انسان دوبارہ چاند پر جانے کے لیے تیار مگر اس میں 50 برس کیوں لگ گئے؟

ہمارے قریب ترین پڑوسی پر آخری انسان کو اترے 50 برس ہو چکے اور اب ناسا کا آرٹیمس پروگرام 2025 تک انسان کو چاند پر بھیجنے کے لیے تیار ہے۔ ناسا کو کیوں لگتا ہے کہ یہ بہترین وقت ہے؟

بز ایلڈرن چاند پر (ناسا)

بہت سے لوگ چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان کا نام بتا سکتے ہیں لیکن کتنے لوگ جانتے ہیں کہ چاند پر اترنے والا آخری انسان کون تھا؟

یہ تھے یوجین سرنن، جنہوں نے 14 دسمبر، 1972 کو 17 بج کر 54 منٹ پر چاند کی سطح پر قدم رکھا اور چیلنجر اپالو 17 میں پہلے سے موجود اپنے ساتھی خلاباز ہیریسن ’جیک‘ شمٹ  کے ساتھ شامل ہونے کے لیے واپس لوٹے۔ ان کے بعد چاند کے سفر کا دروازہ بند ہو گیا۔ تب سے کوئی شخص چاند پر قدم نہیں رکھ سکا۔

اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دروازہ دوبارہ کھلنے جا رہا ہے۔ ناسا کے آرٹیمس پروگرام کا مقصد 2025 میں انسان کو چاند پر بھیجنا ہے۔

خلا سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک بار پھر دلچسپ وقت ہے۔

تاہم اپالو 17 اور آرٹیمس کے درمیان 50 سال کا وقفہ (جو ابھی جاری ہے) کیوں رہا؟

انسانیت کی سب سے بڑی تکنیکی کامیابیوں میں سے ایک اپالو پروگرام کو کیوں پس پشت ڈال دیا گیا جس کا نقطہ عروج نیل آرمسٹرانگ کو چاند کی سطح پر قدم رکھنے والا پہلا شخص بنانا تھا؟

شاید زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پانچ دہائیوں کے دوران اس کی طرف لوٹنے کی کوئی ضرورت کیوں نہیں محسوس کی گئی؟

اپالو اپنے زمانے کی پیداوار تھی۔ سرد جنگ کا وہ زمانہ جب امریکہ اور سوویت یونین کرہ ارض کے باقی ممالک کا سیاسی جھکاؤ اور وابستگیاں اپنی طرف کھینچنے کے لیے مدمقابل تھے۔

سچ تو یہ ہے کہ اپالو کہانی کا شاید سب سے حیران کن پہلو یہ ہے کہ جولائی 1969 میں آرمسٹرانگ اور اس کے ساتھی بز ایلڈرین کو اپالو 11 کے ذریعے چاند پر اتارنے کے بعد امریکہ نے کسی اور کو بھی بھیجنے کا تکلف کیا۔

مزید پانچ خلائی جہاز 10 مزید خلابازوں کو ہمارے قریبی پڑوسی تک لے گئے۔ کانگریس میں سیاست دانوں کے لیے بعد کے ان مشنوں کی حیثیت بہت معمولی تھی۔ چاند پر پہلے پہنچنے کے معاملے میں سوویت یونین کو شکست دے کر اپالو 11 نے اپنا مقصد حاصل کر لیا تھا۔ جو چاہیے تھا وہ ہو گیا۔

واشنگٹن ڈی سی میں واقع سمتھ سونیئن ایئر اینڈ سپیس میوزیم میں اپالو خلائی جہازوں سے وابستہ چیزوں کی نگران ٹیزل موئر ہارمنی کا کہنا ہے کہ ’چاند پر پہلے قدم رکھنے سے یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ آپ کا نظریہ بہتر ہے، البتہ اس سے دنیا بھر کی عوام ضرور متاثر ہوتی ہے۔ سو ایک بار جب یہ حاصل ہو گیا تو سیاسی اور عوامی دلچسپی ختم ہو گئی۔‘

1990 سے 2002 تک ناسا کے چیف مورخ کے طور پر خدمات انجام دینے والے روجر لونیئس کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک اور طرح کی جنگ تھی۔ جسے اپالو 11 کے ساتھ ہی امریکہ جیت گیا۔‘ سائنسی جد و جہد پر سیاسی و جغرافیائی بالادستی سبقت لے گئی۔

بھلے سیاست دانوں کے نزدیک نہ سہی لیکن اپالو کے پیچھے یقینی طور پر ناسا کا سائنسی مقصد تھا اور اسے اپالو 11 کے بعد کے مشنز کی چاند پر زیادہ وقت گزارنے کی انتہائی بلند امیدیں تھیں۔

اس نے سائنسی اور ارضیاتی دلچسپی کے مقامات منتخب کیے، سائنسی مہارتوں سے بھرے آلات کا استعمال کرتے ہوئے خلابازوں کے لیے چاند پر زیادہ دور تک چلنے کی منصوبہ بندی کی۔

لیکن سیاسی طبقے اور امریکی عوام کو بتدریج یہ سب وقت کا ضیاع نظر آنے لگا۔

یہاں تک کے اپالو کے عروج کے دنوں میں بھی صرف 53 فیصد امریکیوں نے اسے قابل قدر سمجھا۔ نیل آرمسٹرانگ نے جولائی 1969 میں چاند کی سطح پر اپنا ’ایک مختصر قدم‘ رکھا تو ٹیلی ویژن دیکھنے والوں کے اعداد و شمار نے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے مگر 1972 کے آخر میں جب اپالو 17 اپنی اڑان بھرنے کو تیار تھا تب ایسا کچھ نہیں ہوا۔

اس وقت تک امریکی حکومت کے پیش نظر زمینی مسائل تھے اور وہ سارا سرمایہ ان پر خرچ کر رہی تھی۔

ویتنام کی جنگ میں قوم کی شمولیت نے اپالو کو غیر اہم بنا دیا۔

امریکی بیرون ملک مر رہے تھے اور عوام نے ان کے بجائے چاند پر اترنے کی خاطر خلابازوں پر خرچ کرنا پیسے کا زیاں سمجھا۔ کس مقصد کے لیے؟

اس کے ساتھ اندرون ملک شہری حقوق کی تحریک چل رہی تھی جو دو سو سال قبل اپنی تشکیل کے ساتھ ہی سماجی تقسیم کا شکار ہونے والی قوم کو سیاسی طور پر مزید تقسیم کر رہی تھی۔

موئر ہارمنی کہتی ہیں ’یقیناً اپالو پر ’ضائع ہونے والے‘ تمام پیسے اور وسائل کو ہسپتالوں، کینسر کے علاج، تعلیم، غربت کے خاتمے کی طرف لگانے کا مطالبہ ہمیشہ رہا۔ سو ایک بار جب اپالو 11 کامیابی کے ساتھ واپس آ گیا، تو وہ آوازیں مزید توانا ہو گئیں۔‘

اپالو 13 کے سانحے کو بھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا اور لوگوں کے ذہنوں میں اس کی یاد تازہ تھی۔

اپریل 1970 میں لانچ کیا گیا یہ مشن چاند کی سمت رواں تھا کہ قمری ماڈیول میں دھماکے سے ایک آکسیجن ٹینک کو نقصان پہنچا جس سے ماڈیول کا پروپلشن اور لائف سپورٹ سسٹم ناکارہ ہو گیا۔

تین خلابازوں کو اُس قمری ماڈیول میں منتقل کرنا پڑا جو صرف دو افراد کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا اور جسے زمین پر واپس آنے کے لیے چاند کے گرد چکر لگانے کے لیے استعمال ہونا تھا۔

اس کامیابی کا تمام تر سہرا زمین پر موجود مشن کنٹرولرز کی ذہانت کو جاتا ہے جنہوں نے خلا بازوں کو گھر تک پہنچانے کے لیے کئی جان لیوا رکاوٹوں کو عبور کیا۔

سیاست دان، خاص طور پر صدر رچرڈ نکسن خوفزدہ تھے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے 1967 کے اپالو 1 کے لانچ پیڈ میں بھڑک اٹھنے والی آگ کو یاد کیا جس میں تین آدمی ہلاک ہوئے تھے اور خلائی پرواز میں انسانوں کی شمولیت کے حوالے سے عوامی جوش و خروش کو شدید نقصان پہنچا تھا۔

ایک صدر خلا میں امریکیوں کو کھونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا، یہ تقریباً یقینی طور پر انتخابات میں شکست کا باعث ہو سکتا تھا۔ حکومت کی حمایت میں کمی ہو سکتی تھی۔

موئر ہارمنی کہتی ہیں کہ ’سچ یہ ہے کہ نکسن نے اپنے آپ کو اپالو کے خلابازوں کے ساتھ بہت گہرائی سے جوڑ لیا تھا۔

وہ انہیں اپنے بچوں کی طرح سمجھتے تھے اور اپنی اِس کمزوری کی وجہ سے تمام مشنوں کی نہایت چنتا کرتے۔ لہذا ذاتی اور سیاسی دو سطح پر ان کے لیے ناقابل تصور تھا کہ خلابازوں میں سے کوئی بھی خلا میں موت سے دوچار ہو۔

سب سے پہلے ناسا نے مستقبل کے اپالو مشن کو مختصر کرتے ہوئے اور اپنے سائنسی مقاصد کو محدود کرتے ہوئے اپنے خوابوں کو پس پشت ڈالنا شروع کیا۔ لیکن مالیاتی امور کے نگرانوں کے لیے یہ کافی نہیں تھا۔

1970 کے دوران ناسا کے ایڈمنسٹریٹر تھامس پین کو تین اپالو مشن منسوخ کرنے پر مجبور کیا گیا کہ 18، 19 اور 20 پرواز نہیں کریں گے۔

نومبر 1972 کے انتخابات کو قریب دیکھتے ہوئے صدر نکسن 15 اور 16 کو بھی منسوخ کرنا چاہتے تھے۔ وہ کامیاب نہیں ہوئے لیکن اپالو 17 آخری ثابت ہوا۔

یہ دلیل پیش کی گئی کہ امریکہ کے خلا سے متعلق عزائم کو زمین پر رہ کر بہتر طریقے سے پورا کیا جائے گا۔

بعد میں 1973 میں جا کر لانچ ہونے والے خلائی سٹیشن سکائی لیب اور مستقبل کی خلائی شٹل کو ترجیح دی گئی۔

اس کے علاؤہ امریکہ 1975 کے اپالو۔سویوز ٹیسٹ پروجیکٹ کے لیے عزم تھا جس کا مقصد خلا سے وابستہ مخاصمت میں کمی لانا اور امریکی اور سوویت یونین کے درمیان جاری ’خلائی مقابلہ بازی‘ کو علامتی طور پر ختم کرنا تھا۔

یہ منصوبے خاصے سستے بھی تھے۔ ناسا کی انسان بردار خلائی پرواز کے ڈپٹی ڈائریکٹر جارج Trimble  نے اسے اپالو کا ’مبہم خاتمہ‘ قرار دیا۔

لیکن اپالو ابھی تک مہنگا، مشکل اور خطرناک سمجھا جاتا تھا۔ یہ ووٹرز کی ترجیحات میں سرفہرست نہیں تھا۔

مگر چاند پر آخری انسان کو گئے 50 سال ہو چکے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ نہ صرف امریکہ بلکہ کسی بھی ملک نے دوبارہ اس کا رخ نہیں کیا؟

ممکن ہے آپ ایسا سوچ رہے ہوں مگر یہ محض پیسوں کا معاملہ نہیں۔ دراصل یہ انتہائی پیچیدہ اور مشکل کام ہے اور 1960 کی دہائی میں جو مہارتیں چاند پر اترنے کے لیے استعمال کی جا رہی تھیں اب وہ کہیں اور مرتکز ہیں۔

لوگ لاجسٹک اور انجینیئرنگ کی صلاحیتوں کی تجدید میں ناکام ہو گئے یا بھول گئے اور سائنس کے ماہرین آہستہ آہستہ ختم ہو گئے۔ چاند پر جانا ایک ایسی چیز ہے جو، آرٹیمس کے لیے، شروع سے ہی سیکھنا پڑتی ہے۔

بغیر عملے کے کوئی تحقیقاتی مشن بھیجنا ایک چیز ہے، انسانوں کو خلائی جہاز میں ڈالنا اور اپنے قریبی پڑوسی پر محفوظ طریقے سے اتارنا ایک اور چیز ہے۔

جو حالات اپالو کو پروان چڑھانے کا سبب تھے وہ نہیں رہے اور یہاں تک کہ اگر آپ سرد جنگ کو اپنے تمام تر مفاہیم سمیت نظر انداز کر دیں تب بھی ایسا ہی ہے۔

لندن کے سائنس میوزیم کے سینیئر خلائی نگران ڈگ میلارڈ کہتے ہیں ’اگر آپ سوچتے ہیں کہ ایک بار چاند پر اترنے جیسا ہدف حاصل کر لینے سے یہ آسان ہو جائے گا تو آپ نہایت غلط ہیں۔ لوگوں کو چاند پر لے جانے کا منصوبہ بار بار دہرائے جانے کے لیے تیار نہیں کیا گیا تھا۔‘

وقت، پیسے اور ٹیکنالوجی میں کافی زیادہ سرمایہ کاری آرمسٹرانگ کو سی آف ٹرنکولیٹی لینڈنگ سائٹ تک لے گئی۔ اپالو کو اب تک کا تیار کیا جانے والا سب سے بڑا راکٹ (زحل پنجم)، ایک بہت بڑا لانچ پیڈ اور مشن کنٹرول نیٹ ورک، کمانڈ اور قمری ماڈیولز کے لیے پیچیدہ ڈیزائن، خلائی لباس، زمین کی فضا میں دوبارہ داخلے کے لیے ہیٹ شیلڈز اور مخصوص غذائی اشیا سمیت بے شمار چیزیں درکار تھیں۔

آپ کو یہ سب تیار اور برقرار رکھنے کے لیے سہولیات کی بھی ضرورت ہے۔

ایک بار اگر آپ نے چاند پر جانے کا سلسلہ موقوف کر دیا تو آپ کو ان چیزوں کی مزید ضرورت نہیں رہے گی۔

کارخانے بند ہونے لگتے ہیں اور ملازمین نئی نوکریوں یا ریٹائرمنٹ پر چلے جاتے ہیں۔

موئر ہارمنی کہتی ہیں ’امریکہ نے بالواسطہ اور بلاواسطہ اپالو کے لیے چار لاکھ لوگوں کو ملازمت دی۔ ان کی ملازمتیں اور ان کی روزی روٹی اس منصوبے کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔

جب یہ ختم ہوا تو ان میں سے بیشتر آگے بڑھ گئے۔ انسانوں کی اتنی بڑی تعداد کو ایک بار پھر منظم کرنے کی کوشش کرنا ایک انتہائی مشکل بلکہ تقریباً ناممکن کام ہوتا۔ اور کس لیے؟ مقصد تو حاصل ہو چکا تھا۔‘

لہذا جب آپ دس، بیس یا جیسا کہ اب ہوا پچاس برس بعد چاند پر واپس جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ کو بالکل آغاز سے شروع کرنا ہو گا۔ کیونکہ ہمارے پاس نیا مواد، نئے ایندھن، نئے کمپیوٹر، نئے سوٹ، نئے خلائی جہاز کے ڈیزائن، ہر چیز نئی ہے سو ہم نے جو کچھ سیکھا، جو کچھ ایجاد کیا اور جو کچھ ہم نے 1960 کی دہائی میں استعمال کیا وہ سب بالکل بے کار ہے۔

اپالو میں 64 کے بی میموری والا کمپیوٹر تھا جو اس وقت جدید ترین تھا لیکن آرٹیمس میں اس کی ضرورت نہیں ہو گی۔

یقیناً خلابازوں کو سوار کرنے کا خطرہ مول لینے سے پہلے ہر چیز کو بار بار جانچنے کی ضرورت ہے۔

دو خلائی مشینوں کی حادثات اور ان پر عوامی ردعمل نے ناسا کو محتاط کر دیا۔

عام شہریوں سمیت خلابازوں کا کھو جانا خلائی پروگرام اور انتظامیہ کی ساکھ کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ تھا۔

یہاں تک کہ جانچے گئے اور تجربہ شدہ آلات کا استعمال کرتے ہوئے بھی خلا اور چاند مہلک مقامات ہیں جہاں براہ راست سورج کی روشنی میں اوپر والا درجہ حرارت 127C اور چاند کے قطبین کے سائے میں وہ -253C تک گر جاتا ہے۔

وہاں انسانوں کو زندہ اور محفوظ رکھنے میں کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔ یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا کے ایروناٹیکل انجینیئر مدھو تھنگاویلو کہتے ہیں، ’چاند سے زیادہ رہنے کے لیے ماحول کے لحاظ سے بے رحم یا سخت جگہ کوئی دوسری نہیں۔‘

میلارڈ یہ نکتہ بھی اٹھاتے ہیں کہ اپالو کے وقتوں کی طرز پر کام کرنے کے لیے ناسا کے بنیادی ڈھانچے کو اُنہی خطوط پر کھڑا کرنا ہو گا جو نہایت مشکل ہے۔

’امریکی فوجی انجینئروں اور تکنیکی ماہرین کا وہ گروہ دوسری جنگ عظیم کے دوران زندگی گزارنے والی آخری نسل تھی جو ناسا میں رہتی تھی اور اپالو پروگرام کو چلاتی تھی۔

ان کی ہوا بازی اور فوجی مہارت، جو کامیابی کے لیے ضروری ہے، کو انتہائی ذہانت کے بغیر دہرانا بہت مشکل ہو گا۔‘

یہ محض ہارڈ ویئر اور اس کی تعمیر اور ہدایت کاری ہی نہیں ہے جو نمایاں طور پر تبدیل ہوئے بلکہ اس میں مشن کے مقاصد بھی شامل ہیں۔

سرد جنگ نے کرہ ارض پر تقریباً ہر شخص کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کیا سو تب عوام کا ایک بڑا حصہ دیکھ سکتا تھا کہ ان کے ٹیکسوں کو اپالو کی فنڈنگ کے لیے کیوں استعمال کیا جا رہا ہے۔

لیکن آج کیوں؟ چاند پر قدم رکھنے کے پروگرام کو بڑے پیمانے پر قبولیت حاصل کرنے سے پہلے ثابت کرنا ہو گا کہ یہ معاشرے کے لیے بہت زیادہ سود مند ہو سکتا ہے۔

اسی لیے اپالو کی موت اور آرٹیمس کی پیدائش کے درمیان اتنا وقت لگا۔

اس کے باوجود اسے نجی مالی امداد کی ضرورت ہے، ایلون مسک کے سپیس ایکس اور جیف بیزوس کے بلیو اوریجن جیسی مثالوں کو ذہن میں لائیں، تاکہ قومی خواہش اور ٹیکس دہندگان کے پیسوں کے درمیان واقع گہری خلیج کو پر کیا جاسکے۔

اپالو 17 کے شمٹ  کا کہنا ہے کہ ’چاند کی تلاش کا مستقبل پرائیویٹ انٹرپرائز سے وابستہ ہے۔‘

ناسا کی سابق ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر لوری گارور کا کہنا ہے کہ ’اپالو خوف اور شان و شوکت کا ملا جلا نمونہ تھا۔ میرے خیال میں آج کی نشاۃ ثانیہ ہوس سے لتھڑی ہوئی ہے اور مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

چاند سے تجارتی فوائد حاصل ہوں گے یا نہیں اس کا تعین ابھی باقی ہے لیکن بہت سارے لوگ کوشش کرنے اور تلاش کرنے کے لیے تیار ہیں۔

کچھ دوسرے لوگ چاند کو دولت کے راستے میں محض ایک وسیلے کے طور پر دیکھتے ہیں جو مریخ تک لے جا سکتا ہے، چاند پر عملے کا پڑاؤ قائم کرنے سے بہت سارے ایسے ہی مواقع کھل جائیں گے۔

2018 اور 2021 کے درمیان ناسا کے ایڈمنسٹریٹر رہنے والے جم برائیڈنسٹائن کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک منطقی قدم ہے۔‘

جب چین سے لے کر جاپان اور انڈیا سے لے کر برازیل تک قومیں خلا میں اپنا نقش ثابت کرنے کی کوششوں کا آغاز کر رہی ہیں ایسے حالات میں کبھی خلائی دوڑ کا فاتح رہنے والا امریکہ خود کو پیچھے ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا۔

جہاں ایک بار حکومتوں اور صدور کو چاند پر نئے مشن کی طرف داری سیاسی طور پر حزب اختلاف کے لیے سابقہ برسر اقتدار طبقے کے ’احمقانہ اور مہنگے مجوزہ منصوبوں‘ کی فوری طور پر منسوخی کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کا بہانہ تھی وہاں اب خلا میں کامیابی ایک بار پھر اہم چیز بن گئی ہے۔

برائیڈنسٹائن کہتے ہیں ’بجٹ بدل جاتے ہیں، انتظامیہ بدل جاتی ہے اور ترجیحات بدل جاتی ہیں۔‘

لیکن ایسا لگتا ہے تفاخر کو اب بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ شاید گارور کی بات ٹھیک نہ ہو جب وہ کہتی ہیں کہ یہ سب کچھ محض دولت کی خاطر ہے۔

جب یوجین سرنن چیلنجر پر چڑھے تب چاند پر چلنا اپنی رومانویت کھو چکا تھا۔

درمیان کے 50 برس خلائی پرواز کی انسانی حدود کو آگے بڑھانے کے خواہشمند افراد پر مہربان نہیں رہے۔

زمین پر بسنے والے افراد بین الاقوامی خلائی سٹیشن کی ہر نئی اڑان یا مریخ پر پہنچنے والی ریموٹ کنٹرول مشینوں کی ہر نئی پرواز کے متعلق بے تابی سے انتظار نہیں کر رہے تھے۔

آرٹیمیس 1 کی سولہ نومبر کو رونمائی ہوئی، ناسا کے خلائی لانچ سسٹم کے ذریعے چاند پر پہنچنے والے اگلے مشن نے عملے کے بغیر مشق کی، یہ اب تک بنایا گیا سب سے بڑا اور تیز ترین راکٹ ہے جس نے حتی کہ زحل V کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

یہ اپنے اورین کریو ماڈیول میں لوگوں کو ماضی کی نسبت نظام شمسی میں کہیں زیادہ دور تک آگے لے جائے گا۔

اگر سب کچھ منصوبہ بندی کے مطابق ہوتا ہے تو 2025 کے ساتھ ہی بشمول پہلی خاتون اور غیر سفید افراد سمیت انسان چاند پر ہو گا۔

ابھی تک محض 12 افراد نے ہمارے قریبی پڑوسی کا دورہ کیا ہے جو سبھی سفید فام مرد ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ آرٹیمس وہاں موجود چیزوں میں انسانیت کی دلچسپی کو دوبارہ زندہ کرے۔

لیکن فی الحال اس پروگرام کے لیے عوامی جوش و خروش میں نمایاں کمی پائی جاتی ہے، محض 38 فیصد امریکیوں کے خیال میں آرٹیمیس کو آگے بڑھنا چاہیے جبکہ 91 فیصد کے خیال میں ناسا کو قاتل سیارچوں کو تلاش کرنے پر توجہ دینی چاہیے، لیکن یقیناً کسی دوسری دنیا میں انسان کو پہنچا ہوا دیکھ کر یہ بدل جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خلائی تجزیہ کرنے والی فرم ’آسٹریلیٹیکا‘ کی بانی لارا فورچک کہتی ہیں کہ ’امریکہ کی زیادہ تر تعداد ناسا کے منصوبوں پر توجہ نہیں دے رہی۔

’لیکن مجھے یقین ہے کہ کسی شخص کو حقیقت میں اجنبی سرزمین پر چلتے ہوئے دیکھنا بہت سے لوگوں کی سوچ بدل کر رکھ دے گا۔‘

جیسا کہ یوجین سرنن کو بہت اچھے سے علم ہے کہ انسانی عنصر بہت واضح فرق ڈالتا ہے۔

 ایک روبوٹ کو خلا میں بھیجیں اور دنیا بمشکل آنکھ اٹھا کر دیکھے گی لیکن انسان کو چاند یا شاید مریخ پر پہنچانا؟ پھر آپ کے پاس سنانے کے لیے ایک کہانی ہے۔

ٹورس لٹرو نامی مقام پر اپالو 17 کی لینڈنگ سائٹ سے ان کے ادا کردہ آخری الفاظ کو دیکھتے ہوئے واضح پتہ چلتا ہے کہ یوجین سرنن کو انسانوں کے دوبارہ یہاں آنے میں نصف صدی لگانے کی توقع نہیں تھی۔

انہوں نے پیش گوئی کی تھی کہ یہ ’مستقبل میں زیادہ دور نہیں ہو گا۔‘ انہوں نے یہ بھی توقع کی تھی کہ بیسویں صدی کے آخر تک انسان مریخ پر اتر چکے ہوں گے۔

تاہم ایک دن چاند پر آخری شخص کے طور پر یوجین سرنن کا ’ریکارڈ‘ ختم ہو جائے گا۔

چاند پر صرف ایک پہلا آدمی ہو سکتا ہے، نیل آرمسٹرانگ کا تاریخ میں مقام یقینی ہے، لیکن ’آخری آدمی‘ ایک حرکت پذیر عمل ہے۔

یوجین سرنن کے نام کی جگہ بالآخر کوئی اور نام آجائے گا۔

جب اپالو 17 کی 60 ویں سالگرہ منائی جائے گی تو یہ ماضی کی نسبت اب کہیں زیادہ یقینی لگتا ہے کہ ہم ایک نئے ’آخری انسان‘ کو دیکھ رہے ہوں گے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ