’پنجرہ،‘ وہ ڈراما جسے والدین کو ضرور دیکھنا چاہیے

’پنجرہ‘ ڈراما نہیں، والدین کی وہ تیسری آنکھ ہے جس کی مدد سے وہ آج کی دنیا دیکھ سکتے ہیں۔

ڈراما دیکھیں، ایسے ڈرامے بار بار نہیں بنتے۔ کہیں آپ کو اپنا ماضی یاد آئے گا، کہیں حال کا مسئلہ حل ہو جائے گا (اے آر وائی ڈیجیٹل)

یہ ڈراما موجودہ دور میں بچوں کی تربیت کے لیے انسانی نفسیات کی ایک اکادمی کا کام کر رہا ہے جسے والدین کو ضرور دیکھنا چاہیے۔

’پنجرہ‘ ڈراما نہیں، والدین کی وہ تیسری آنکھ ہے جس سے وہ آج کی دنیا دیکھ سکتے ہیں، آج کے دور کے تقاضے جان سکتے ہیں اور اپنے بچوں کو پنجرے سے، قید سے نکال کر ایک آزاد اور صحت مند انسان بنانے میں ان کا ساتھ دے سکتے ہیں۔

ڈرامے کے نام کے ساتھ لکھا ہے، ’سمجھیں اپنے بچوں کو۔‘ یہ ڈراما موجودہ دور میں بچوں کی تربیت کے لیے انسانی نفسیات کی ایک اکادمی کا کام کر رہا ہے جسے والدین کو ضرور دیکھنا چاہیے۔

یہ ٹین ایجر بچوں کی کہانی ہے۔ عمر کا وہ وقت جو شاید سب سے مشکل ہوتا ہے والدین کے لیے بھی اور خود بچوں کے لیے بھی۔ اس دور میں اکثر والدین اپنے بچوں کی تربیت اس ڈگر پہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جن راہوں پہ ان کی اپنی تربیت ہوئی ہے۔ لیکن یہی وہ غلطی ہوتی ہے جو ان کے والدین نے دہرائی ہوتی ہے اور اب وہ خود کرنے جا رہے ہیں۔

اس کلیے کی رو سے ان کی تربیت بہت اچھی ہوئی ہے۔ یہی وہ خوش گمانی ہے جو لے ڈوبتی ہے۔

اس ڈرامے میں بھی تین خاندانوں کے ٹین ایجر بچوں میں جو والدین خوش گمانی کا شکار ہیں کہ وہ بہت اچھی تربیت کر رہے ہیں۔ مسائل اور بےسکونی کا پودا انہی کے گھر میں اگتا ہے۔

خدیجہ اور جاوید کے گھر میں دو بچے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ بچے بغاوت کر دیتے ہیں۔ یہ وہی بغاوت ہے جو ٹین ایج میں بچے اکثر کرتے ہیں کیونکہ ان کے والدین ان کی بات سن اور سمجھ نہیں رہے ہوتے۔ ان کے پاس جو رستہ بچتا ہے وہ تعلیم سے بھاگ جانا یا بستے کے اندر سے راہ فرار نکال لینا ہے۔

تینوں خاندانوں کے بچے سکول جانے والے ہیں اور ایک ہی سکول میں پڑھ رہے ہیں، گویا سکول میں تو ایک ہی ماحول میسر ہے۔

باہر کا ماحول یعنی گھر کا ماحول، والدین کا رویہ، ان چھ بچوں پہ کیسے کیسے اثر انداز ہو رہا ہے، ڈراما اس پہ مبنی ہے۔

ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ والدین کا آپسی رشتہ بچوں کو کیسے متاثر کرتا ہے۔ اگر باپ ماں کو مارتا ہے تو بچے کے اندر کیسے خوف جنم لیتا ہے۔ اگر ماں بیٹی کو مارتی اور ڈانتی ہے، حد سے زیادہ سختی کرتی ہے تو بیٹی کیسے ماں سے بھی اور اس ماحول سے بھی دور ہو جاتی ہے، ایک چھوٹا بچہ کیسے نظر انداز ہو جاتا ہے۔

بچوں کو ڈر سے یا مار سے یا اچانک سزا کے طور ہی خود سے الگ کر کے بورڈنگ میں ڈال دینے کے فیصلے سے اس پر کیا بیتتی ہے۔

حدیقہ کیانی کا کردار بہت اہم ہے۔ وہ شادی سےپہلے گٹارسٹ تھی، گاتی بھی تھی پہلی ہی قسط میں ایک گیت سے خوبصورت انٹری ہوئی ہے۔ کسی بڑی سکرین کا منظر اس کے شوہر کے اچانک گھر آ جانے سے چھوٹی سکرین میں بدل جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک سخت مزاج باپ نے پورے ماحول کو ڈپریشن اور خوف میں مبتلا رکھا ہوا ہے اس لیے اس کے آتے ہی سب تتر بتر ہو جاتے ہیں۔

خدیجہ کے اندر کی ایک مکمل بھرپور عورت دم توڑ کر، خوف کی مورت میں بدل جاتی ہے اور ایک خوف زدہ اور گھٹن زدہ عورت صحت مند تربیت نہیں کر سکتی۔

دوسرا خاندان خدیجہ کی سہیلی وجیہہ کا ہے جو اپنے دونوں بچوں سے دوستانہ ماحول رکھتی ہے، اس لیے سب ایک دوسرے سے اپنی ہر بات آسانی سے شئیر کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بڑے مسائل بھی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں اور ان کا حل نکل آتا ہے۔

وہ آپس میں اپنے شوق، اپنے مشاغل، اپنے مسائل، اپنی پسندیدگی اور ناپسندیدگی بھی بانٹتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب وجیہہ کا شوہر اسے مارتا ہے اگر کوئی بچہ دیکھ یا سن لے تو بھی سمجھ سکتے ہیں کہ غلط کون ہے۔

اگر اب وجیہہ اس سے خلع لے رہی ہے، سالہاسال سے وہ کما کر گھر چلا رہی ہےاور شوہر کو بھی کھلا رہی ہے، اسے مار بھی کھا رہی ہے اور اگر اب اس کی ہمت جواب دے گئی ہے تو بچے اس کا سا تھ دیتے ہیں۔ اس کے برعکس خدیجہ ایک بےبس ماں ہے۔

آج کے دور کے بچوں کے سوشل میڈیا مسائل پہ عمدہ مکالمہ اور کہانی بنی گئی ہے۔ سب بچوں کے ٹیلنٹ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اس کو پرکھنے کا ڈھنگ بتایا گیا ہے۔

بچوں پہ سختی کےاثرات دکھائے گئے ہیں۔ کن حالات میں وہ اپنے آپ سے نفرت کرنے لگتے ہیں، خود کشی کرنے لگتے ہیں یا نشے کی طرف مائل ہونے لگتے ہیں۔

بیٹی اور بیٹے پہ سماجی دباؤ کب اور کیسے آتا ہے۔ بچوں کی صحبت یعنی ان کی دوستیاں ان کی زندگیوں میں کیسے اثرات مرتب کرتی ہیں۔

 بہن بھائیوں کے آپسی تعلقات کب اور کیسے متاثر ہوتے ہوتے خراب ہونے لگتے ہیں۔ بیٹیاں کیسے اپنے اندر کی عورت کو دریافت کر رہی ہوتی ہے، اور بیٹے کیسے اپنے اندر کے مرد سے جنگ میں ہوتے ہیں۔

اس عمر میں ایک چھوٹی سی علت چاہئے ہوتی ہے اگر والدین اسے مثبت طور نہیں دیں گے تو بچے منفی راہوں میں سے رستہ تلاش لیں گے کیونکہ یہ طاقت کی عمر ہوتی ہے، جس کی راہ میں کوئی رکاوٹ آئے تو یہ عمر پار کر جاتی ہے۔

یہ ڈراما والدین کی وہ تیسری آنکھ ہے جسے وہ آج کی دنیا دیکھ سکتے ہیں۔

یہ ڈراما اسما جمیل کے قلم کا آخری شہکار ہے۔ اس کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے انتقال کے بعد ڈرامے کی پروڈکشن شروع ہوئی ۔

ادکاری کے جوہر تو اس ڈرامے میں یہ چھ بچے دکھا رہے ہیں۔ ایمان خان، عاشر وجاہت، احمد عثمان، آئینہ آصف، فرقان قریشی سب اپنے کردار میں جچ رہے ہیں۔

یہ سب بچے کس پنجرے کی قید میں ہیں اس کو اسما جمیل نے اس کمال ناپ تول سے لکھا ہے کہ سکرپٹ کا توازن ذرا بھی نہیں لڑکھڑایا۔

ابھی کہانی میں دو خاندان مزید یعنی دو بچوں کے کردار مزید آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بلال اور عمر جن کے خاندان ان سلیف میڈ گھرانوں سے الگ گھرانے ہیں۔  ان کا سماج و نفسیات الگ ہے۔ اس لیے ان کا عمل اور ردعمل مختلف ہو گا۔

ایک اچھی بات ہے وجیہہ کو ایک ورکنگ لیڈی یعنی ایک ایئر ہوسٹس خاتون دکھایا گیا ہے جو علامتی طور پہ عورت کی پرواز بنتی ہے۔

 ایک گھریلو خاتون خدیجہ اور ایک سوشل سرکل میں موجود عورت وجیہہ کا زندگی کے حوالے سے اعتماد صاف دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدیجہ کا شوہر اسے وجیہہ سےملنے سے روکتا ہے کہ اس کی کنٹرولنگ پاور پہ کہیں خدیجہ کا ٹیلنٹ بھاری نہ پڑ جائے۔

یہ خوف کئی ڈر جنم دیتا ہے اور ہر ڈر اپنے ساتھ ایک پابندی لے کر آتا ہے، ہر پابندی کے ساتھ ایک پنجرے کی ایک تار بنی جاتی ہے یوں کئی تار مل کر ایک پنجرہ بن جاتا ہے۔

جس کو تھیم میں گھر کے سب سے چھوٹے بچے کے گرد دکھایا گیا ہے۔

ڈراما دیکھیں۔ ایسے ڈرامے بار بار نہیں بنتے۔ کہیں آپ کو اپنا ماضی یاد آئے گا، کہیں حال کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ