطانوی انخلا دو نئی ریاستوں انڈیا اور پاکستان کی تشکیل کا باعث بنا۔

 انتقال اقتدار کے عمل نے متنوع معاشرے کے لیے انتہائی سہل بنا دیا کہ وہ سماجی تقسیم اور سرحدیں کھنچنے کو نہ صرف منطقی بلکہ قابل قبول حل بھی تصور کریں۔ اس فیصلے سے بیسویں صدی میں انسانوں کی سب سے بڑی ہجرت کا عمل شروع ہوا جب ایک کروڑ سے زائد لوگوں کو پناہ گاہوں کی تلاش میں سرحدوں کے پار جانا پڑا۔

کسی واقعے کی سالگرہ گزرے ہوئے وقت پر غور کرنے اور تاریخ کا ازسر نو جائزہ لینے کے لیے ایک بہترین لمحہ ہو سکتا ہے۔ بظاہر تقسیم کو مجموعی طور پر جنوبی ایشیا میں ناقابلِ مصالحت اختلافات اور موروثی مذہبی کشیدگی کے نتیجے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تقسیم کو ہوئے ایک تہائی صدی گزر چکی سو اب وقت آ گیا ہے کہ کچھ قائم شدہ تاریخی باتوں کا دوبارہ سے جائزہ لیا جائے۔

غلط مفروضوں کی بنیاد پر اس تاریخی واقعے کے گرد جھوٹے افسانوں کا جال بُنا گیا۔ یہاں ہم ان میں سے پانچ مغالطوں کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔

1: پورا ہندوستان انگریزوں کے زیر تسلط تھا

ہندوستان کا ایک تہائی حصہ کبھی بھی باقاعدہ طور پر برطانوی حکومت کے تحت نہیں رہا بلکہ 550 سے زائد شاہی ریاستوں پر مشتمل تھا۔ برطانوی حکومت کے ان ریاستوں کے ساتھ مختلف آئینی اور سفارتی انتظامات تھے، جب انگریز اقتدار چھوڑ کر گئے تو ان تمام شاہی ریاستوں سے قانونی مذاکرات کرنے پڑے۔

کشمیر ان شاہی ریاستوں میں سے ایک تھا۔ اس کے مہاراجہ سر ہری سنگھ نے اکتوبر 1947 میں ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے لیے ایک دستاویز پر دستخط کیے جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 1948 میں ریفرینڈم کا مطالبہ کیا۔ کشمیر کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اور بدامنی کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔

گوا، دمان اور دیو کے مغربی ساحلی علاقے 1961 تک پرتگالیوں کے کنٹرول میں رہے جبکہ  1954  پانڈی چیری تک فرانس کے تحت ایک نوآبادیاتی علاقہ تھا۔

2: تقسیم کے وقت تشدد کی آگ اچانک بھڑک اٹھی تھی

برطانوی حکام اور قوم پرست رہنماؤں نے اس دور کے تشدد کو پیچیدہ سیاسی مذاکرات کے خلاف نامعقول مذہبی معاشرے کے ردعمل کے طور پر دیکھا۔ لیکن اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ تقسیم کے وقت تشدد کی لہر اچانک پیدا نہیں ہوئی تھی۔ 1947 میں سامنے آنے والے تشدد کی بنیاد نوآبادیاتی دور کی ایسی پالیسیاں پہلے ہی رکھ چکی تھیں جن میں مذہبی شناختوں میں گہری تفریق پیدا کی گئی اور بعض گروہوں کو دوسروں پر ترجیح دی گئی۔

اس کی ایک مثال ’مارشل ریس‘ کا نظریہ گھڑنا تھا، جب مخصوص علاقوں کے افراد کو پولیس اور فوج میں بھرتی کیا گیا اور برطانوی راج سے وفاداری کے عوض جاگیریں دی گئیں۔ برطانوی حکام کو مارشل ریس کا خیال 1857 کی بغاوت کے بعد سوجھا جس میں مخصوص برادریوں کو ان کی نسل، جسمانی طاقت اور سب سے بڑھ کر برطانوی راج سے وفاداری کی بنیاد پر فوج میں بھرتی کے لیے مثالی سمجھا گیا۔ سکھ، جاٹ، پنجابی مسلمان اور گورکھے سبھی کی تحسین ’مارشل ریس‘ کہتے ہوئے کی گئی۔

1947 کی تقسیم کے دوران مردوں نے دوسرے مردوں اور خواتین پر حملے کیے۔ دوسرے گروہوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کا ریپ اور قتل کیا گیا اور حتی کہ کچھ مردوں نے اپنی خواتین رشتہ داروں کو ’عزت‘ اور ’غیرت‘ کے نام پر خود ہی مار ڈالا۔ یہ سب کچھ بالخصوص پنجاب میں ہوا جو بیشتر ’مارشل ریس‘ کا گڑھ تھا۔

محققین کی طرف سے ’نسل کشی‘ قرار دیا گیا پنجاب میں یہ تشدد خالص نسل اور جارحانہ مردانگی کے انہیں خطوط پر استوار تھا جن پر سامراجی قوتوں نے گذشتہ کئی برسوں کے دوران بھرتی کی پالیسیاں تشکیل دی تھیں۔

3: تقسیم کا عمل طویل مدتی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا

1947 میں سامنے آنے والے علیحدہ ریاستوں کے قیام کے مطالبات کو مسلم لیگ کی قیادت سمیت ملی جلی اور غیر متفقہ حمایت حاصل تھی۔ لیکن ان خیالات میں یہ کہیں بھی طے نہیں تھا کہ ایسی ریاستیں کیسے یا کب بنیں گی یا ان کی سرحدیں کہاں کھینچی جائیں گی۔ 1946 کے آواخر تک برطانوی حکومت برصغیر کی تقسیم کا مطالبہ تسلیم کرنے سے گریزاں تھی۔

انگریزوں کی منصوبہ بندی تھی کہ وہ 1948 میں اقتدار مقامی قیادت کو منتقل کریں گے لیکن فروری 1947 میں اعلان کیا گیا کہ لارڈ ویول کی جگہ ہندوستان میں برطانوی حکومت کے نمائندے ماؤنٹ بیٹن ہوں گے جو اگست 1947 تک اقتدار منتقل کر دیں گے۔ 3 جون 1947 کو ماؤنٹ بیٹن نے مسلم لیگ کے رہنما قائد اعظم اور گانگریس کے رہنما جواہر لعل نہرو کے ساتھ اعلان کیا کہ برصغیر نو ہفتے بعد تقسیم ہو جائے گا۔

 جون اور اگست کے درمیان سیاسی رہنماؤں اور ان کے وکلا نے پنجاب اور بنگال کے صوبوں سے گزرنے والی سرحدیں قائم کرنے کے لیے کوششیں کیں۔ اس مقصد کے لیے تشکیل دی گئی دونوں ٹیموں کی نگرانی ایک برطانوی وکیل سیرل ریڈ کلف کر رہے تھے جو اس سے پہلے کبھی ہندوستان نہیں آئے تھے۔ انہیں سرحدوں کا فیصلہ کرنے کے لیے محض پانچ ہفتوں کا وقت دیا گیا۔ اگرچہ نئی مسلم ریاست کے قیام کے مطالبات مذہبی نمائندگی کے گرد گھومتے تھے لیکن باؤنڈری کمیشن کے قانونی مذاکرات میں قدرتی وسائل اور ریاستی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی توجہ دی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہندوستان اور پاکستان کی نئی ریاستوں کی حتمی سرحدوں کا اعلان آزادی کے دو دن بعد 17 اگست 1947 کو کیا گیا۔ اس قدر تاخیر سے ہونے والے اعلان کے نتیجے میں جو قتل عام ہوا اس کی ایک مثال گورداسپور ہے۔ کیوں کہ یہ مسلم اکثریتی علاقہ تھا اس لیے مسلمانوں اور ریاست پاکستان کو قوی امید تھی کہ یہ انڈیا کا حصہ نہیں بنے گا۔ یہاں تک کہ پاکستان نے اپنا ڈپٹی کمشنر تک تعینات کر دیا۔ لیکن 17 اگست کو اچانک پتہ چلا کہ اس کی ایک تحصیل کے سوا پورا ضلع انڈیا میں شامل ہے۔ اس وقت انگریز جا چکے تھے لہذا گورداسپور میں رہ جانے والوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔

 زیادہ تر تشدد کی وجہ تقسیم کے دوران گہرے سماجی تفاوت میں اعلی سیاسی قیادت کے درمیان رابطوں کے فقدان اور اس عمل کو انتہائی جلد بازی میں سرانجام دینے کی کوششوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔

4: تقسیم کے اثرات محض علاقائی سطح تک محدود رہے

1947 کی تقسیم کے نتیجہ میں ہجرت کرنے والوں کی تعداد کا تخمینہ ایک کروڑ سے لے کر پونے دو کروڑ کے درمیان تک لگایا جاتا ہے۔ تقسیم کے نتیجے میں براہ راست فسادات کی زد میں آنے والے علاقوں سے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عدم تحفظ کی مجموعی فضا کے پیش نظر بہت بڑی تعداد نے جنوبی ایشیا سے باہر دنیا کے دوسرے حصوں میں نقل مکانی کی ہے۔

پنجاب، سندھ، کشمیر اور سلہٹ سے تعلق رکھنے والی برادریاں برطانیہ، کینیڈا، امریکہ اور اس کے علاؤہ دیگر مختلف علاقوں میں ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ یہ استعمار کی وراثت اور ابھی تک جاری اثرات کا ایک اور منہ بولتا ثبوت ہے۔ تقسیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گہری تفریق کے باوجود دنیا کے مختلف حصوں میں نقل مکانی کرنے والی یہ برادریاں ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل کر رہتی ہیں۔

5: تقسیم کا بنیادی مقصد مذہبی اختلافات کا حل نکالنا تھا

تقسیم سے متعلق بہت سی مشہور تحریریں انتہائی سطحی مطالعہ پیش کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کی اس برطانوی کالونی کو مذہبی اعتبار سے محض ہندو اور مسلم شناختوں تک محدود سمجھتے ہیں۔ گذشتہ کئی عشروں میں سامنے آنے والی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی فرق تقسیم کے عمل کی مکمل وضاحت نہیں کرتا۔

مذہبی تفریق پر مبنی تقسیم کے بیشتر تجزیے جنوبی ایشیائی معاشروں کو تشکیل دینے والے پیچیدہ سماجی اور سیاسی مسائل کو بڑی حد تک سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ تقسیم نے لوگوں کو مخصوص مذہب کے طور پر اپنی شناخت قائم کرنے اور یہاں تک کہ اس شناخت کی بنیاد پر ہجرت کے لیے مجبور کیا۔

زبانی تاریخ اور تقسیم کے ذاتی تجربوں پر باریک بینی سے غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کس طرح اس عمل نے سیاسی حل کے بجائے قومی اور مذہبی سطح پر نئی تفریق پیدا کی۔

 اس طرح کی تحریروں نے برٹش انڈیا میں مختلف گروہوں کے اپنے اندر اور ان کے درمیان رسومات اور شناختوں کے وسیع تنوع کو یہ سمجھ کر نظرانداز کیا کہ یہ تنازع مذہبی بنیادوں پر تھا۔ مشترکہ زبان، ادب، موسیقی اور علاقائی و مقامی روایات پر مبنی سانجھی ثقافتیں اسے چیلنج کرتی ہیں۔

ہندو بمقابلہ مسلم کو آپس میں آمنے سامنے کھڑا کرنے والی اصطلاحات نے نوآبادیاتی عہد کے بعد کے جنوبی ایشیا میں اکثریتی گروہ کو مذہبی بنیاد پر عروج حاصل کرنے میں مدد دی جو کہ ایک خود ساختہ بلکہ یہاں تک کہ فرضی خیال پر مبنی ہے۔ ایسا گروہ ہر کسی کے لیے اپنی مرضی کے قوانین بناتا ہے جس کی انتہائی واضح مثال ہندوستان کی موجودہ حکومت کے ذریعے ہندوؤں کا غلبہ ہے۔

نوٹ: یہ تحریر پہلے دا کنورسیشن پر چھپی تھی اور اس کا ترجمہ اجازت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے مصنفین یونیورسٹی آف لنڈن سے وابستہ ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ