ڈراما ’تقدیر‘ کا نام رشتے والی آنٹی ہوتا تو بہتر تھا

ڈرامے کی صنفہ نے غلطی سے 10 دیگوں کا مصالحہ ایک ہی دیگ میں ڈال کر پکا دیا اور اس کے ساتھ سویٹ ڈش کا اہتمام بھی نہیں کیا۔

ڈرامے کی ہر قسط میں ایک پرانا جملہ یاد آتا ہے ’ساس بھی کبھی بہو تھی‘ (اے آر وائی فیس بک پیج)

ڈراما ’تقدیر‘ افسانہ تقدیر نہیں، بس بہانہ تقدیر ہے جس کو دیکھنے کے لیے ایک خاص گھریلو مزاج چاہیے۔

ڈرامے کا نام رشتے والی آنٹی یا اس قسم کا کچھ ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔ کوئی قسط ایسی نہیں گزری جس میں ان تین گھرانوں کو ایک ہی وائرس کا شکار نہ پایا ہو۔

تین گھرانوں کا ایک ہی مسئلہ ہے ’رشتہ‘۔ یقین کیجیے سب گھرانوں کو کسی نفسیاتی ڈاکٹر کی اشد ضرورت ہے۔

رومی اپنے کردار میں شہزادیوں، پریوں جیسی فٹ دکھائی دے رہی ہے۔ جس کو بدنصیب ثابت کرنے کے لیے اتنے سارے کردار کام کر رہے ہیں۔

ہر قسط میں ایک پرانا جملہ یاد آتا رہا ’ساس بھی کبھی بہو تھی۔‘

لاڈوں سے پالی اکلوتی بیٹیوں کو والدین اور بھائی گھر میں اگر کچھ نہیں سیکھاتے، ان کو عملی زندگی سے دور رکھتے ہیں تو ان کو تیار رہنا چاہیے کہ ان کی بچی زندگی میں دھکے کھا کر اور دھوکے کھا کر سیکھے گی۔

زندگی جتنی جلد شروع کر دی جائے اتنا جلد جینا آجاتا ہے۔ اس کے برعکس ایک تو آپ نے دوسرے کی زندگی لاڈ پیار میں روکی ہوئی ہے، دوم الزام تیسرے فریق یا نصیب پہ لگا رہے ہیں، تو کافی نامناسب اور نامعقول جواز ہے۔

اس کمی کو بدنصیب کہہ کر خود کو تسلی تو دی جا سکتی ہے لیکن سچائی سے منہ نہیں چھپایا جا سکتا۔

ڈرامے میں اس سچائی سے منہ چھپا کر ایک عجیب معمہ دکھایا جا رہا ہے کہ رومی کے نصیب اچھے نہیں۔

جب کہ اس کے نصیب میں زندگی سیکھنا، اسے برتنا غلط وقت اور نامناسب جگہ پر آیا ہے۔

اگر کسی نے بیٹی شہزادی کی طرح پالی ہے تو اسے کسی شہزادے سے بیاہ دیا کریں تاکہ یہ نصیبوں والی منطق تو بدلے کہ لڑکی سے نہیں اس کے نصیب سے ڈر لگتا ہے۔

نصیب ہوتے ہیں، بالکل ہوتے ہیں لیکن جب تک ہم کسی کھیل میں حصہ ہی نہیں لیں گے، اپنے حصے کی کوشش ہی نہیں کریں گے، نہ دوسرے کو کرنے دیں گے، تب تک ہم کوئی ٹرافی حاصل نہ کرنے کا گلہ شکوہ نہیں کر سکتے۔

جب لڑکی اپنے سے نیچے گھر میں جائے گی تو اسے وہ سب کرنا پڑجاتا ہے جو اس نے کبھی نہ کیا ہو۔

اس میں بدنصیبی کیا ہے کہ ایک گھر کا ماحول نہ آپ نے دیکھا نہ پرکھا، اٹھا کر جلدی سے بیٹی بیاہ دی اور اب رونا رو رہے ہیں۔ ’ہائے نصیب‘۔

رومی نے زندگی کا جوحصہ اپنے والدین کے گھر میں سیکھ کر گزارنا تھا۔ وہ سسرال آ کر گزار رہی ہے تو وہی غلطیاں ہوں گی جو سیکھتے وقت ہوتی ہیں اور ہو رہی ہیں۔

نصیب سے آگے بڑھتے ہیں تو سب مردانہ کردار شدت سے مصنوعی پن کا شکار ہیں اور عورتیں مادیت پرستی میں جتی ہوئی ہیں۔

ایک بچہ احمد اپنی پھوپھو سے پیار کر رہا ہے تو کیا جاتا ہے، اچھا پیغام ہی جا رہا ہے کہ رشتے کتنے اہم ہیں۔

بچے کیسے اپنے خون سے کشش محسوس کرتے ہیں۔ فطری سی بات ہے مشترکہ خاندانی نظام میں یہ محبتیں یونہی تقسیم ہوتی ہیں لیکن بھابھی جان نے اس محبت کو جان کا عذاب بنایا ہوا ہے۔ اگر بھائی بہن سے محبت کرتے ہیں تو بھی سہنا دشوار ہے۔

اگر بیٹے ماں سے محبت کرتے ہیں تو بھی مشکل ہے  اگر ماں بیٹے سے پیار کرتی ہے تو کیوں۔

بس اگر مشکل نہیں ہے تو ایک شوہر اپنی بیوی سے پیار کر رہا ہے تو مزے کی بات ہے۔ ہائے ترسی ہو ئی سوچ ہمیں ڈراموں میں کب تک دیکھنی پڑے گی؟

جیسے پانچ انگلیاں برابر نہ ہوتے ہوئے بھی ایک ہی ہاتھ کا حصہ ہوتی ہیں اسی طرح والدین کی محبت کے حوالے سے ایک انگلی ہر گھر میں بڑی ہوتی ہے۔

اب وہ کوئی بھی بچہ ہو سکتا ہے۔ اس بات کو مسئلہ بنانے کی بجائے فطرت بھی دکھایا جا سکتا تھا کہ اسد چونکہ پہلی اولاد ہے ماں کو اسے زیادہ انس ہے۔

اس لیے بھی اور اس لیے بھی کہ اسد کے چھوٹے بھائی نے ماں کی مرضی کے خلاف اور اسد کی شادی سے پہلے شادی کر لی، دونوں معمے مل کر ماں کی انا کا مسلہ بنے ہوئے ہیں۔

وہ اپنا ساس ہونا جا بجا ہائی لائٹ کرتی ہیں۔ جس کے پاس کرنے کو کچھ نہ ہو، وہ یہی کرے گا جو اس ڈرامے میں ہو رہا ہے۔ یونہی تو نہیں کہتے ’خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے۔‘

مہرین کی ساس صاحبہ ڈٹ کے ٹی وی پہ ساس بہو والے ڈرامے دیکھ دیکھ کر اس پر اپنے ذاتی تجزیے کرتی رہتی ہیں۔ لیکن عملی زندگی میں وہ تجزیوں سے کوسوں دور ایک روایتی ساس ہیں۔

جو ساس وہ ڈراموں میں دیکھا کرتیں تھیں۔ ایسے ایسے گھریلو سیاست کے مناظر ہیں کہ ہمارا غیر سیاسی دماغ ان کو ہضم کرنے سے قاصر ہے۔

سوشل میڈیا پر سمجھ دار خواتین کی طرف سے شدید ردعمل ملتا ہے کہ’یہ ہمارے سماج کی تصویر نہیں ہے۔‘ ’ہر بہو ایسی نہیں ہوتی ۔‘ ’ہر ساس ایسی نہیں ہو تی۔‘ ’بیٹے ایسے نہیں ہوتے۔‘

اجی یہ سب پڑھ کر، دیکھ کر ہمیں تو لگا کہ جناب من ڈرامے بھی ایسے نہیں ہوتے۔ جو گھر لوکیشن میں دکھائے جا رہے ہیں، یہ ان گھروں کے مسائل نہیں ہوتے۔

جن کا ذوق معیاری ہو ان کے شوق اور سوچ بھی اکثر معیاری ہوتی ہے۔ مردوں کے کاروبار میزوں پر بیٹھ کے نہیں چلتے۔ سفر کی خواریاں بھی حصے میں آتی ہیں۔

زندگی کی بیماریاں حملے کرتی ہیں۔ بیٹے جب باپ کے کاروبار سنبھالتے ہیں ان سے 10 غطیاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے باپ، باپ کے روپ میں سامنے دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس کا عمر بھر کا تجربہ ہے کہ ایک غلطی سے کاروبار ڈوب جاتا ہے۔

جب بزنس مین کی میٹنگ چل رہی ہوتی ہے اس کی اخلاقیات کا پہلا سبق موبائل بنا آواز کے ہوتا ہے۔ یہاں عجیب و غریب مرد ہیں اور ہونق قسم کے واقعات سے سین بنے گئے ہیں۔

صرف ہیرو جی کے موبائل کا باجا بجتا ہے اور وہ شدید اداکاری کرتے ہیں۔ اب بزنس کا بہت بڑا حصہ لیپ ٹاپ اور موبائل پر منتقل ہو چکا ہے۔ بیک اپ میں ریکارڈ رکھا جاتا ہے فائلیں ماضی بن چکی ہیں۔

پرانے گھریلو ملازم اگر دکھائے ہیں تو یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ پرانے خاندانی ملازم کو معلوم ہوتا ہے کیا پھیکنا ہے کیا نہیں۔

ایسی بڑے بلنڈر ہو جانے کے باوجود ابا حضور کو بزنس کی پروا نہیں، بیٹوں کے رشتوں کے مسائل پر بیگماتی گفتگو کروائی گئی ہے۔

ان سب مردوں کو کوئی مردانہ مسئلہ لاحق نہیں۔ ان کے مسائل ان کے گھر کی ماں، بہن، بیٹی، بیوی اور ان کے چونچلے اٹھانے سے شروع ہو کر یہیں ختم ہو جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک کامیاب بزنس مین پڑھا لکھا نہ بھی ہو اس کی عمر بھر کی محنت اس کی باڈی لینگویچ سے ملتی ہے۔ 

ان مردوں میں محنت کا جو حسن موجود نہیں۔ وہ اثاثہ زیست ہوتا ہے جو یہاں دکھائی نہیں دے رہا۔

ایسے کاروبار نہیں چلتے، نہ ہی ایسے کاروبار زندگی چلتا ہے کہ مرد و عورت کے مزاج میں نشیب و فراز ہی نہ آئیں۔

نیشب وفزاز کے مزاج کے لیے بس ساسوں اور بہوؤں کو منتخب کیا گیا ہے۔ گویا بس وہی مکمل انسان ہیں باقی سب ہم کوئی غلام ہیں۔

 صنفہ نے غلطی سے 10 دیگوں کا مصالحہ ایک ہی دیگ میں ڈال کر اسے پکا دیا ہے اور اس کے ساتھ سویٹ ڈش کا اہتمام بھی نہیں کیا۔

اس لیے مرچی زیادہ محسوس ہو رہی ہے اور اس کا خیال پوری ٹیم نے نہیں رکھا کہ وہ پیش کیا کرنے جا رہے ہیں۔

اے آر وائی کو اپنے ڈراموں کے معیار اور سماج کی اصل صورت حال پر توجہ دینےکی اشد ضرورت ہے اور ہمیں بھی اپنے حصے کی محنت کیے بنا تقدیر اور دوسروں کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے۔

جاوید دانش اپنی ڈراموں کی کتاب ’ہجرت کے تماشے‘ میں لکھتے ہیں ’ڈراما زندگی کے سفر کا علامتی اظہار ہے۔ انسانیت کو سمجھنے اور انسانی رشتوں کا سفر۔‘

ڈرامے کی ایک تعریف تفریح ہے۔ کیا یہ ڈراما ان دو عناصر پہ پورا اترتا ہے؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی